"اصطلاحات حدیث" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 5:
علم مُصطلح الحدیث کی 14 بنیادی اصطلاحات ہیں:
 
==== (1) {{ع}}علم المُصطلح: {{ف}} ====
وہ علم جس کے ذریعہ سے [[حدیث]] کے سند و متن کے احوال کی معرفت حاصل کی جاتی ہے تاکہ [[حدیث]] کے قبول و عدم کا فیصلہ کیا جاسکے۔
 
==== (2) '''{{ع}}موضوع:{{ف}} ''' ====
اِس میں [[حدیث]] کے سند اور متن کے صحیح یا موضوع ہونے کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔ہے
 
==== (3) '''{{ع}}غایت:{{ف}} ''' ====
اِس اصطلاح میں علم کی بابت صحیح و سقیم احادیث کے درمیان امتیازی خط کھینچنا ہوتا ہے۔
 
==== (4) '''{{ع}}الحدیث:{{ف}} ''' ====
[[حدیث]] کے لغوی معنی جدید یا نئی چیز کے ہیں اور اِس کی جمع خلافِ قیاس الاحادیث آتی ہے۔ اِصطلاح حدیث میں ہر اُس قول، فعل یا تقریر کو حدیث کہا جاتا ہے جس کی نسبت پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب کی جاتی ہو۔تقریر سے مراد وہ فعل ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سامنے کیا گیا مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ تو اِس کے کرنے کا حکم دیا اور نہ ہی منع فرمایا بلکہ اِس پر سکوت فرمایا۔
 
==== (5) '''{{ع}}الخبر:{{ف}} ''' ====
اِس کے لفظی معنی تو عام خبر کے ہیں اور اِس کی جمع الاخبار ہے۔ اصطلاحی تعریف میں تین اقوال مشہور ترین یہ ہیں کہ:
 
سطر 28:
عموماً علماء و محدثین دوسرے قول کی نسبت زیادہ اعتماد کرتے ہیں کیونکہ اُس میں خبر کی وضاحت آسان ہے۔ اگر پہلے اور تیسرے قول کو اپنایا جائے تو تمام اخبار احادیث میں شامل ہوجائیں گی اور حدیث کا اطلاق خبر پر بھی ہونے لگے گا۔ ابتدائی محدثین خبر کو بھی حدیث ہی جانتے تھے مگر تدوین فقہ کے زمانہ میں خبر کو حدیث سے الگ کر لیا گیا۔
 
==== (6) '''{{ع}}الاثر:{{ف}} ''' ====
اِس کے لفظی معنی ہیں: کسی چیز کا باقی ماندہ نشان یا علامت۔ اِصطلاح میں اِس کے دو اقوال ہیں:
 
سطر 37:
محدثین عظام اثر کا مفہوم دوسرے قول کی نسبت سے لیتے ہیں۔
 
==== (7) '''{{ع}}الاسناد:{{ف}} ''' ====
اِس کے دو مفہوم ہیں:
 
سطر 44:
'''''(ب)''''' متن حدیث تک پہنچانے والے سلسلہ سند کے رجال، یہ لفظ سند کے ہم معنی ہی ہے۔ محدثین عظام اِسی قول کو تسلیم کرتے ہیں۔
 
==== (8) '''{{ع}}السَنَد: {{ف}} ''' ====
اِس کا لغوی معنی ہے: سہارا۔ مُصطلح الحدیث میں سند کے ذریعہ جو کسی بھی حدیث میں مروی ہوتی ہے، اُس کی ثقاہت کا انحصار اِسی سند پر ہوتا ہے۔ اِس اصطلاح میں سند اُس سلسلہ رجال کو کہا جاتا ہے جو حدیث کے متن تک پہنچا دے۔ کسی بھی حدیث کی ثقاہت جاننے کے لیے سند اہم ستون ہے، گویا ایک سیڑھی ہے جس کے سہارے حدیث کے متن تک پہنچا جاتا ہے۔
 
==== (9) '''{{ع}}المَتَن: {{ف}} ''' ====
متن کا لغوی معنی ہے: زمین کا وہ سخت حصہ جو سطح زمین سے کچھ بلند ہو۔ اِصطلاح میں اِس سے مراد کلام کا وہ حصہ ہے جس پر سند کا سلسلہ ختم ہوجائے۔
 
==== (10) '''{{ع}}المُسنَد:{{ف}} ''' ====
اَسنَد سے اسم مفعول ہے یعنی جس کی طرف کوئی جزء منسوب ہو۔ اِصطلاح میں اِس کے لیے تین اقوال مشہور ہیں:
 
سطر 59:
'''(ج)''' تیسرے قول کے مطابق یہ ہے کہ اِس سے سند مراد لی جائے۔ اِس صورت میں مصدر میمی بمعنیٰ اسناد ہوکر سند ہی کے ہم معنی ہوگا۔
 
==== (11) '''{{ع}}المُسنِد:{{ف}} ''' ====
وہ شخص جو سند کو [[حدیث]] کے ساتھ روایت کرے، خواہ وہ اُس [[حدیث]] کا علم رکھتا ہو یا نہ رکھتا ہو۔
 
==== (12) '''{{ع}}المُحَدِّث:{{ف}} ''' ====
اِس سے مراد وہ شخص ہے جس کا شغف روایت و درایت کے اعتبار سے علم [[حدیث]] اور اُسے اکثر روایات اور اُن کے رواۃ کے احوال کا علم ہو، ایسا شخص محدث کہلاتا ہے۔
 
==== (13) '''{{ع}}الحَافِظ:{{ف}} ''' ====
حافظ کے متعلق محدثین کے دو اقوال ہیں:
 
سطر 72:
'''(ب)''' دوسرا قول یہ ہے کہ حافظ کا درجہ محدث سے قدرے بلند ہوتا ہے کیونکہ اُسے محدثین کے ہر طبقہ میں سے اکثر کا علم ہوتا ہے۔
 
==== (14) '''{{ع}}الحَاکِم :{{ف}} ''' ====
الحاکم کی اصطلاح بعض محدثین عظام کے اقوال میں اُس شخص پر لازم آتی ہے جس کا علم جملہ احادیث پر محیط ہو، چہ جائیکہ جو احادیث اُس کے علم میں نہ ہوں اُن کی تعداد محض مختصر ہی ہو۔
 
سطر 79:
* اگر خبر کی روایت کے سلاسل میں تعداد متعین نہ ہو تو اُسے '''{{ع}}خبر متواتر{{ف}} ''' کہا جاتا ہے۔
* اگر خبر کی روایت کے سلاسل کی تعداد متعین ہو تو اُسے '''{{ع}}خبر آحاد{{ف}} ''' کہا جاتا ہے۔
'''{{ع}}خبر متواتر: {{ف}} '''
 
'''=== {{ع}}خبر متواتر: {{ف}} ''' ===
اِس کی لغوی تعریف یہ ہے کہ متواتر لفظ تواتر سے مشتق ہوکر اسم فاعل بنا ہے جس کے معنی ہیں: پے در پے ہونا۔ مثال جیسے کہ مسلسل بارش کی صورت میں کہا جاتا ہے: تواتر المطر، یعنی مسلسل بارش ہوئی۔ اصطلاحی تعریف میں متواتر اُس حدیث کو کہتے ہیں جسے ہر زمانہ میں محدثین اور علماء کی کثیر جماعت نے اِس قدر روایت کیا ہو کہ اُس کا کذب بیانی پر متفق ہونا محال ہو۔<ref>ڈاکٹر محمود الطحان: مصطلح الحدیث،  صفحہ 29/30، مطبوعہ لاہور۔</ref>