"معجزات نبوی" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
←‏حوالہ جات: درستی املا
(ٹیگ: القاب ترمیم از موبائل ترمیم از موبائل ایپ)
39.49.215.149 (تبادلۂ خیال) کی جانب سے کی گئی 2561832 ویں ترمیم رد کر دی گئی ہے۔
سطر 69:
 
==حوالہ جات==
{{حوالہ جات}}
{{حوالہ جات}}لفظ’’ معجزہ‘‘کا مطلب عاجزکردینا یعنی مجبور کردیناہے۔نبی کے ہاتھ سے صادرہونے والا ایسا کام جو دوسرے کو لاجواب کردے اور اسکاکوئی توڑ پیش نہ کیاجاسکے اور نہ ہی اسکا کوئی جواب دیاجاسکے ،معجزہ کہلاتاہے۔اصطلاح میں ’’خرق عادت‘‘ کومعجزہ کہاجاتاہے جو صرف انبیاء علیھم السلام سے ہی ممکن ہوسکتاہے۔’’خرق عادت ‘‘سے مرادایسا امر جو عام معمول سے ہٹ کر ہو۔مثلاً عام حالات میں ڈنڈا زمین پر پھینک دینے سے ڈنڈا ہی رہتاہے لیکن اﷲ تعالی کے نبی حضرت موسی علیہ السلام جب اپنا ڈنڈا یعنی عصا زمین پر پھینکتے تو وہ اژدہا بن جاتا،عام آدمی کو آگ میں پھینکنے سے وہ جل جاتا ہے لیکن اﷲ تعالی کے نبی حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں پھینکاگیاتو وہ صاف بچ کر آ گئے اورپیٹ میں جو چیز بھی جائے وہ ہضم ہوجاتی ہے لیکن اﷲ تعالی کے نبی حضرت یونس علیہ السلام چالس دنوں تک مچھلی کے پیٹ میں رہے لیکن زندہ باہر نکل آئے وغیرہ یہ سب معجزے تھے۔
محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنی حقانیت کے ثبوت میں متعدد معجزے پیش کیے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سب بڑا معجزہ قرآن مجید ہے ،یہ ایک زندہ کتاب ہی نہیں بلکہ زند ہ معجزہ ہے جو تاقیامت زندہ رہے گا۔اس کتاب کی زبان کازندہ رہنا کسی معجزے سے کم نہیں۔دنیامیں کسی زبان کی عمرساٹھ ستر سالوں سے زیادہ نہیں ہوتی،اس مدت کے بعد وہ زبان تبدیل ہوجاتی ہے یا پھر کچھ عرصہ مزید گزرنے کے بعدمتروک ہی ہوجاتی ہے جب کہ قرآن مجید کی زبان گزشتہ کئی صدیوں سے اسی طرح محفوظ و مامون چلی آرہی ہے۔قرآن کی پیشین گوئیاں آج تک سچ ثابت ہوتی چلی آرہی ہیں اوراس کتاب کے سربستہ راز کھلتے ہی چلے جارہے ہیں ۔صدیوں کے بعد پیداہونے والے انسانی قبیلے کے اعلی ترین دماغ اس کتاب پر قلم اٹھاتے ہیں لیکن ہر آیت ان کواپنی نئی نئی اطلاعات سے آگاہ کرتی چلی جاتی ہے۔اس کتاب کامعجزہ ہے کہ اسے من و عن حفظ کرلیاجاتاہے ۔کوئی کتنی اچھی غزل،ہو،گانا ہو،ناول ہو یا فلم وغیرہ ہو اس سے کتنی دفعہ کوئی التفات کرتا ہے پھر تھک جاتاہے لیکن صدیوں سے انسانیت اس کتاب کو پڑھتی چلی آرہی ہے ،سنتی چلی آرہی ہے اور سناتی چلی آرہی لیکن کبھی کسی نے اکتاہٹ کا اظہار نہیں کیا۔
محسن انسانیت ﷺ کا یہ معجزہ تھا کہ دائی حلیمہ سعدیہ جب مکے آرہی تھیں تو انکا گدھا سب سے مریل چال چل رہاتھا،سب قافلے والے رک رک کر انکا انتظار کرتے ،دائی حلیمہ کے شوہر کو ڈانٹتے کہ گدھا تیزچلاؤ،وہ ساتھ آ ملتے تو پھر قافلہ چلتا۔جب یہ قافلہ واپس آ رہاتھا اور محسن انسانیت ﷺ دائی حلیمہ کی گود میں تھے تویہی مریل گدھا سب سے آگے بھاگتا تھا اور قافلے والے اسکوآہستہ چلنے کاکہتے تھے۔بنواسد میں جب یہ مبارک بچہ پہنچ گیا تو اس قبیلے کے جانوروں کے تھن ایسے ہوگئے جیسے جاگ گئے ہوں،برتن بھربھرکر دودھ جیسے امڈنے لگا۔دوسرے قبائل کے لوگ اپنے لڑکوں کو ڈانٹتے تھے کہ تم بھی وہیں جانورچراؤجہاں اس گھرانے کے بچے چراتے ہیں،وہ لڑکے کہتے کہ وہیں تو چراتے ہیں لیکن دودھ اتنا نہیں نکلتا۔انہیں کیا معلوم یہ کسی گھاس یا خوراک کی وجہ سے دودھ نہیں نکل رہا بلکہ یہ تو معجزہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔
اہل مکہ میں سے ایک بار کسی نے تقاضاکیاکہ چاندکودوٹکڑے کر کے دکھاؤ،آپﷺ نے اپنی انگلی مبارک سے اشارہ کیاتو چانددوٹکڑے ہوگیاایک ٹکڑا ایک سمت میں دوسرا دوسری سمت میں اس حد تک گرے کہ نظروں سے چھپ گئے اور پھر دونوں آن کر باہم مل گئے۔قرآن نے اس معجزے کی تصدیق کی ہے اورچاندپر جانے والوں نے چاند کے عین وسط میں ایک ایسی دراڑ کامشاہدہ کیاہے جو پورے چاند پر نظر آتی ہے۔معراج شریف کا سفر آپ ﷺکا ایک شاندار معجزہ ہے۔آپ ﷺ براق پرتشریف فرماہوئے اور بیت المقدس پہنچے وہاں سب انبیاء علیھم السلام کی امامت کرائی ،پھر ساتوں آسمانوں کی سیر اوراﷲ تعالی سے ملاقات کے بعد زمین پر تشریف لے آئے۔لوگوں نے پوچھافلاں قافلہ جو مکہ اور بیت المقدس کے درمیان میں ہے کس جگہ تھا؟؟آپ ﷺ نے جومقام بتایا قافلے نے واپسی پر اسی رات کو اس مقام پر قیام کی تصدیق کر دی۔
محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک معجزہ یہ بھی ہے کہ آپ کی پیشین گوئیاں سچ ثابت ہوئیں اور آج تک سچ ہی ثابت ہوتی چلی آرہی ہیں۔ایک بار آپﷺ کعبۃاﷲ سے ٹیک لگائے بیٹھے تھے کہ ایک مسلمان نے اپنی کمر دکھائی جو کافروں کے تشدد کے باعث بری طرح جھلس کر زخمی ہو چکی تھی اس نے عرض کیا کہ ان کے لیے بددعا کیجئے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم سیدھے ہو کر بیٹھ گئے اور ارشاد فرمایا کہ اﷲ تعالی کی قسم ایک وقت آئے گا کہ صنعا سے حضرموت(عرب کے دو کونے)تک سونے سے لدی پھندی ایک نوجوان عورت تن تنہا سفر کرے گی اور اسے سوائے خدا کے کسی کا خوف نہ ہوگا۔حضرت سلیمان منصور پوری نے اپنی کتاب ’’رحمۃ اللعالمین‘‘میں ایسی کئی روایات کونقل کیا ہے جن میںکسی نوجوان خاتون کا ذکر کیاگیا ہے جو ایک شتر پر سوار ہو کر تن تنہا صنعا سے حضرموت تک گئی اور اسکے جسم پر سونے کے زیورات گویا لدے ہوئے تھے۔
ہجرت مدینہ کے سفر میںجب سراقہ بن مالک نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوآن گھیراتوآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاسراقہ کیا حال ہوگا جب قیصروقصری کے کنگن تجھے پہنائے جائیں گے۔دورفاروقی میں جب ایران فتح ہوا تو اس وقت کے بادشاہ لوگ اپنے ہاتھوں میں قیمتی دھاتوں کے کنگن پہنا کرتے تھے،اسی طرح کے کنگن ایران سے مدینہ لائے گئے تو حضرت عمر نے سراقہ بن مالک کو بلوا بھیجااس کے آنے پر اسے بادشاہ کے کنگن پہنائے گئے اور اسکے دونوں بازو کندھوں تک ان قیمتی کنگنوں سے بھر گئے۔اسی سفر کے دوران جب آپ ام معبد کے خیمے میں پہنچے تو آپ ﷺ سمیت پورے قافلے کوشدید بھوک لاحق تھی،اس خاتون کے ہاں ایک مریل بکری بندھی تھی۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ہمیں کچھ کھانے کو دو تو اس نے عرض کی کچھ میسر ہوتاتو مانگنے کی نوبت نہ آتی،اس بکری کے بارے میں استفسار ہواتوام معبد میں کہا اس میں دودھ کاکیاسوال یہ تو چلنے کے قابل ہی نہیں کہ ریوڑ کے ساتھ جاتی۔آپ ﷺ نے اس بکری کی کمرپر اپنا دست مبارک پھیرا اور اس خیمے کاسب سے بڑابرتن لا کراس میں دودھ دوہنا شروع کیاگیا ۔مریل بکری جو چلنے سے قاصر تھی دست نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزے کے باعث اسکے تھنوں سے نکلنے والے دودھ سے وہ سب سے بڑا برتن لبالب بھرگیا۔
غزوہ احزاب جسے جنگ خندق بھی کہتے ہیں ،اس جنگ سے قبل جب خندق کھودی جارہی تھی توایک بہت بڑا اور سخت پتھرحائل ہوگیا،بہت زور لگایاگیالیکن نہ ٹوٹا۔تب آپ ﷺ کو اطلاع کی گئی ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اورکدال سے ایک ضرب لگائی ،چنگاریاں نکلیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا روم فتح ہوگیا،پھر دوسری ضرب لگائی چنگاریاں نکلیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایران فتح ہوگیاپھر تیسری ضرب لگائی اور چنگاریاں نکلیں اور آپ ﷺ نے فرمایا خدا کی قسم بحرین کے سرخ محلات میں اپنی آنکھوں سے دیکھ رہاہوں۔بعد میں آنے والے دنوں میں روم اور ایران تو بہت جلد فتح ہوگئے اور روم کے بھی متعدد علاقے زیراسلام آگئے صرف قسطسطنیہ کا شہر باقی رہ گیا۔اس شہر کو فتح کرنے کے لیے اور نبی علیہ السلام کی پیشین گوئی پوری کرنے کے لیے کم و بیش چودہ بادشاہوں نے لشکر کشی کی اور آٹھ سو سال بعد قسطنطنیہ کا یہ شہر بھی اسلام کا زیرنگیں آ گیااور سچے نبی کی پیشین گوئی پوری ہو گئی۔
غزوہ خندق کے موقع پر جنب سب نے پیٹ پر پتھرباندھ رکھے تھے تو ایک صحابی اپنے گھر گیااور بکری کابچہ ذبح کیااور ساتھ ہی گھروالوں کومیسر آٹے سے روٹیاں پکانے کا کہ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضرہوااورکان مبارک میںعرض کی کہ سات آٹھ افراد کاکھانا تیار ہے تشریف لے آئیے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم ساٹھ ستر افراد کے ساتھ پہنچ گئے۔اس صحابی کے چہرے پرپریشانی کے آثار ہویدادیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاتھالی ہٹائے بغیرسالن نکالتے رہو اور اوپرسے رومال ہٹائے بغیرروٹیاں نکالتے رہواسی طرح اس سات آٹھ افرادکے کھانے کو ساٹھ ستر افراد نے سیرہوکرتناول کیااور مہمانوں کے چلے جانے پر پہلے جتنا کھاناپھر بھی باقی دھراتھا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک میں شفا تھی،غزوہ خیبر کے موقع پرجب حضرت علی آنکھوں کی تکلیف میں مبتلا تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا لعاب دہن ان آنکھوں میں لگادیااسکے بعد تاحیات حضرت علی آںکھوں کی تکلیف سے محفوظ رہے،ایک بار دودھ کے بھرے چھوٹے سے کٹورے میں آپ نے اپنی انگلیاں ڈالیں اور اس پیالے سے منہ لگاکرسب اصحاب صفہ نے دودھ پیااور پھر بھی اس پیالے میں اتنا ہی دودھ باقی تھا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود فرمایاکہ ایک پتھر مجھے سلام کیا کرتا تھاحتی کہ جانوروں کی زبان سمجھ لینا بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک معجزہ تھا،جب کچھ لوگ شرف ملاقات کے لیے حاضر خدمت ہوئے تو انکے اونٹ نے اپناسر لمبا کرکے تو قدمین شریفین پر رکھ دیااور اپنی زبان میں ڈکارا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ مجھ سے شکایت کررہاہے کہ تم اس سے کام بہت لیتے ہو کھانے کو کم دیتے ہو اور تشدد بھی کرتے ہو۔وہ لوگ کم و بیش دوماہ بعد اس اونٹ کو پھرلائے اور خدمت اقدسﷺ میں پیش کرکے عرض کی اس دوران ہم نے اس سے کوئی کام نہیں لیااور صرف کھلایاپلایا ہے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی صحت دیکھ لیں اور اجازت ہو تو ہم اس سے کام لینا شروع کر دیں۔