"حسین احمد مدنی" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 5:
| name = '''حسین احمد مدنی'''
| image =شیخ الہند مولانا سید حسین احمد مدنیؒ.jpg
| birth_date = 18791879ء
| death_date = 19571957ء
| school_tradition = چشتی صابری شاخ [[سلسلہ چشتیہ]]
| main_interests = حدیث، تصوف، فقہ
سطر 127:
* مشہورالجزائری عالم شیخ بشیر ابراہیمی۔
 
=== درس حدیث کیلیےکے لیے تکالیف کا تحمل ===
شدید گرمیں دوپہر 12 بجے کا زمانہ ہو چھتری پیش کی جائے تو لینے سے انکار کر دیتے۔ بارش کے زمانہ میں راستہ کیچڑ آلود ہوتا لیکن حضرت دارالحدیث کی جانب محو سفر ہوتے۔ ایک ہاتھ میں چھڑی اور دوسرے ہاتھ میں چھتری ہوتی۔ کپڑے کیچڑ آلود ہوتے تو سواری پیش کی جاتی تو انکار کردیتے۔ شاگرد تانگے والے کو لے آتے بار بار اصرار کرنے پر ایک دفعہ کہنے لگے کہ کیچڑ سے ہم پیدا ہوئے، اگر اسمیں جا ملیں تو کیا ڈر ہے۔ ایک مرتبہ طلبا کے اصرار پر تیار ہوگئے۔ دوسرے دن کہیں دور جانا تھا تو تانگہ والا حاضر ہوا تو اسکے تانگہ پر اسوقت سوار ہوگئے جبکہ یہ شرط تسلیم کرالی کہ وہ درس گاہ تک لے جانے کیلیےکے لیے آئندہ کبھی نہ آئے گا۔ <ref name=":0" />
 
== اہلیہ کی تدفین سے فراغت کے بعد درس بخاری ==
سطر 159:
مولانا فرید الوحیدی ؒ خود راوی ہیں کہ حضرت مدنیؒ یتیموں اور بیواؤن کی عموما امداد فرماتے تھے۔ ایسے افراد میری نظر میں ہیں جنہیں بے روزگاری کے دور میں مستقل امداد دیتے رہے۔ ان میں مسلم اور غیر مسلم کی قید نہ تھی۔ جو لوگ مفلوک الحال ہوتے انکی امداد باضابطہ طور پر فرماتے۔ عید کے مواقع پر اگر آبائی وطن ہوتے تو خود رشتہ داروں کے ہاں عید سے پہلے جاتے اور عیدی تقسیم فرماتے۔
 
مولانا مدنیؒ اپنے یتیم بھتیجے کی شادی کیلیےکے لیے 25،000 پچیس ہزار روپے جیب کی مالیت سے عالی شن گھر تعمیر کروایا۔بھتیجے کی وفات کے بعد انکی اولاد کا کہنا ہے کہ گرفتاری و قید تک ہمیں احساس بھی نہ ہونے دیا کہ ہم یتیم ہیں۔ غرض یہ کہ اس دور نفسا نفسی میں حقیقی پوتوں کے ساتھ پرخلوص مہرو محبت عنقا ہے۔ بھتیجے اور اسکی اولاد کے ساتھ غیر معمولی مہرو محبت کے برتاؤ کی مثال بھی شاید مشکل سے نظر آئے۔<ref name=":0">شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنیؒ ، از مولانا عبدالقیوم حقانی</ref>
 
=== مستحقین کی خبر گیری ===
سطر 170:
=== میرے گھر کی بات کسی سے نہ کہنا ===
مولانا عبدالحق مدنی کا بیان ہے:
{{اقتباس|مدینہ منورہ والے سید حسین احمد مدنی کی اتنی عزت کرتے تھے کہ دوسرے کسی عالم کو یہ امتیاز حاصل نہ تھا لیکن حضرت مدنی رمضان شریف میں روزہ پر روزہ رکھتے اور کسی کو خبر نہ ہوتی۔ چنانچہ میں نے افطار کا پروگرام رکھا۔ کھانا لے آیا اصرار پر حضرت نے تھوڑا سا کھایا۔ میں سمجتا رہا کہ حضرت کے گھر سے بھی کھانا آئے گا مگر افطاری تو کجا سحر کو بھی نہ آیا۔ حضرت کے پاس چند کھجوریں تھیں جن سے روزہ افطار اور سحر کرلیا کرتے تھے۔ میں نے عرض کیا آنجناب کے گھر سے نہ افطار میں کھانا آیا اور نہ سحر کیلیےکے لیے کوئی خبر آئی؟
 
حضرت مدنی نے بات ٹالنے کی بہت کوشش کی اور گفتگو کا رخ ادھر ادھر پھیرنا چاہا لیکن میرا صرار برھتا ہی گیا۔ فرمایا عبدالحق! جناب [[محمد صلی اللہ علیہ وسلم|رسول اللہ ﷺ]] کی سنت تو کبھی پوری ہونی چاہیے۔ اسکے بعد انتہائی بزرگانہ انداز میں فرمایا کہ میرے گھر کی بات کسی سے نہ کہنا: (بار بار آدھ پاؤ مسور کی دال پکا کر سب گھر والوں نے تھوڑی تھوڑی پی کر یا تربوز کے چھلکے سڑک پر سے اٹھا کر دھو کر شب میں پکا کر اس کا پانی پی کر گذرکیا)