"یوشع بن نون" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
(ٹیگ: القاب)
سطر 1:
{{کام جاری|}}
{{Infobox saint
|name=یوشع بن نون<br />
سطر 28 ⟵ 29:
}}
{{قضاۃ}}
'''یشوع یا یوشع بن نون''' ({{IPAc-en|ˈ|dʒ|ɒ|ʃ|uː|ə}}) یا '''جاہیشوا''' ({{lang-he-n|יְהוֹשֻׁעַ}} ''یاہوشوآ'' یا {{lang-he-n|יֵשׁוּעַ}} ''یشوعوا''; {{lang-arc|ܝܫܘܥ}} ''ایشا''; {{lang-el|Ἰησοῦς}} ،{{lang-ar|يوشع بن نون}}، {{lang-la|یوسوے}}، ''یوشع ابن نون''، {{lang-tr|یوشع}})، ایک [[تورات]] میں مذکور شخصیت ہے، جسے بطور جاسوس پیش کیا گیا ہے (گنتی 13–14) اور کئی مقامات پر موسی کے مددگار کے طور پر ۔<ref>Michael D. Coogan, "A Brief Introduction to the Old Testament" page 166-167, Oxford University Press, 2009</ref> یوشع، اسلام کے مطابق، حضرت [[موسیٰ علیہ السلام(مذہبی شخصیت)]]کے بھانجے اورجانشین تھے <ref>تفسیر الطبری{{مکمل حوالہ درکار}}</ref> اور ایک جنگجو سورما تھے، نڈر مگر دل میں خوف خدا رکھتے تھے۔ کنعان کے حالات دیکھنے کے لیے جانے والوں میں حضرت یشوع بھی شامل تھے مگر واپس آ کر جہاد کرنے سے ڈرے نہیں۔ آپ کو حضرت موسیٰ نے اپنا جانشین مقرر کیا تھا۔ اس جانشین مقرر کرنے کا ذکر [[کتاب استثنا]] کے کے باب 31 میں ہے۔اُن کا عہد چودہویں صدی قبل مسیح کا ہے۔حضرت یشوع سے [[عہد نامہ قدیم]] کی ایک [[کتاب یشوع]] بھی منسوب ہے۔<br />
قرآن کریم میں بغیر نام لیے آپ کا ذکر [[سورۃ الکہف]] کی آیت 60 اور 62 میں ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنے نوجوان یا شاگرد سے مخاطب ہوئے۔ یہ نوجوان اور شاگرد حضرت یشوع علیہ السلام ہی تھے۔
== اسلام میں ==
 
=== نام میں اختلاف ==[
ان کا نام مسلمانوں کے ہاں یوشع بن نون جبکہ مسیحی ان کا نام یشوع بن نون لکھتے ہیں۔<ref>[[:ar:یوشع]] بن نون</ref>
صحیح بخاری صحیح مسلم اور سنن ترمذی میں سورہ الکہف کی آیت 60 کے ضمن یوشع بن نون لکھا ہے وَانْطَلَقَ مَعَهُ بِفَتَاهُ يُوشَعَ بْنِ نُونٍ <ref>بخاری، مسلم الترمذی{{مکمل حوالہ درکار}}</ref>
 
=== نسب یوشع بن نون ===
يوشع بن نون بن أفراثيم يُوسُفَ بْنِ يَعْقُوبَ بْنِ إِسْحَاقَ بْنِ إِبْرَاهِيمَ الْخَلِيلِ عَلَيْهِمُ السَّلَامُ وَأَهْلُ الْكِتَابِ يَقُولُونَ يُوشَعُ ابن عَمِّ هُودٍ۔<ref>البدایہ والنهایہ، مؤلف: أبو الفداء إسماعيل بن كثير، ناشر: دار إحياء التراث العربی</ref>
=== جانشین موسیٰ ===
حضرت موسیٰ علیہ السلام کی وفات اقدس کے بعد آپ کے خلیفہ اول حضرت یوشع بن نون علیہ السلام ہوئے جن کو اللہ تعالیٰ نے نبوت عطا فرمائی۔كَانَ نَبِيُّهُمُ الَّذِي بَعْدَ مُوسَى يُوشَعُ بْنُ نُونٍ<ref>تفسير القرآن العظيم لابن أبي حاتم ،مؤلف: أبو محمد عبد الرحمن الرازي ابن أبي حاتم ،ناشر: مكتبہ نزار مصطفى الباز - المملكۃ العربیہ السعودیہ</ref>
=== سمندر میں گھوڑا ڈالنا ===
حضرت موسیٰ (علیہ السلام) جب سمندر کے کنارے پہنچے تو ان کے اصحاب میں سے یوشع بن نون نے کہا : اے موسیٰ (علیہ السلام) آپ کے رب نے کس طرف سے نکلنے کا حکم دیا تھا ؟ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے سامنے سمندر کی طرف اشارہ کیا۔ یوشع نے اپنا گھوڑا سمندر میں ڈال دیا حتی کہ جب وہ سمندر کی گہرائی میں پہنچا تو پھر لوٹ آئے اور پھر پوچھا کہ آپ کے رب نے کہاں سے نکلنے کا حکم دیا تھا ؟ تین اس طرح ہوا‘ پھر اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی طرف یہ وحی کی کہ اپنے عصا کو سمندر پر ماریں‘ جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے سمندر پر عصا مارا تو وہ بارہ حصوں میں منقسم ہو کر پھٹ گیا حتی کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) بنواسرائیل کے بارہ گروہوں کے ساتھ اس سے پار گزر گئے۔<ref>جامع البيان فی تأويل القرآن، مؤلف: محمد بن جرير ابو جعفر الطبری، ناشر: مؤسسہ الرسالہ</ref>
 
=== سورج کا ٹھہرنا ===
[[ملف:Joshua's Tomb at Kifl Hares.jpg|تصغیر|[[کفل حارس]]، [[فلسطین]] میں یوشع بن نون کا مقبرہ]]
[[ملف:Joshua's Tomb in Jordan 01.jpg|تصغیر|[[اردن]] میں یوشع بن نون کا مقبرہ]]
بدر الدین عینی عمدۃُ القاری میں فرماتے ہیں :وہ نبی حضرتِ یوشع بن نون تھے۔ حضرتِ سَیِّدُنا موسیٰ کے دنیا سے پردہ فرما نے کے چالیس سال بعد اللہ عَزَّوَجَلَّ نے اُنہیں مبعوث فرمایا ،انہوں نے بنی اسرائیل کو خبر دی کہ میں اللہ عَزَّوَجَلَّ کا نبی ہوں اور اللہ عَزَّوَجَلَّ نے مجھے قوم جَبَّارِین سے جہاد کرنے کا حکم دیا ہے۔ بنی اسرائیل نے ان کی تصدیق کی اور ان کے ہاتھ پر بیعت بھی کی ۔پھر انہوں نے بنی اسرائیل کے ساتھ اُرَیْحا ( نامی بستی )کا قَصد فرمایا ، اُن کے پاس تابوتِ میثاق بھی تھا انہوں نے چھ مہینے تک اس بستی کا احاطہ کئے رکھا ، ساتویں مہینے اس بستی کی دیواریں گرانے میں کامیاب ہوئے، توانہوں نے بستی میں داخل ہوکر قومِ جَبَّارِین سے جہاد شروع کر دیا۔ یہ جمعہ کا دن تھا ۔پورے دن جہاد ہوتا رہا لیکن ابھی جہاد مکمل نہ ہوا تھا ۔ قریب تھا کہ سورج غروب ہو جاتا اور ہفتے کی رات شروع ہو جاتی ( ان کی شریعت میں ہفتے کو جہاد جائز نہ تھا۔ مرقاۃ، ج7، ص660) چنانچہ، حضرتِ سَیِّدُنا یوشع عَلَیْہِ السَّلَامکو خوف ہوا کہ کہیں اُن کی قوم عاجز نہ آجائے ۔ آپ عَلَیْہِ السَّلَام نے اللہ عَزَّوَجَلَّ سے دعا کی :اے اللہ عَزَّوَجَلَّ سورج کو واپس لوٹا دے! انہوں نے سورج سے کہا: تو اللہ عَزَّوَجَلَّ کی اطاعت پر مامور ہے اور میں بھی اللہ عَزَّوَجَلَّ کے حکم کا پابند ہوں ، یعنی تو غروب ہونے پر مامور ہے اور میں نماز پڑھنے پر یا غروب سے پہلے قتال کرنے پر مامور ہوں ، پس اللہ عَزَّوَجَلَّ نے ان کے لئے سورج کو ٹھہرادیا اور غروبِ آفتاب سے قبل انہیں فتح نصیب ہوگئی ۔<ref>عمدۃ القاری، کتاب الخمس، باب قول النبی احلت لکم الغنائم، 10/453- 454، تحت الحدیث:3124</ref>
== مسیحہت میں ==
 
== یہودیت میں ==
== بیرونی روابط ==
{{Commons category|Joshua}}