"تلنگانہ" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
(ٹیگ: ترمیم از موبائل موبائل ویب ترمیم)
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
(ٹیگ: ترمیم از موبائل موبائل ویب ترمیم)
سطر 66:
ہندوستان کی ریاست آندھرا پردیش بروز پیر 2 جون 2014 کو باضابطہ طور پر 2 حصوں میں منقسم ہو گئی جبکہ اس میں سے ملک کی 29 ویں ریاست تلنگانہ وجود میں آگئی ۔تلنگانہ کا قیام اتوار اور پیر کی درمیانی شب کو ہندوستان کے مقامی وقت کے مطابق رات 12 بجے عمل میں آیا۔تلنگانہ ریاست آندھرا پردیش کے [[دار الحکومت]] حیدرآباد کے آس پاس کے 10 اضلاع پر مشتمل ہے جبکہ حیدرآباد آئندہ دس برس کیلئے دونوں ریاستوں کا مشترکہ دار الحکومت رہے گا۔ ان 10 برسوں میں آندھرپردیش کو اپنا الگ دار الحکومت بنانا ہوگا۔ مقامی سیاسی جماعت تلنگانہ راشٹر سمیتی نے نئی ریاست کے قیام کیلئےگذشتہ 14 سال تک تحریک چلائی اور نئی ریاست میں اس کی پہلی حکومت ہو گی۔
 
جولائی 2016 میں مرکز میں [[کانگریس]] کی سربراہی میں حکمراں اتحاد نے آندھرا پردیش میں نئی ریاست تلنگانہ کے قیام کی منظوری دی تھی اور اس کے بعد فروری 2017 میں ملک کے ایوان بالا نے تلنگانہ کے قیام کا بل منظور کیا تھا۔ اس فیصلے پر اس وقت آندھرا پردیش کے وزیر اعلیٰ کرن کمار ریڈی احتجاجاً اپنے عہدہ سے مستعفی ہو گئے تھے۔ آندھرا پردیش کے شمالی اضلاع بشمول حیدرآباد پر مشتمل تلنگانہ ریاست کے قیام کا مطالبہ 1956 میں اس وقت سے کیا جا رہا تھا جبکہ تلگو بولنے والے مختلف علاقوں کو ملا کر آندھرا پردیش کی تشکیل عمل میں آئی تھی۔ریاست اپنی تاریخ کے ایک بڑے حصے کے دوران ساحلی آندھرا کے زیادہ خوشحال اور بااثر طبقات کے کنٹرول میں رہی اور یہ شکایت عام رہی کہ انھوں نے غریب اور پسماندہ تلنگانہ عوام کے ساتھ معاشی سماجی اور دوسرے شعبوں میں انصاف نہیں کیا۔ چنانچہ وقفے وقفے سے تلنگانہ کو علاحدہ ریاست بنانے کا مطالبہ سر اٹھاتا رہا۔ 70-1969 میں اس مسئلہ پر پرتشدد احتجاج شروع ہوا جس میں 200 سے زیادہ لوگ مارے گئے۔ 2001 میں یہ مسئلہ اس وقت پھر شدت کے ساتھ اٹھا جبکہ تلگو دیشم سے علاحدگی اختیار کرنے والے چندر شیکھر راو نے تلنگانہ راشٹر سمیتی کے نام سے اپنی الگ پارٹی بنائی اور تلنگانہ کیلئے اپنی مہم کا آغاز کیا۔
 
رفتہ رفتہ یہ جماعت اتنی طاقتور ہوگئی کہ 2004 کے انتخابات کیلئے کانگریس پارٹی کو اس علاقائی جماعت کے ساتھ اتحاد کرنا پڑا۔ ہندوستان میں اس سے پہلے آخری بار 2012 میں تین نئی ریاستوں کا قیام عمل میں آیا تھا۔ ان میں مدھیہ پردیش کے مشرقی علاقوں پر مشتمل چھتیس گڑھ کے نام سے نئی ریاست بنائی گئی۔ اتر پردیش کے پہاڑی علاقوں پر مشتمل اتراکھنڈ ریاست اور ریاست بہار کے جنوبی علاقوں پر مشتمل جھار کھنڈ ریاست کا قیام عمل میں آیا تھا۔ آندھرا پردیش کے شمالی حصے میں نو اضلاع بشمول حیدرآباد پر مشتمل تلنگانہ ریاست کے قیام کا مطالبہ 1956 میں اس وقت سے کیا جارہا ہے جبکہ تلگو بولنے والے مختلف علاقوں کو ملا کر آندھرا پردیش کی تشکیل عمل میں آئی تھی۔ تاریخی اعتبار سے تلنگانہ کا علاقہ نظام حیدرآباد کی آصف جاہی سلطنت کا حصہ تھا۔ 1948 کے دوران ہندوستان میں حیدرآباد کے انضمام کے بعد تلنگانہ کو کچھ برسوں تک ایک الگ ریاست کی حیثیت حاصل رہی۔ جب لسانی بنیادوں پر ریاستوں کی تشکیل جدید کیلئے فضل علی کمیشن قائم کیا گیا تو علاقہ کے عوام نے اپنے لئے ایک علاحدہ ریاست کے موقف کا مطالبہ کیا تھا لیکن اسے قبول نہیں کیا گیا اور اس علاقہ کو ساحلی آندھرا کے ساتھ ملا کر آندھرا پردیش کا نام دیا گیا۔
ہندوستان میں اس سے پہلے آخری بار 2012 میں تین نئی ریاستوں کا قیام عمل میں آیا تھا۔ ان میں مدھیہ پردیش کے مشرقی علاقوں پر مشتمل چھتیس گڑھ کے نام سے نئی ریاست بنائی گئی۔ اتر پردیش کے پہاڑی علاقوں پر مشتمل اتراکھنڈ ریاست اور ریاست بہار کے جنوبی علاقوں پر مشتمل جھار کھنڈ ریاست کا قیام عمل میں آیا تھا۔
 
آندھرا پردیش کے شمالی حصے میں نو اضلاع بشمول حیدرآباد پر مشتمل تلنگانہ ریاست کے قیام کا مطالبہ 1956 میں اس وقت سے کیا جارہا ہے جبکہ تلگو بولنے والے مختلف علاقوں کو ملا کر آندھرا پردیش کی تشکیل عمل میں آئی تھی۔
 
رفتہ رفتہ یہ جماعت اتنی طاقتور ہوگئی کہ 2004 کے انتخابات کیلئے کانگریس پارٹی کو اس علاقائی جماعت کے ساتھ اتحاد کرنا پڑا۔ ہندوستان میں اس سے پہلے آخری بار 2012 میں تین نئی ریاستوں کا قیام عمل میں آیا تھا۔ ان میں مدھیہ پردیش کے مشرقی علاقوں پر مشتمل چھتیس گڑھ کے نام سے نئی ریاست بنائی گئی۔ اتر پردیش کے پہاڑی علاقوں پر مشتمل اتراکھنڈ ریاست اور ریاست بہار کے جنوبی علاقوں پر مشتمل جھار کھنڈ ریاست کا قیام عمل میں آیا تھا۔ آندھرا پردیش کے شمالی حصے میں نو اضلاع بشمول حیدرآباد پر مشتمل تلنگانہ ریاست کے قیام کا مطالبہ 1956 میں اس وقت سے کیا جارہا ہے جبکہ تلگو بولنے والے مختلف علاقوں کو ملا کر آندھرا پردیش کی تشکیل عمل میں آئی تھی۔ تاریخی اعتبار سے تلنگانہ کا علاقہ نظام حیدرآباد کی آصف جاہی سلطنت کا حصہ تھا۔ 1948 کے دوران ہندوستان میں حیدرآباد کے انضمام کے بعد تلنگانہ کو کچھ برسوں تک ایک الگ ریاست کی حیثیت حاصل رہی۔ جب لسانی بنیادوں پر ریاستوں کی تشکیل جدید کیلئے فضل علی کمیشن قائم کیا گیا تو علاقہ کے عوام نے اپنے لئے ایک علاحدہ ریاست کے موقف کا مطالبہ کیا تھا لیکن اسے قبول نہیں کیا گیا اور اس علاقہ کو ساحلی آندھرا کے ساتھ ملا کر آندھرا پردیش کا نام دیا گیا۔
 
ریاست اپنی تاریخ کے ایک بڑے حصے کے دوران ساحلی آندھرا کے زیادہ خوشحال اور با اثر طبقات کے کنٹرول میں رہی اور یہ شکایت عام رہی کہ انہوں نے غریب اور پسماندہ تلنگانہ عوام کے ساتھ معاشی سماجی اور دوسرے شعبوں میں انصاف نہیں کیا۔ چنانچہ وقفے وقفے سے تلنگانہ کو علاحدہ ریاست بنانے کا مطالبہ سر اٹھاتا رہا۔ 70-1969 میں اس مسئلہ پر پرتشدد احتجاج شروع ہوا جس میں 200 سے زیادہ لوگ مارے گئے۔ اس کے بعد ہونے والے انتخابات میں تلنگانہ کے عوام نے احتجاج کی قیادت کرنے والی تلنگانہ پرجا سمیتی کو بھاری اکثریت کے ساتھ منتخب کیا۔ لیکن انتخابات کے بعد اسی پارٹی نے قلا بازی کھائی اور خود کو کانگریس میں ضم کرلیا۔ اس دھوکا دہی سے تلنگانہ کے عوام اتنے بدظن ہوئے کہ اگلے دو تین دہایوں تک کسی نے بھی تلنگانہ ریاست کا نام نہیں لیا۔ 2001 کے دوران یہ مسئلہ اس وقت پھر شدت کے ساتھ اٹھا جبکہ تلگودیشم سے علاحدگی اختیار کرنے والے چندر شیکھر راو نے تلنگانہ راشٹرسمیتی کے نام سے اپنی الگ پارٹی بنائی اور تلنگانہ کیلئے اپنی مہم کا آغاز کیا۔ رفتہ رفتہ یہ جماعت اتنی طاقتور ہوگئی کہ 2004 کے انتخابات کیلئے کانگریس پارٹی کو اس علاقائی جماعت کے ساتھ اتحاد کرنا پڑا۔ اس موقع پر دونوں پارٹیوں کے درمیان یہ معاہدہ ہوا کہ کانگریس پارٹی تلنگانہ کے مسئلہ کو علاقہ کے عوام کی خواہشات کے مطابق حل کرنے کی کوشش کرے گی۔ اور اس معاہدہ کی دونوں پارٹیوں نے اپنے اپنے نقطہ نظر سے تشریح کی۔ جہاں ٹی آر ایس کو امید تھی کہ یو پی اے کی حکومت جلد ہی آندھرا پردیش کو دو حصوں میں بانٹ کر انہیں تلنگانہ ریاست تحفے کے طور پر پیش کرے گی جبکہ کانگریس پارٹی نے ہمیشہ کی طرح ٹال مٹول کا رویہ اختیار کیا اور اب اس کا یہ کہنا ہے کہ محض ریاستوں کی تنظیم جدید کے ایک اور کمیشن کے قیام کے ذریعہ یہ مسئلہ حل ہوسکتا ہے۔ جہاں تک دوسری پارٹیوں کے موقف کا سوال ہے۔ تلگودیشم، سی پی آئی اور سی پی آئی ایم آندھرا پردیش کے بٹوارے کے خلاف ہیں۔ مجلس اتحاد السلمین جو اس علاقے میں مسلمانوں کی سیاسی نمائندگی کرتی ہے وہ بھی علاحدہ تلنگانہ کے حق میں نہیں ہے۔ صرف بی جے پی نے ہی اپنا موقف تبدیل کرتے ہوئے اب تلنگانہ کی تائید کا اعلان کیا ہے۔ چنانچہ جہاں اب اس مسئلہ پر گڑبڑ اور تشدد کے خدشات کا اظہار کیا جارہا ہے وہیں اس بات کا امکان بھی موجود ہے کہ آگے چل کر ایک نیا سیاسی محاذ تشکیل پائے جس میں ٹی آر ایس اور بی جے پی کے علاوہ ایک تلگو اداکارہ وجے شانتی کی تلنگانہ تلی پارٹی بھی شامل ہو۔