"جہاد" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 7:
 
ترجمہ: دشمن کے مقابلہ و مدافعت میں فوراً اپنی پوری قوت و طاقت صرف کرنا جہاد کہلاتا ہے۔
===جہاد اورآزمائش===
تحریر علامہ یوسف جبریل
جہاں دوسری جنگوں میں دنیا دار قوموں کے دل گوناگوں دنیاوی اور نجی اغراض و مقاصد سے لبریز ہوتے ہیں ۔ کہیں ملک گیری کی ہوس کارپرداز ہوتی ہے ، کہیں مال و دولت اکٹھا کرنے کی حرص کا غلبہ ہوتا ہے تو کہیں نام و نمود اور شہرت و نام وری کی آرزو زمزمہ پرداز ہوتی ہے وہاں مومن کا جہاد فی سبیل اللہ خالصتاَ ایک للہیٰ عمل ہے۔ مجاہد کا دل ذاتی اغراض سے پاک اور صرف رضائے الہیٰ کی تمنا لئے ہوتا ہے ۔ اسے نہ مال و دولت سے غرض ہوتی ہے نہ غنیمت کی آرزو، نہ جاہ و جلال کا عارضہ لاحق ہوتا ہے ،نہ نام و نمود کی ہوس ۔ وہ فقط کفر و باطل کے قلعے کو مسمار کرکے اور طاغوتی قوتوں کو مٹا کر خدا کی زمین پر خداکی حکومت قائم کرنے کے لئے ہی اپناتن من دھن کی بازی لگاتا ہے ۔ وہ اس عارضی ٹھکانے کو ظلم و ستم سے پاک کرنے کی تمنا میں ہی جنگ و جدل کی صعوبتوں کو لبیک کہتا ہے اور قربانیوں پر قربانیاں دیتا چلا جاتا ہے حتیٰ کہ یا تو جام شہادت پی کر واصل بحق ہو جاتا ہے یا فتح مند ہو کر اس خاکدان کو انوار الٰہی سے منور کر دیتا ہے۔
اللہ کے وجود پر یقین کرنا تو اس قدر مشکل نہیں ۔اللہ کی اس ساری کائنات کے ہوتے ہوئے کیسے ممکن ہو سکتا ہے کہ کوئی یہ باور کرلے کہ اس کا پیدا کرنے والا کوئی نہیں البتہ قیامت پر یقین پیدا کرنا ایمان ہی کی دولت سے ممکن ہو سکتا ہے اورایمان اللہ کی دین ہے جسے چاہے دے، اس میں شک نہیں کہ اس کائنات اور اس کے اصولوں کو بغور دیکھنے سے قیامت کا وجود یقینی طور پر نظر آ سکتا ہے مگر یہ علم بھی اسی کو فائدہ پہنچا سکتا ہے ، جس کا سینہ ایمان کی روشنی سے منور ہو ۔ تاہم قیامت کا یقین ہی تو ہے جو انسان کو گناہوں سے باز رکھتا ہے اور نیکی پر مائل کرتا ہے اور اسی قیامت کے یقین کے سبب ایک سپاہی شہادت کی طلب میں موت کی آغوش کو اپنی بہترین پناہ تصور کرتا ہے اور ایک دانائے راز سمجھتا ہے کہ وہ خدا جس نے اس کائنات کو عدل پر پیدا کیا ، یہ کیسے برداشت کر سکتا ہے کہ ہر انسان کو اپنے گناہوں اور اپنی نیکیوں کا بدلہ نہ دیا جائے اور یہ بدلہ موت کے بعد قیامت میں ہی دیا جا سکتا ہے، اس زندگی میں تو دکھ اور خوشی عمل کی بنا پر بعض اوقات نہیں حاصل ہوتے۔ بعض بدکردار دندناتے پھرتے ہیں اور بعض نیکوکار رنج و مصائب میں مبتلا نظر آتے ہیں۔
سطر 15 ⟵ 14:
ساری تجارتو ں سے بہترین تجارت جہاد ہے ۔ جہاد کرنے والا جہاد کے بدلے اللہ کی مغفرت اور جنت خریدتا ہے اور اللہ تعالیٰ سے ملاقات نصیب ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ۔ ’’اے ایمان والو ! میں تم کو ایسی سوداگری بتاؤں جو تمہیں ایک دردناک عذاب سے بچائے ۔ اللہ پر اور اس کے رسول ﷺ پر ایمان لاؤ اور اللہ کی راہ میں مال اور جان سے لڑو اگر تم سمجھ رکھتے ہو تو یہ تمہارے حق میں بہتر ہے ۔ وہ تمہارے گناہ بخشے گا اور تمہیں ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں اور باغوں کے اندر ستھرے مکان ہوں گے اور یہ بہت بڑی کامیابی ہے او ر ایک اور چیز بھی جسے تم بہت چاہتے ہو اور وہ ہے اللہ کی طرف سے مدد عنقریب اور خوشی سنا دے ایمان والوں کو، اے ایمان والو ! تم اسی طرح اللہ کے مددگار ہو جاؤ ۔جس طرح کہ عیسیٰ ابن مریم نے اپنے حواریوں سے کہا کون ہے جو اللہ کی راہ میں میری مدد کرے گا تو انہوں نے کہا کہ ہم اللہ کے مددگار ہیں ۔ ( الصف ۱۰ تا ۱۴)۔
جہاد کے ظاہری فائدے یا تکالیف تو ہر آدمی کو نظر آ سکتے ہیں لیکن جہاد کے حقیقی فائدے باطنی ہیں جن کا تعلق آخرت سے ہے اور جو نظر نہیں آتے مگر اس آدمی کو نظر آ سکتے ہیں جس کا ایمان کامل ہو اور آخرت پر اس کا یقین ہو ۔
علامہ یوسف جبریل
یوسف جبریل فاؤنڈیشن پاکستان
ؒ نواب آباد واہ چھاؤنی ضلع راولپنڈی
www.oqasa.org
Back to Conversion Tool
 
Urdu Home
 
== جہاد کا اصطلاحی معنی ==
[[شریعت]] اسلامی کی اصطلاح میں ’’دین اسلام کی اشاعت و ترویج، سربلندی و اعلاء اور حصول رضائے الٰہی کے لئے اپنی تمام تر جانی، مالی، جسمانی، لسانی اور ذہنی صلاحیتوں اور استعدادوں کو وقف کرنا جہاد کہلاتا ہے۔‘‘جہاد کے عناصر ترکیبی اوراخلاق کی اہمیت :
تحریرعلامہ محمد یوسف جبریلؒ
صلح اور امن و امان اگرچہ بہترین چیزیں ہیں مگر افسوس اس بات کا ہے کہ شر پسند افراد اور شر پسند قومیں صلح جو افراد اور صلح جو قوموں کو آرام سے بیٹھنے نہیں دیتے ۔ صلح کے حصول کے دو ہی طریقے ہیں ایک تو یہ کہ ایک دوسرے کے آگے جھک جائے اور اس طرح فساد کا خطرہ ٹل جائے دوسرا یہ کہ صلح جو فتنہ پسند کا مقابلہ کرے ۔ پہلی صورت میں فساد کا خطرہ ٹل جانا ایک مشکل امر ہے جیسا کہ دنیا کے طور طریقے بتا رہے ہیں دوسری صورت مقابلے کی ہے لیکن مقابلہ کرنے والوں میں بھی اگر ایک فریق ظاہرا کمزور اور دوسرا طاقت ور ہو تو جنگ کے ٹل جانے کا امکان بہت ہی کم ہے ۔ طاقت ور کمزور کی کمزوری کے پیش نظر جنگ برپا کرنے میں جری ہو گا اس لئے چاہیے کہ حتی الوسع بڑھ کر جنگی تیاری کی جائے تاکہ طاقت ور کو حملہ کرنے کی جرات نہ ہو اور اس طرح جنگ کا خطرہ ٹل جائے ۔ اللہ تعالیٰ نے قران حکیم میں فرمایا ۔ ’’ اے مسلمانو ! ان سے مقابلہ کے لئے جس قدر بھی تم سے ہو سکے قوت کے سامان اور پلے ہوئے مضبوط گھوڑے تیار رکھو تاکہ تمہارا رعب چھایا رہے ۔ تمہیں کیا خبر تمہارے اور اللہ کے دشمن کہاں کہاں ہیں۔ ( الانفال ۶۰ )اگر اللہ چاہے تو کافروں کو چشم زدن میں عذاب الٰہی سے تباہ کرکے رکھ دے لیکن جدال و قتال کا سلسلہ اس لئے مقرر کیا کہ مسلمانوں کو آزمائے اور انہیں اللہ تعالیٰ کی راہ میں تکلیف اٹھانے اور قربانیاں دینے کا موقع بہم پہنچائے ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ ’’کہ جنگ کے موقعے پر کافروں کو قتل کرنے سے باک نہ کرو ، ان کے بڑے بڑے شریروں کو کیفر کردار تک پہنچا دو اور ان کے جتھے توڑ دو تاکہ ان کا غرور ٹوٹے اور شاید ایمان کی طرف متوجہ ہوں ۔تمہاری قربانی ضائع نہ ہونے دی جائے گی بلکہ تمہیں طرح طرح کے انعاموں سے نوازا جائے گا لیکن جب کفار تمہارے قیدی ہو جائیں تو ان میں سے فقط ان آدمیوں کو قتل کرو جن کا جرم ایسا ہو کہ قابل معافی نہ ہو سکے یا جن کا زندہ چھوڑ دینا مزید فتنے کا باعث ہو ورنہ قیدیوں کو قتل مت کرو بلکہ یاتو انہیں فدیہ لے کر چھوڑ دو یا بغیرفدیہ لئے محض احسان کرکے آزاد کر دو اور اپنے اخلاق کریمانہ سے ان کو متاثر کرو شاید کہ وہ اسلام کی خوبیوں کو سمجھیں اور کفر و شرک کو چھوڑ کر دین حق کی طرف مائل ہوں اور یہی اسلامی جہاد کا اصلی مقصود ہے‘‘۔
اپنے نفس کی اصلاح جہاد سے مقدم ہے اور یہ تقدیم اس لئے ہے کہ جب تک آدمی آدمی نہ بن جائے اور اپنی تمام خواہشات اور شہوات کو مغلوب کرکے اللہ کا نہ ہو رہے ۔ اس وقت تک وہ نہ تو جہاد فی سبیل اللہ کی حقیقت سمجھ سکتا ہے اور نہ ہی ٹھیک طرح سے جہاد ہی کر سکتا ہے ۔اصلاح نفس ہو جائے گی تو انسان جہاد میں نہ تو مال و دولت یا لوٹ مار کے لالچ میں نکلے گا نہ اپنی بہادری کی دھاک بٹھا کر شہرت حاصل کرنے کی غرض سے بلکہ وہ ٹھیک اپنے اللہ تعالیٰ کی رضاجوئی اور اس کے دین کی سربلندی کی غرض سے تلوار اٹھائے گا ۔ اس طرح اگر شہید ہو گا تو اللہ کے ہاں شہادت کا مرتبہ پائے گا اور جو غازی ہو گا تو خدا کی زمین کو ظلم وستم اور کفر و باطل سے پاک کرنے کی سعی کرے گا نیز جنگ میں جو مشکلات اور مصائب ہوتے ہیں انہیں صبر و تحمل سے برداشت کرے گا اور موت کا خوف دل میں نہ رکھے گا اور کمانڈر کا حکم د ل و جان سے مانے گا اور اپنے ساتھیوں کے ساتھ بہترین سلوک کرے گا ۔ اصلاح نفس سے عاری آدمی ان سب باتوں کے خلاف کرے گا اور خود اپنے لئے اور دوسروں کے لئے وبال جان بن کر اجتماعی شکست کا باعث ہو گا۔
جنگ کا فیصلہ کرنے میں جن عوامل کا قطعی ہاتھ ہے مثلا ڈسپلن ، تدبیر، شجاعت ،استقامت اور جنگی مہارت۔ یہ تمام کے تمام اخلاقی قوت کا نتیجہ ہیں تعداد اور اسلحہ اگرچہ ظاہرا دو بڑے عنصر نظر آتے ہیں مگر حقیقت یہ ہے اور جنگی تاریخ گواہ ہے کہ آج تک یہ دونوں عنصر کبھی بھی فیصلہ کن عنصر ثابت نہیں ہوئے ۔ قرون اولیٰ کے مسلما نوں کو جب یہ کہہ کر ڈرایا گیا کہ غنیم ایک بہت بڑا لشکر جرار اور بے پناہ ساز و سامان اور اسلحہ لے کے آ رہا ہے تو انہوں نے نہایت اطمینان سے کہہ دیا کہ ہمیں اللہ کافی ہے اور واقعی اللہ ہی کافی ثابت ہوا ۔ مٹھی بھر مسلمان نہایت بے سروسامانی کی حالت میں جہاں بھی گئے وہاں فتح و کامیابی نے ان کے قدم چومے اور دشمن نے اپنا تمام ساز و ساما ن چھوڑ کر راہ فرار اختیار کی۔ اسلئے ہر وہ فوج جو فتح و آبرو مندی کو اپنا شعار بنانا چاہے وہ اخلاقی قوتوں کو مضبوط سے مضبوط تر بناتی جائے اور اخلاقی قوتوں کا سرچشمہ دین متین ہے جس نے اللہ کے دین کو مضبوطی سے اپنایا اس نے ایک بہت بڑے اور مضبوط قلعے میں پناہ لی ۔
 
علامہ محمد یوسف جبریلؒ ،
یوسف جبریل فاؤنڈیشن پاکستان
،قائد اعظم سٹریٹ ،نواب آباد، واہ چھاؤنی، ضلع راولپنڈی، پاکستان
www.oqasa.org
 
Back to Conversion Tool
 
Urdu Home
 
== جہاد کی اقسام ==
سطر 63 ⟵ 45:
 
جہاد بالنفس بندۂ مومن کیلئے نفسانی خواہشات سے مسلسل اور صبر آزما جنگ کا نام ہے۔ یہ وہ مسلسل عمل ہے جو انسان کی پوری زندگی کے ایک ایک لمحے پر محیط ہے۔ شیطان براہ راست انسان پر حملہ آور ہوتا ہے۔ اگر نفس کو مطیع کر لیا جائے اور اس کا تزکیہ ہو جائے تو انسان شیطانی وسوسوں سے محفوظ رہ سکتا ہے۔
===جرات ، شجاعت اور جوش جہاد===
تحریر: علامہ یوسف جبریل
کوئی فوج خواہ کتنی ہی تربیت یافتہ اور بہترین ہتھیاروں سے لیس کیوں نہ ہو اور اعداد و شمار میں ریت کے ذروں سے بھی بڑھ کر کیوں نہ ہو۔ جب تک اس کے سپاہی جرات اور شجاعت کے وصف سے متصف نہ ہوں گے کامیابی کی بہت کم امید ہے ۔ اس کے مقابلے میں گنتی میں کم اور ادنیٰ ہتھیاروں سے لیس فوج کے سپاہی اگر جری اور شجاع ہوں گے تو ان سے کامیابی اور کامرانی کی توقع کی جا سکتی ہے ۔ تجربہ یہ بتاتا ہے کہ بہادر قومیں عموما بہت ساری خوبیوں کی مالک ہوتی ہیں ۔ انہیں اپنے وعدے کا پاس ہوتا ہے۔ وہ مہمان کی قدرومنزلت کو سمجھتی ہیں ۔وہ شرافت اور نجابت کے تقاضوں کو جانتی ہیں ۔ وہ بے عزتی ، بے ؔ آبروئی اور بے غیرتی کی زندگی پر موت کو ترجیح دیتی ہیں ۔ وہ اگرچہ کینہ توز ہوتی ہیں مگر دشمنی میں بھی شرف کو ہاتھ سے جانے نہیں دیتیں اور دشمن کی مجبوریوں سے فائدہ اٹھانے کی قائل نہیں ہوتیں ۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ شجاعت اور سخاوت کا چولی دامن کا ساتھ ہوتا ہے۔ بہادر آدمی لازما سخی ہوتا ہے کیونکہ میدان جنگ میں اپنی جان پیش کر دینا بھی سخاوت ہے۔
اگر دو فوجیں برابر کی ہوں اور جنگ کا فیصلہ نہ ہوتا ہو تو اس تعطل کو ختم کرکے فیصلہ کن بات کرنے والی بات جوش کی زبان سے ادا ہوتی ہے۔ اسی طرح جب ایک فوج مسلسل لڑائی کرتے کرتے تھکن سے چور ہو جاتی ہے ۔ سپاہیوں کے بازو شل اور حوصلے پست ہو جاتے ہیں تو جوش ہی ایک ایسی چیز ہے جو تھکے ہوئے بازووں کو نئے سرے سے طاقت عطا کرتا ہے۔ افسردہ دلوں میں زندگی کی نئی لہر دوڑا دیتا ہے ۔ تھکی ہاری فوج آن کی آن میں سرگرم پیکار ہو جاتی ہے اور ایسا ایک بھر پور حملہ عام طور پر فیصلہ کن ہو تا ہے کیونکہ مخالف فوج بھی اسی طرح تھک کر چور ہو چکی ہوتی ہے ۔ بعض اوقات ایسی حالت میں ایک شخص کے جوش و خروش نے جنگ کی کایا پلٹ کر رکھ دی ہے ۔ جنگ یرموک میں ایک بار جب عیسائی مسلمانوں کو دھکیل کر خیموں تک لے آئے تو خیمہ میں بیٹھی ہوئی مسلمان عورتوں نے خیموں کی چوبیں اکھاڑ کر دشمن پر حملہ کر دیا۔ اس واقعہ نے مسلمانوں کو اتنا متاثر کیا کہ وہ جوش و غضب میں دشمن پر ٹوٹ پڑے اور پھر کبھی ان کو اپنے خیموں کے قریب پھٹکنے نہ دیا ۔
سطر 78 ⟵ 59:
اکیلہم بالصاع کیل السندرہ
’’ میں وہ ہوں کہ میری ماں نے میرا نام حیدرہ (شیر کابچہ) رکھا ۔ جنگ کے شیروں کی طرح ہیبتناک ہوں ۔ جن کو سندرہ کے پیمانے سے تولتا ہوں۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے مرحب پر تلوار سے وار کیا ۔ مرحب دو حصوں سے چر کر جا گرا۔
علامہ یوسف جبریل
یوسف جبریل فاؤنڈیشن پاکستان
قاید اعظم سٹریٹ نواب آباد واہ چھاؤنی ضلع راولپنڈی
www.oqasa.org
Back to Conversion Tool
 
Urdu Home
 
=== جہاد بالقتال ===
 
سطر 110 ⟵ 83:
 
جہاد اسلامی ریاست کی ذمہ داری ہے۔ عوام الناس کو فردا فردا، جتھوں، یا تنظیمیوں کی صورت میں جہاد کرنے کی ہرگز اجازت نہیں ہے۔
==جہاد کی تلقین==
تحریر علامہ محمد یوسف جبریلؒ
اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو جہاد کی سخت تلقین فرمائی ہے ۔ کافروں اور منافقوں کے خلاف جہاد کرنے کے لئے فرمایا ۔ ’’ اے نبی ﷺ ! آپﷺ جہاد کیجئے کافروں سے اور منافقوں سے اور ان پر سختی کیجئے ، ان کا ٹھکانہ دوزخ ہے اور وہ بری جگہہ ہے ‘‘۔ ( التحریم ۹) اور اہل کتاب کے خلاف جہاد کے لئے فرمایا۔ ’’ اہل کتاب میں سے جو لوگ نہ اللہ پر ایمان لاتے ہیں اور نہ روز آخرت پر نہ ان چیزوں کو حرام سمجھتے ہیں جو اللہ اور اسکے رسول ﷺ نے حرام ٹھہرائی ہیں اور نہ دین حق کو اختیار کرتے ہیں، ان سے لڑو یہاں تک کہ وہ اپنے ہاتھ سے جزیہ دیں، اس حال میں کہ وہ زیردست ہو کر رہیں ‘‘۔ ( التوبہ ۲۹) اور عامتہ المسلمین سے فرمایا ہے ۔ ’’ اے ایمان والو ! اپناتحفظ کرواور پھر دستہ دستہ کوچ کرو یا اکٹھے ہو کر‘‘۔ ( النساء ۷۱ ) اور نبی کریم ﷺ سے فرمایا ۔ ’’ اے نبی ﷺ! آپ مسلمانوں کو جہاد کے لئے آمادہ کرتے رہیں ، عجب نہیں کہ اللہ کافروں کا زور توڑ دے اور اللہ بڑے ہی زور والا ہے اور بڑی سزا دینے والا ہے۔ ( النساء ۸۴ )۔ فرمایا۔ ’’ اے مسلمانو ! اگر تم دنیاوی زندگی کی محبت میں محو ہو کر جہاد کے لئے نہ نکلو گے تو اللہ تمہیں ایک دردناک سزا دے گا اور تمہارے بدلے کوئی اور قوم پیدا کر دے گا اور تم اسے کوئی نقصان نہ پہنچا سکو گے ۔
جہاد اس لئے کیا جاتا ہے کہ کفار کا زور ٹوٹ جائے اور وہ اسلامی ممالک پر چڑھ دوڑنے کی ہمت نہ پائیں ۔کفار خدانخواستہ اگر اسلامی ممالک پرحملہ کرکے غالب آ جائیں توجہاں مسلمانوں کے جان و مال اور عزت و آبرو کے خاک میں مل جانے کا خدشہ ہے وہاں خود اسلام کو خطرہ لاحق ہے لیکن انسانی طبیعت بالعموم آرام اور عیش کوشی کی طرف راغب رہتی ہے اور جنگ و جدل کی صعوبتوں سے کنارہ کش رہنا چاہتی ہے ۔موت کا خوف بھی دلوں میں جاگزین ہوتا ہے اور اپنی پیاری چیزیں چھوڑنے کو جی نہیں چاہتا مگر دفاع سے غفلت جہاں ایک طرف آزادی کی نعمت سے محروم کر دیتی ہے وہاں اخلاقی پاکیزگی اور علو ہمتی جیسی صفات سے بھی معرا کر دیتی ہے ، اس لئے ہر کمانڈر اور ہر حاکم کایہ فرض ہے کہ وہ عامتہ المسلمین کو جہاد کی ترغیب دیتا رہے ۔ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کو فرمایا ’’ مسلمانوں کو قتال فی سبیل اللہ پر آمادہ کرتے رہیئے۔ عجب نہیں کہ اللہ کافروں کا زور توڑ دے‘‘۔ (النساء ۸۴)
جہاں دوسرے مذاہب نے رہبانیت اور ترکِ دنیا پر زور دیا ہے وہاں اسلام کی ساری تعلیم ایک پاکباز، سپاہیانہ معاشرے میں زندگی گزارنے کے متعلق ہے ۔ اسلام کے تمام عقائید اسی روش کا مظاہرہ کرتے ہیں بلکہ خود مسلمان قوم کو ایک سرسری نظر سے دیکھنے سے ہی سپاہیانہ صفات اور سپاہیانہ اخلاق مثلا جرات، شجاعت ، سخاوت ، اولوالعزمی ، صبر و رضا ، ہمت و برداشت نظرآتے ہیں حتیٰ کہ مسلمان اپنے اس روبہ زوال دور میں بھی جہاں تک کہ ان مندرجہ بالاصفات کاتعلق ہے ،روئے زمین کی ساری قوموں کے درمیان ایک ممتاز مقام رکھتے ہیں ۔ جہاں تک جنگی تربیت کا تعلق ہے ، مسلمان کی زندگی کا ہر پہلو ایک تربیت یافتہ سپاہی کی زندگی کا مظاہرہ کرتا نظر آتا ہے ۔اسلام کے سارے ارکان اسی فوجی تربیت کے اصول پر جاری و ساری ہیں ۔ مسلمان کی روز مرہ کی زندگی اور زمانہ جنگ کی زندگی میں سرمو فرق نہیں ۔مسلمان ایک پیدائشی سپاہی ہے اور تھوڑی سی تربیت اسے دنیا کا بہترین سپاہی بنا دیتی ہے ۔
برائی کو روکنا ہر فرد مومن کا فرض ہے کیونکہ جس قسم میں برائی کو روکنے کا جذبہ مفقود ہوجاتا ہے وہ قوم تباہ ہو جاتی ہے اور وہ لوگ بھی جو نیک اس قوم میں ہوتے ہیں بدوں کے ساتھ محض اس لئے تباہی کا شکار ہو جاتے ہیں کہ انہوں نے برائی کے کام اپنی آنکھوں سے دیکھے مگر منع نہ کیا۔ بنی اسرائیل پر جن وجوہات کی بنا پر لعنت کی گئی، ان میں سے اللہ تعالیٰ نے ایک وجہ قران حکیم میں یہ بھی بتائی ہے کہ وہ برائی کوروکتے نہ تھے ۔ بدی کو روکنے کے تین طریقے ہیں جو رسول اللہ ﷺ نے بتائے یعنی ہاتھ سے روکنا، زبان سے روکنا، دل میں برا سمجھنا مگر یہ آخری درجہ ایمان کا ضعیف ترین درجہ قرار دیا ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔ ’’ اللہ عام لوگوں پر خاص لوگوں کے عمل کے باعث اسوقت تک عذاب نازل نہیں کرتا جب تک کہ ان میںیہ عیب پیدا نہ ہو جائے کہ اپنے سامنے برے اعمال ہوتے دیکھیں اور انہیں روکنے کی قدرت رکھتے ہوں مگر نہ روکیں۔ جب وہ ایسا کرنے لگتے ہیں تو پھر اللہ تعالیٰ عام او ر خاص سب پر عذاب نازل کرتا ہے‘‘ ۔ ( مسند آحمد) اسی طرح آپ ﷺ نے جابر سلطان کے سامنے حق بات کہنے کو جہاد اکبر فرمایا ۔مسلمانوں کی جنگ نظریاتی جنگ ہوتی ہے وہ نہ تو ہوس ملک گیری کے جذبے سے مغلوب ہو کر جنگ برپا کرتے ہیں نہ ہی اس میں ان کی کسی ذاتی انتقامی جذبے کو دخل ہوتا ہے۔ مسلمان کی جنگ اللہ کی جنگ ہے ۔ شیطان کے خلاف رحمان کی جنگ ہے۔ کفر و بے دینی کے خلاف دین و حق کی جنگ ہے۔ ظالم کے خلاف مظلوم کی جنگ ہے غرض کہ خدا کی زمین پر خدا کی حکومت کے قیام کی جنگ ہے ۔ جب کوئی قوم خدا کی زمین پر اس قدر فساد میں مبتلا ہو جاتی ہے کہ اس کو سبق پڑھانا ضروری ہو جاتا ہے تو ایسی قوم پر اللہ تعالیٰ مسلمان قوم کو مسلط کر دیتا ہے تاکہ مسلمان قوم ظلم کے ان اثرات کوخدا کے نور سے مٹا دے جو اس ظالم قوم نے اپنے فتنہ و فساد سے پھیلا رکھے ہوتے ہیں ۔ یہودیوں ، عیسائیوں ہندووں وغیرہ پر اللہ نے مسلمانوں کو اسی نظریئے کی بنا پر مسلط کیا تھا مگر فرما دیا کہ اللہ ضرور اس کی مدد کرے گا جو اللہ کی مدد کرے گا اوروہ ایسے لوگ ہیں جن کو اگر اللہ زمین پر حکومت دے تو نماز قائم کریں ، زکوۃ دیں ،نیک کام کا حکم دیں اور بدی سے روکیں ۔
علامہ محمد یوسف جبریلؒ
یوسف جبریلؒ فاؤنڈیشن پاکستان
قائد اعظم سٹریٹ نواب آباد واہ چھاؤنی ضلع راولپنڈی، پاکستان
www.oqasa.org
Back to Conversion Tool
 
== جہاد کے دوران احتیاطیں ==جہاد میں مجاہدین کے لئے قرانی ہدایات
Urdu Home
 
== جہاد کے دوران احتیاطیں ==جہاد میں مجاہدین کے لئے قرانی ہدایات
تحریر
علامہ یوسف جبریل
جہاد میں مقابلے کے وقت مجاہدین کو قرانی ہدایات کے بارے میں اللہ تعالیٰ قران حکیم میں فرماتے ہیں ۔
’’ اے ایمان والو ! جب تمہارا مقابلہ کسی جماعت سے ہو جائے تو ثابت قدم رہو اور اللہ کو کثرت سے یاد کرو تاکہ فلاح پاؤ اور اللہ اور اس کے رسول ﷺکی اطاعت کرتے رہو اور آپس میں جھگڑا مت کرو ورنہ کم ہمت ہو جاؤ گے اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی اور صبر کرتے رہو، بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے اور ان لوگوں کی مثل نہ ہو جاؤ جواپنے گھروں سے اتراتے ہوئے اور دکھلاوے کے لئے نکلے اور لوگوں کو اللہ کی راہ سے روکتے تھے حالانکہ ان کے اعمال اللہ کی دسترس سے باہر نہ تھے اور جب شیطان نے ان کے اعمال انہیں خوشنما کرکے دکھائے اور کہا کہ آج کوئی بھی تم پر غالب آنے والا نہیں اور میں تمہارا حامی ہوں ، پھر جب دونوں جماعتیں آمنے سامنے ہوئیں تو شیطان الٹے پاؤں بھاگا اور کہنے لگا ۔ میں تم سے بری الذمہ ہوں ۔ میں وہ دیکھ رہا ہوں جوتم نہیں دیکھ سکتے ۔ میں تو خدا سے ڈرتا ہوں اور اللہ شدید سزا دیتے ہیں ۔( الانفال ۴۵ تا ۴۸ )۔
سطر 132 ⟵ 95:
’’ہاتھ تلوار پربھروسہ اللہ پر‘‘ ۔ یہ ایک باریک بات ہے مگر اللہ جسے چاہے سمجھا دے ،ہاتھ تلوار پراور بھروسا اللہ پر کے معنی یہ ہیں کہ اللہ پر بھروسا کرنے کے لئے ذرائع سے کلی طور پر قطع نظر کرکے اللہ کو آزمائش میں نہ ڈالنا ۔ یعنی جہاں انسان کے لئے ذرائع کا حصول ممکن ہووہاں بھی ان ذرائع کواللہ پر بھروسا کرکے نظر اندار کر دینا ۔ اس کی مثال یوں ہے کہ ایک آدمی آنحضور ﷺکے پاس آیا ۔تو آپ ﷺنے پوچھا ۔اونٹنی کہاں چھوڑی ۔ تواس نے کہا۔ اللہ کے بھروسے پر باہر چھوڑ آیا ہوں۔ تو آپ ﷺنے فرمایا۔ پہلے اونٹنی کا گھٹنا باندھ پھر اللہ پر بھروسا کر۔ اس کے مقابلے میں دوسری مثال یہ ہے کہ انسان ذرائع سے بے بس و مجبور ہو اور اللہ پر بھروسا رکھے ۔جس طرح ایک بار آنحضرت ﷺصحرا میں کسی درخت کے سائے میں آرام فرما رہے تھے اور تلوار آپ ﷺنے درخت سے لٹکا رکھی تھی ۔ دفعتہ ایک کافر آیا اور آپﷺ کی تلوار قبضے میں کرکے تلوار سونت کرکھڑا ہو گیا ۔آپ ﷺکی آنکھ کھلی تو کافر نے کہا ۔ محمدﷺ ! اب آپ کو میرے ہاتھ سے بچانے والا کون ہے ؟تو آپ ﷺنے بے دریغ فرمایا ۔ ’’میرا اللہ ‘‘۔یہ سن کر کافر پر ایسی دہشت طاری ہوئی ۔کہ تلوار ہاتھ سے گر گئی ۔آپ ﷺنے تلوار اٹھالی اور فرمایا۔ اب تو بتا۔ تجھے میرے ہاتھ سے بچانے والا کون ہے ؟۔ کافر فورا ایمان لے آیا۔
رسول اللہ ﷺکے زمانے میں خندق کھودتے تھے ۔آج کل مورچے کھودتے ہیں ۔ اصولا خندق اور مورچے میں کوئی فرق نہیں۔ دونوں حفاظت کے لئے کھودی جاتی ہیں ۔ مورچہ کھودتے وقت عموما سپاہیوں میں ایک خاص قسم کا جذبہ نمودار ہوتا ہے ۔جنگ خندق میں جب مدینہ کے گرد خندق کھودی جارہی تھی تو مہاجرین و انصار خندق کھودتے ۔ اپنی پیٹھ پر مٹی لادتے اوریہ کہتے جاتے ۔کہ ’’ ہم وہ ہیں جنہوں نے محمد صلعم سے جہاد اسلامی کی بیعت کی ہے۔ جب تک زندہ ہیں مسلمان رہیں گے ‘‘۔اور رسول اللہ ﷺان کو جواب دیئے جاتے ۔ ’’ اے میرے اللہ آخرت کی بھلائی کے سوا کوئی بھلائی نہیں ۔پس تو مہاجرین اور انصار میں برکت عطا فرما‘‘۔ رسول اللہ ﷺپتھر اٹھاتے جاتے اور فرماتے جاتے ۔ لو لا ما اہتدیتنا۔’’ ہدائت اگر نہ کرتا۔تونہ ملتی ہم کو راہ حق ‘‘۔ جنگ احزاب کے روز رسول اللہ ﷺمٹی اٹھاتے۔ مٹی سے آپ ﷺکے پیٹ کارنگ چھپ گیا تھا اور آپ ﷺ فرماتے جاتے تھے۔ ’’ اے اللہ ! اگر تو نہ ہوتا تو ہم ہدایت نہ پاتے اور نہ ہم صدقہ دیتے اورنہ نماز پڑھتے ۔ پس تو ہم پر اطمینان نازل فرما اور جب ہم دشمن سے مقابلہ کریں تو ہمیں ثابت قدم رکھ ۔ بے شک ان لوگوں نے ہم پر ظلم کیا ہے ۔جب یہ کوئی فساد کرنا چاہتے ہیں تو ہم ان کی بات میں نہیں آتے ‘‘۔
علامہ یوسف جبریل
یوسف جبریل فاؤنڈیشن پاکستان
قائد اعظم سٹریٹ نواب آباد واہ چھاؤنی ضلع راولپنڈی پاکستان
www.oqasa.org
Back to Conversion Tool
 
Urdu Home
* عورتوں، بچوں اور بوڑھوں پر وار نہیں کیا جائے گا۔
* غیرمسلح لوگوں پر وار نہیں کیا جائے گا۔
سطر 154 ⟵ 111:
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پھر اس مقتول کے ورثاء کو پوری دیت ادا کرنے کا حکم فرمایا۔
 
== جہاد کے آداب اور ذمہ داریاں ==
تحریر علامہ محمد یوسف جبریلؒ
دشمن پر پینترے بدل بدل کر وار کرتے رہو اور اسے سنبھلنے کی مہلت نہ دو اور اگر کبھی خدانخواستہ تمہیں چشم زخم بھی لگ جائے تو ہمت نہ ہارو اور بد دل نہ ہو جاؤ ۔ کیونکہ دشمن نے بھی اس مقابلے میں کافی نقصان اٹھایا ہو گا اور اس کا بھی جوڑ جوڑ درد کر رہا ہو گا ۔ دشمن پر اس شدت سے بوجھ ڈالو اور اتنا بھر پور حملہ کرو اور اس طرح پئے در پئے حملے کرو کہ حوصلہ چھوڑ دے اور بوکھلا جائے ۔ مسلمانوں کے شکست کھا کر دوبارہ جنگ پر آمادگی ظاہر کرنے کو اللہ تعالیٰ نے بہت پسند کیا ہے چنانچہ فرمایا ہے کہ جن لوگوں نے اللہ اور رسول ﷺ کے کہنے کو مان لیا بعد اس کے کہ ان کو چشم زخم لگ چکا تھا ان میں سے جو نیک اور متقی ہیں ان کے لئے اجر عظیم ہے ۔ یہ واقع جنگ احد کا ہے جس میں مسلمانوں کو چشم زخم لگا ۔اور پھر تعاقب کے متعلق فرمایا ’’ مخالف قوم کے تعاقب میں ہمت نہ ہارو اگر تمھیں دکھ پہنچا تو وہ بھی دکھ اٹھائے ہوئے ہیں جیسے تم دکھ اٹھائے ہوئے ہو اور تم اللہ سے وہ امید لگائے ہوئے ہو جو وہ نہیں رکھتے ‘‘۔ یعنی تم کو تو اللہ کی نصرت اور آخرت کی بہتری کی توقع ہے اور تمہارے دل مضبوط ہیں حالانکہ وہ تو اس بات سے عاری ہیں ۔
حتی الوسع اور بغیر شدید جنگی ضرورت کے دشمن کی املاک کو نقصان پہنچانے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے کیونکہ تعمیر بہر حال تخریب سے اچھی ہے ۔ ہاں البتہ اگر وہ املاک دشمن کے لئے فخر و غرور یا کفر و ظلم کا باعث ہو رہی ہوں اور یہ فخر و غروراور یہ کفر و ظلم اس شدت کا ہو کہ بغیر ان املاک کے ضائع کئے اس کاٹوٹنا محال ہو تو پھر ان املاک کو ضائع کر دینے میں کوئی حرج نہیں لیکن ایسا تو فقط نہایت سنگین حالات اور شدید جذبہء دینی ہی کی صورت میں ہو سکتا ہے اور چونکہ اس کا معیار مقرر کرنا مشکل ہے اس لئے آنحضورﷺ نے اور آپ ﷺ کے بعدحضرت ابوبکر صدیقؓ نے بھی مسلمان لشکروں کو دشمن کی املاک کوضائع کرنے سے منع فرمایا اوریہی طریق کار بعد میں آنے والے خلفائے راشدہؓ کے دور میں رہا البتہ ایسی چیزیں جن کو مسلمان خود استعمال نہ کر سکتے ہوں اور یہ ڈر ہو کہ وہ دشمن کے لئے جنگی تقویت کا باعث ہوں گی تو ان کے ضائع کر دینے میں ہرج نہیں۔
سطر 163 ⟵ 119:
اللہ تعالیٰ نے فرمایا ۔ ’’ اور جن اہل کتاب نے ان (کافروں) کی مدد کی تھی ۔ (اللہ نے ) انہیں ان کے قلعوں سے اتار دیا اور ان کے دلوں میں تمہارا رعب بٹھا دیا پھر بعض کو تم قتل کرنے لگے اور بعض کو قید کر لیا اور تمہیں مالک بنا دیا ۔ ان کی زمین کا اور ان کے گھروں کا اور ان کے مال کا اور اس زمین کا بھی جس پر تم نے اب تک قدم نہیں رکھا ہے اور اللہ تو ہر چیز پر قادر ہے‘‘۔ ( الاحزاب ۲۶ ۔ ۲۷ ) اہل کتاب سے مراد یہاں یہود بنی قریظہ ہیں جو حوالیء مدینہ میں اپنے بڑے بڑے اور مضبوط قلعوں اور گڑھیوں میں قلعہ بندرہا کرتے تھے اور اس وقت تک مسلمانوں سے معاہدہ کئے ہوئے ان کے حلیف تھے بعد کو عہد شکنی کرکے قتل و اسارت دونوں کے مستحق پائے۔ اللہ تعالی نے یہ جو فرمایا ہے کہ اس زمین کا بھی جس پر تم نے اب تک قدم نہیں رکھا ہے یہ ایک پیشینگوئی ہے جواللہ تعالیٰ نے فرما دی ۔ یہ اشارہ ہے قبائل یہود کی ساری زمینوں اور جائیدادوں کی طرف جو بالآخر مسلمانوں کے قبضہ میں آئے اور ان لفظوں کے مفہوم میں بڑی وسعت ہے۔قیامت تک جو علاقہ بھی مسلمانوں کے قبضہ میں آئے۔سب اس میں داخل ہے ۔
 
علامہ محمدیوسف جبریل
یوسف جبریل فاؤنڈیشن پاکستان
قائد اعظم سٹریٹ ، نواب آباد واہ چھاؤنی ضلع راولپنڈی پاکستان
www.oqasa.org
Back to Conversion Tool
 
Urdu Home
 
{{نامکمل}}
 
== حوالہ جات ==
{{حوالہ جات}}
 
{{اسلامی اوکیہ جوت}}
[[زمرہ:اسلامی علم اصطلاحات]]
[[زمرہ:اسلامی اصطلاحات]]
[[Categoryزمرہ:مذہبی اصطلاحات]]
[[زمرہ:جہاد]]