"نور الدین زنگی" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سابقہ ترمیم بحال
سطر 4:
| title= امیر دمشق و حلب
|full name= المالک العادل نور الدین ابو القاسم محمود ابن عماد الدین زنگی
| reign= حلب 1146ء1146-1174ء1174<br />دمشق 1156ء1156-1174ء1174
| date1=
| date2=
سطر 13:
|dynasty=[[زنگی خاندان]]
|father=[[عماد الدین زنگی]]
| birth_date= 1118ء1118
| birth_place=
| death_date= 15 May 1174
| death_place= [[دمشق]]،, [[شام]]
| place of burial=[[مدرسہ نوریہ]]
}}
سطر 26:
== فتوحات و کارنامے ==
اس نے عیسائیوں سے [[بیت المقدس]] واپس لینے کے لیے پہلے ایک مضبوط حکومت قائم کرنے کی کوشش کی اور اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے گرد و نواح کی چھوٹی چھوٹی مسلمان حکومتوں کو ختم کرکے ان کو اپنی مملکت میں شامل کرلیا۔ شروع میں نورالدین کا دارالحکومت [[حلب]] تھا۔ 549ھ میں اس نے [[دمشق]] پر قبضہ کرکے اسے دارالحکومت قرار دیا۔ اس نے صلیبی ریاست [[انطاکیہ]] پر حملے کرکے کئی قلعوں پر قبضہ کرلیا اور بعد ازاں ریاست [[ایڈیسا]] پر مسلمانوں کا قبضہ ختم کرنے کیکے عیسالیے ئیوںعیسائیوں کی کوشش کو بھی ناکام بنا دیا۔ [[دوسری صلیبی جنگ]] کے دوران [[دمشق]] پر قبضہ کرنے کی کوششوں کوکوششیں بھی [[سیف الدین غازی]] اور [[معین الدین]] کی مدد سے ناکام بنا دیں اور [[بیت المقدس]] سے عیسائیوں کو نکالنے کی راہ ہموار کردی۔
[[ملف:Omayyad mosque.jpg|thumb|اموی مسجد، دمشق]]
[[دوسری صلیبی جنگ]] میں فتح کی بدولت ہی مسلمان [[تیسری صلیبی جنگ]] میں فتح یابفتحیاب ہوکر بیت المقدس واپس لینے میں کامیاب ہوئے۔ اس زمانے میں [[مصر]] میں [[سلطنت فاطمیہ|فاطمی]] حکومت قائم تھی لیکن اب وہ بالکل کمزور ہوگئی تھی اور مصر چونکہ [[فلسطین]] سے ملا ہوا تھا اس لیے عیسائی اس پر قبضہ کرنا چاہتے تھے۔ یہ دیکھ کر نورالدین نے ایک فوج بھیج کر [[564ء]] میں مصر پر بھی قبضہ کرلیا اور فاطمی حکومت کا خاتمہ کردیا۔
 
=== '''سلطان نور الدین زنگی اور روضہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حفاظت کی سعادت''' ===
یہ واقعہ مدینہ کی تاریخ کی تقریباً تمام کتب میں موجود ہے۔ اس کا ذکر شیخ محمد عبدالحق محدث دہلوی علیہ رحمہ نے بھی اپنی کتاب "تاریخ مدینہ" میں تین بڑی سازشوں کے ساتھ کیا ہے جس میں سے یہ واقعہ سب سے مشہور ہے۔
 
واقعہ پیش خدمت ہے-
 
سمہودی کے قول کے مطابق عیسائیوں نے یہ سازش 557 ھ میں مرتب کی۔ اس وقت شام کے بادشاہ کا نام سلطان نورالدین زنگی تھا اور اس کے مشیر کا نام جمال الدین اصفہانی تھا۔ ایک رات نمازِ تہجّد کے بعد سلطان نور الدین زنگی نے خواب میں دیکھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دو سرخی مائل رنگت کے آدمیوں کی طرف اشارہ کرکے سلطان سے کہہ رہے ہیں کہ "مجھے ان کے شر سے بچاؤ۔" سلطان ہڑبڑا کر اٹھا۔ وضو کیا' نفل ادا کیے اور پھر اس کی آنکھ لگ گئی۔ خواب دیکھنے کے بعد آپ یہاں کیوں بیٹھے ہیں؟ اس کا اب کسی سے ذکر نہ کریں اور فوراً مدینہ روانہ ہوجائیں۔ " اگلے روز سلطان نے بیس مخصوص افراد اور بہت سے تحائف کے ساتھ مدینہ کے لیے کوچ کیا اور سولہویں روز شام کے وقت وہاں پہنچ گیا۔ سلطان نے روضہٴ رسول پر حاضری دی اور مسجدِ نبوی میں بیٹھ گیا۔ اعلان کیا کہ اہل مدینہ مسجد نبوی میں پہنچ جائیں جہاں سلطان ان میں تحائف تقسیم کرے گا۔ لوگ آتے گئے اور سلطان ہر آنے والے کو باری باری تحفہ دیتا رہا ۔ اس دوران وہ ہر شخص کو غور سے دیکھتا رہا لیکن وہ دو چہرے نظر نہ آئے جو اسے ایک رات میں تین بار خواب میں دکھائے گئے تھے۔ سلطان نے حاضرین سے پوچھا۔ "کیا مدینہ کا ہر شہری مجھ سے مل چکا ہے۔ ؟" جواب اثبات میں تھا۔ سلطان نے پھر پوچھا۔ "کیا تمہیں یقین ہے کہ ہر شہری مجھ سے مل چکا ہے ؟" اس بار حاضرین نے کہا۔ "سوائے دو آدمیوں کے۔ " راز تقریباً فاش ہوچکا تھا........... سلطان نے پوچھا ۔ "وہ کون ہیں اور اپنا تحفہ لینے کیوں نہیں آئے۔ ؟" بتایا گیا کہ یہ مراکش کے صوم و صلوٰة کے پابند دو متقی باشندے ہیں ۔ دن رات رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود سلام بھیجتے ہیں اور ہر ہفتے مسجدِ قبا جاتے ہیں۔ فیاض اور مہمان نواز ہیں۔ کسی کا دیا نہیں لیتے۔ سلطان نے کہا۔ "سبحان اللہ !" اور حکم دیا کہ ان دونوں کو بھی اپنے تحائف وصول کرنے کے لیے فوراً بلایا جائے۔ جب انہیں یہ خصوصی پیغام ملا تو انہوں نے کہا۔ "الحمدللہ ! ہمارے پاس اللہ کا دیا سب کچھ ہے اور ہمیں کسی تحفے تحائف یا خیر خیرات کی حاجت نہیں۔ " جب یہ جواب سلطان تک پہنچایا گیا تو اس نے حکم دیا کہ ان دونوں کو فوراً پیش کیا جائے۔ حکم کی فوری تعمیل ہوئی۔ ایک جھلک ان کی شناخت کے لیے کافی تھی تاہم سلطان نے اپنا غصہ قابو میں رکھا اور پوچھا۔ "تم کون ہو..؟ یہاں کیوں آئے ہو؟" انہوں نے کہا "ہم مراکش کے رہنے والے ہیں۔ حج کے لیے آئے تھے اور اب روضہٴ رسول کے سائے میں زندگی گزارنا چاہتے ہیں۔ " سلطان نے سختی سے کہا۔ "کیا تم نے جھوٹ بولنے کی قسم کھا رکھی ہے؟" اب وہ چپ رہے۔ سلطان نے حاضرین سے پوچھا۔ یہ کہاں رہ رہے ہیں؟" بتایا گیا کہ روضہٴ نبوی کے بالکل نزدیک ایک مکان میں جو مسجدِ نبوی کے جنوب مغرب میں دیوار کے ساتھ تھا۔ سلطان فوراً اٹھا اور انہیں ساتھ لے کر اس مکان میں داخل ہو گیا۔ سلطان مکان میں گھومتا پھرتا رہا۔ اچانک نئے اور قیمتی سامان سے بھرے ہوئے اس مکان میں اس کی نظر فرش پر پڑی ہوئی ایک چٹائی پر پڑی۔ نظر پڑنی تھی کہ دونوں مراکشی باشندوں کی ہوائیاں اڑ گئیں۔ سلطان نے چٹائی اٹھائی۔ اس کے نیچے ایک تازہ کھدی ہوئی سرنگ تھی۔ سلطان نے گرج کر کہا۔ "کیا اب بھی سچ نہ بولو گے؟؟؟" ان کے پاس سچ کے سوا کوئی چارہ نہ تھا ۔ انہوں نے اعتراف کیا کہ وہ عیسائی ہیں اور ان کے حکمراں نے انہیں بہت سا مال و زر اور ساز و سامان دے کر حاجیوں کے روپ میں مراکش سے اس منصوبے پر حجاز بھیجا تھا کہ وہ کسی نہ کسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا جسدِ اقدس روضہٴ مبارک سے نکال کر لے آئیں۔ اس ناپاک منصوبے کی تکمیل کے لیے انہوں نے حج کا بہانہ کیا اور اس کے بعد روضہٴ رسول سے نزدیک ترین جو مکان کرائے پر مل سکتا تھا' وہ لے کر اپنا مذموم کام شروع کر دیا۔ ہر رات وہ سرنگ کھودتے جس کا رخ روضہٴ مبارک کی طرف تھا اور ہر صبح کھدی ہوئی مٹی چمڑے کے تھیلوں میں بھر کر جنّت البقیع لے جاتے اور اسے قبروں پر بکھیر دیتے۔ انہوں نے بتایا کہ ان کی ناپاک مہم بالکل آخری مراحل میں تھی کہ ایک رات موسلادھار بارش کے ساتھ ایسی گرج چمک ہوئی جیسے زلزلہ آ گیا ہو اور اب جب کہ ان کا کام پایہٴ تکمیل کو پہنچنے والا تھا تو سلطان نہ جانے کیسے مدینے پہنچ گئے۔سلطان ان کی گفتگو سنتے جاتے اور روتے جاتے اور ساتھ ہی فرماتے جاتے کہ "میرا نصیب !!! کہ پوری دنیا میں سے اس خدمت کے لئے اس غلام کو چنا گیا" سلطان نور الدین زنگی نے حکم دیا کہ ان دونوں کو قتل کردیا جائے اور روضہٴ مبارک کے گرد ایک خندق کھودی جائے اور اسے پگھلے ہوئے سیسے سے پاٹ دیا جائے تاکہ آئندہ کوئی بدبخت ایسی مذموم حرکت کے بارے میں سوچ بھی نہ سکے۔ مذکورہ بالا واقعہ 558ھ (مطابق 1142ء) کا ہے.. سلطان نے روضہ مبارک کے قریب ایک چبوترابھی بنوایا تاکہ اس پر ان قبور کی حفاظت کے لئے ہروقت پاسبان رہیں۔ یہ چبوترا اب بھی موجود ہے اور باب جبریل سے داخل ہوتے ہی دائیں جانب ہے۔بعض زائرین اسے مقام صفہ سمجھتے ہیں حالانکہ مقام اصحاب صفہ مسجد نبوی کے اندر تھا جب کہ چبوترا اُس وقت کی مسجد کی چاردیواری سے باہر تھا۔ مقام اصحاب صفہ کے تعین کے لئے استونہ عائشہ سے شمال کو چلئے۔ (یعنی قبلہ کی سمت کے خلاف) پانچویں ستوں کے قریب مقام اصحاب صفہ ہے۔ یا یہ کہ پرانے باب جبریل کے بالمقابل یہ مقام تھا۔ یاد رہے کہ وہاں اس وقت کوئی چبوترا نہیں۔
 
== انتقال ==
[[مصر]] پر قبضہ کرنے کے بعد نورالدین نے بیت المقدس پر حملہ کرنے کی تیاریاں شروع کردیں۔ بیت المقدس کی [[مسجد عمر]] میں رکھنے کے لیے اس نے اعلیٰ درجے کا منبر تیار کروایا۔ اس کی خواہش تھی کہ فتح بیت المقدس کے بعد وہ اس منبر کو اپنے ہاتھوں سے رکھے گا لیکن خدا کو یہ منظور نہ تھا۔ نورالدین ابھی حملے کی تیاریاں ہی کررہا تھا کہ زنگی کو [[حشاشین]] نے زہر دیا{{حوالہ درکار}} جس سے ان کے گلے میں سوزش پیدا هوگئیهو گئی جو کے ان کی موت کا باعث بنی۔ 15 مئی 1174ء کو ان کا انتقال ہوگیا۔ انتقال کے وقت نورالدین کی عمر 58 سال تھی۔
 
== کردار ==
سطر 48 ⟵ 41:
== رفاہ عامہ اور فلاحی کام ==
نور الدین صرف ایک فاتح نہیں تھا بلکہ ایک شفیق حکمران اور علم پرور بادشاہ تھا۔ اس نے سلطنت میں مدرسوں اور ہسپتالوں کا جال بچھا دیا۔ اس کے انصاف کے قصے دور دور تک مشہور تھے۔تھی۔ وہ بڑی ذاتی زندگی گزارتا تھا، بیت المال کا روپیہ کبھی ذاتی خرچ میں نہیں لایا۔ مال غنیمت سے اس نے چند دکانیں خرید لیں تھیں جن کے کرائے سے وہ اپنا خرچ پورا کرتا تھا۔ اس نے اپنے لیے بڑے بڑے محل تعمیر نہیں کئے بلکہ بیت المال کا روپیہ مدرسوں، شفاخانوں اور مسافر خانوں کے قائم کرنے اور رفاہ عامہ کے دیگر کاموں میں صرف کرتا۔ دمشق میں اس نے ایک شاندار شفاخانہ قائم کیا تھا جس کی دنیا میں مثال نہ تھی۔ اس میں مریضوں کو دوا بھی مفت دی جاتی تھی اور کھانے اورکا رہنے کا خرچ بھی حکومت کی طرف سے ادا کیا جاتا تھا۔ نور الدین نے تمام ناجائز ٹیکس موقوف کردیے تھے۔ وہ مظلوموں کی شکایت خود سنتا اور اس کی تفتیش کرتا تھا۔
نور الدین کی ان خوبیوں اور کارناموں کی وجہ سے اس زمانے کے ایک مورخ ابن اثیر نے لکھا ہے کہ: “میں”میں نے اسلامی عہد کے حکمرانوں سے لے کر اس وقت تک کے تمام بادشاہوں کی تاریخ کا مطالعہ کیا لیکن خلفائے راشدین اور عمر بن عبدالعزیز کے سوا نور الدین سے زیادہ بہتر فرمانروا میری نظر سے نہیں گزرا”۔گزرا“۔
 
== متعلقہ مضامین ==