"ہرمزان" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
(ٹیگ: ترمیم از موبائل موبائل ویب ترمیم)
(ٹیگ: ترمیم از موبائل موبائل ویب ترمیم)
سطر 2:
 
== حالات زندگی==
[[ایرانی|ایرانیوں]] کا نامی سردار ہرمزان جنگ قادسیہ سے فرار ہو کر صوبہ اہواز کے دارالصدر خوزستان میں آ کر فوجیں جمع کرنے کی کوشش میں مصروف ہوگیا جس نے اپنی حدود حکومت کو وسیع کرنا شروع کیا‘کیا کوفہ و بصرہ کی چھاؤنیوں سے اسلامی افواج نے اس پر حملہ کیا اور شکست پر شکست دے کر صوبہ اہواز پر اپنا قبضہ کر لیا اس نے جزیہ دے کر مسلمانوں سے صلح کر لی‘ پھرچند روز کے بعد ہرمزان نے بغاوت اختیار کی اور مقام سوق اہواز میں اسلامی فوج سے شکست کھا کر مقام رام ہرمز میں جا کر پناہ لی۔دوسری مرتبہ ہرمزان نے عاجز ہو کر پھر صلح کی درخواست کی اور ادائے جزیہ کی شرط پر مسلمانوں نے باقی علاقہ ہرمزان کے قبضہ میں چھوڑ کر اس سے پھر صلح کر لی‘ سیدنا حرقوص بن زہیر سعدی فاتح اہواز نے جبل اہواز پر ڈیرے ڈال کرعلاقہ اہواز کے ویران شدہ شہروں کی آبادی کا کام شروع کیا۔
تیسری مرتبہ ہرمزان میدان میں نکلا‘ لڑائی ہوئی‘ ہرمزان کو شکست فاش حاصل ہوئی اور مسلمانوں نے رام ہرمز پر قبضہ کر لیا‘ ہرمزان شکست خوردہ فرار ہو کر مقام تستر میں پہنچ کر مسلمانوں کے خلاف فوجیں جمع کرنے لگا تستر کے قلعہ کی مرمت بھی کرا لی‘ چاروں طرف خندق کو بھی درست کرلیا اور برجوں کی پورے طور پر مضبوطی کر لی‘ ایرانی فوجیں بھی تستر میں اس کے پاس آ آ کر جمع ہونے لگیں‘ ان حالات سے مطلع ہو کر [[عمر فاروق|فاروق اعظم]] نے سیدنا ابو موسیٰ اشعری کو بصرہ کی افواج کا سردار بنا کر بھیجا۔
[[ابو موسیٰ اشعری]] نے [[تستر]] کی جانب حرکت کے قریب پہنچ کر لڑائیوں کا سلسلہ جاری کیا‘ ہرمزان نے اول کئی معرکے میدان میں کئے‘ پھر تستر میں محصور ہو کر مدافعت میں مستعد ہوا‘ بہت سی لڑائیوں اور حملہ آوریوں کے بعد شہر تستر پر مسلمانوں کا قبضہ ہو گیا‘ ہرمزان نے تستر کے قلعہ میں پناہ لی‘ قریب تھا کہ قلعہ پر بھی مسلمانوں کا قبضہ ہو جائے کہ ہرمزان نے ابوموسیٰ کی خدمت میں یہ درخواست بھیجی کہ میں اپنے آپ کو اس شرط پر تمہارے سپرد کرتا ہوں کہ مجھ کو فاروق اعظم کی خدمت میں بھیج دیا جائے اور میرے معاملہ کو انہیں کے فیصلہ پر چھوڑ دیا جائے‘ ابو موسیٰ نے اس شرط کو منظور کر لیا‘ چنانچہ ہرمزان کو انس بن مالک اور احنف بن قیس وغیرہ کی ایک سفارت کے ہمراہ مدینہ منورہ کی جانب روانہ کیا گیا۔
[[مدینہ منورہ]] کے قریب پہنچ کر ہرمزان نے مرصع تاج سر پر رکھا اور زرق برق لباس پہنا‘ فاروق اعظم نے جب ایسے بڑے سردار کو اس طرح گرفتار دیکھا تو [[اللہ تعالیٰ]] کا شکر ادا کیا‘ ہرمزان سے پوچھا تم نے کئی مرتبہ بد عہدی کی ہے‘ اس کی سزا میں تمہارے ساتھ کس قسم کا سلوک کیا جائے اور بتاؤ کہ تم اپنی براء ت اور معذرت میں کیا کہنا چاہتے ہو؟۔ ہرمزان نے کہا مجھے خوف ہے کہ کہیں تم میری طرف سے معذرت سنے بغیر ہی مجھ کو قتل نہ کر دو‘ فاروق اعظم نے فرمایا نہیں تم خوف نہ کرو‘ تمہاری معذرت ضرور سنی جائے گی‘ پھر ہرمزان نے پانی مانگا‘ پانی آیا تو ہرمزان نے پیالہ ہاتھ میں لے کر کہا‘ مجھے خوف معلوم ہوتا ہے کہ کہیں تم مجھ کو پانی پینے کی حالت میں قتل نہ کر دو‘ فاروق اعظم نے فرمایا‘ تم مطلق خوف نہ کرو جب تک پانی نہ پی لو گے اس وقت تک تم کو کوئی نقصان نہ پہنچایا جائے گا‘ ہرمزان نے یہ سنتے ہی پیالہ ہاتھ سے رکھ دیا اور کہا کہ میں پانی نہیں پیتا اور اس شرط کے موافق اب تم مجھ کو قتل نہیں کر سکتے‘ کیوں کہ تم نے مجھ کو امان دے دی ہے۔
 
== سیدنا عمر فاروق کا حسن سلوک ==