"سورہ الاعلیٰ" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م روبالہ جمع: ms:Surah Al-A’laa
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 4:
|گذشتہ=[[الطارق]]
|آئندہ=[[الغاشیہ]]
|تصویر_سورت=Sura87.pdf
|دور_نزول=مکی
|نام_کے_معنی=
|دیگر_نام=
|سورت_نمبر=87
|پارہ_نمبر=
|زمانۂ_نزول=
|رکوع_کی_تعداد=
|آیات_کی_تعداد=19
|الفاظ_کی_تعداد=72
|حروف_کی_تعداد=293
|حرف_مقطعات=
|سجود_کی_تعداد=
}}
[[قرآن مجید]] کی 87 ویں سورت جس میں 10 آیات ہیں۔
 
==نام==
 
پہلی ہی آیت ''سبح اسم ربک الاعلٰی'' کے لفظ ''الاعلٰی'' کو اس سورت کا نام قرار دیا گیا ہے۔
 
==زمانۂ نزول==
 
اس کے مضمون سے بھی یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ بالکل ابتدائی دور کی نازل شدہ سورتوں میں سے ہے، اور آیت نمبر 6 کے یہ الفاظ بھی کہ {{اقتباس|ہم تمہیں پڑھوا دیں گے، پھر تم نہیں بھولو گے}} یہ بتاتے ہیں کہ یہ اس زمانے میں نازل ہوئی تھی جب رسول اللہ {{درود}} کو ابھی [[وحی]] اخذ کرنے کی اچھی طرح مشق نہیں ہوئيہوئی تھی اور نزول وحی کے وقت آپ کو اندیشہ ہوتا تھا کہ کہیں میں اس کے الفاظ بھول نہ جاؤں۔ اس آیت کے ساتھ اگر [[سورۂ طٰہٰ]] کی آیت 114 اور [[سورۂ قیامہ]] کی آیات 16 – 19 کو ملا کر دیکھا جائے، اور تینوں آیتوں کے اندازِ بیاں اور موقع و محل پر بھی غور کیا جائے تو واقعات کی ترتیب یہ معلوم ہوتی ہے کہ سب سے پہلے اس سورت میں حضور {{درود}} کو اطمینان دلایا گیا کہ آپ فکر نہ کریں، ہم یہ کلام آپ کو پڑھوا دیں گے اور آپ اسے نہ بھولیں گے۔ پھر ایک مدت کے بعد، دوسرے موقع پر جب سورۂ قیامہ نازل ہو رہی تھی، حضور بے اختیار الفاظِ وحی کو دہرانے لگے۔ اس وقت فرمایا گیا "اے نبی، اس وحی کو جلدی جلدی یاد کرنے کے لیے اپنی زبان کو حرکت نہ دو، اس کو یاد کرا دینا اور پڑھوا دینا ہمارے ذمہ ہے، لہٰذا جب ہم اسے پڑھ رہے ہوں اس وقت تم اس کی قرات کو غور سے سنتے رہے، پھر اس کا مطلب سمجھا دینا بھی ہمارے ہی ذمہ ہے۔" آحریآخری مرتبہ سورۂ طٰہ کے نزول کے موقع پر حضور کو پھر بتقاضائے بشریت اندیشہ لاحق ہوا کہ یہ 113 آیتیں جو متواتر نازل ہوئی ہیں ان میں سے کوئی چیز میرے حافظے سے نہ نکل جائے اور آپ ان کو یاد کرنے کی کوشش کرنے لگے۔ اس پر فرمایا گیا "اور قرآن پڑھنے میں جلدی نہ کیا کرو جب تک تمہاری طرف اس کی وحی تکمیل کو نہ پہنچ جائے" اس کے بعد پھر کبھی اس کی نوبت نہیں ہوئی کہ حضور {{درود}} کو ایسا کوئی خطرہ لاحق ہوتا، کیونکہ ان تین مقامات کے سوا کوئی چوتھا مقام قرآن میں ایسا نہیں ہے جہاں اس معاملے کی طرف کوئی اشارہ پایا جاتا ہو۔
 
==موضوع اور مضمون==
 
اس چھوٹی سی سورت کے تین موضوع ہیں۔ توحید،[[توحید]]، نبی {{درود}} کو ہدایت اور آخرت۔[[آخرت]]۔
پہلی آیت میں توحید کی تعلیم کو اس ایک فقرے میں سمیٹ دیا گیا ہے کہ اللہ تعالٰی کے نام کی تسبیح کی جائے، یعنی اس کو کسی ایسے نام سے یاد نہ کیا جائے جو اپنے اندر کسی قسم کے نقص، عیب، کمزوری یا مخلوقات سے تشبیہ کا کوئی پہلو رکھتا ہو کیونکہ دنیا میں جتنے بھی فاسد عقائد پیدا ہوئے ہیں ان سب کی جڑ اللہ تعالٰی کے متعلق کوئی نہ کوئی غلط تصور ہے جس نے اس ذات پاک کے لیے کسی غلط نام کی شکل اختیار کی ہے لہٰذا عقیدے کی تصحیح کے لیے سب سے مقدم یہ ہے کہ اللہ جل شانہ کو صرف ان اسماء حسنٰی ہی سے یاد کیا جائے جو اس کے لیے موزوں اور مناسب ہیں۔
 
اس کے بعد تین آیتوں میں بتایا گیا ہے کہ تمہارا رب، جس کے نام کی تسبیح کا حکم دیا جا رہا ہے، وہ ہے جس نے کائنات کی ہر چیز کو پیدا کیا، اس کا تناسب قائم کیا، اس کی تقدیر بنائی، اسے وہ کام انجام دینے کی راہ بتائی جس کے لیے وہ پیدا کی گئی ہے، اور تم اپنی آنکھوں سے اس کی قدرت کا یہ کرشمہ دیکھ رہے ہو کہ وہ زمین پر نباتات کو پیدا بھی کرتا ہے اور پھر انہیں خس و خاشاک بھی بنا دیتا ہے۔ کوئی ہستی نہ بہار لانے پر قادر ہے نہ خزاں کو آنے سے روک سکتی ہے۔
پہلی آیت میں توحید کی تعلیم کو اس ایک فقرے میں سمیٹ دیا گیا ہے کہ اللہ تعالٰی کے نام کی تسبیح کی جائے، یعنی اس کو کسی ایسے نام سے یاد نہ کیا جائے جو اپنے اندر کسی قسم کے نقص، عیب، کمزوری یا مخلوقات سے تشبیہ کا کوئی پہلو رکھتا ہو کیونکہ دنیا میں جتنے بھی فاسد عقائد پیدا ہوئے ہیں ان سب کی جڑ اللہ تعالٰی کے متعلق کوئی نہ کوئی غلط تصور ہے جس نے اس ذات پاک کے لیے کسی غلط نام کی شکل اختیار کی ہے لہٰذا عقیدے کی تصحیح کے لیے سب سے مقدم یہ ہے کہ اللہ جل شانہ کو صرف ان [[اسماء حسنٰی]] ہی سے یاد کیا جائے جو اس کے لیے موزوں اور مناسب ہیں۔
 
اس کے بعد تین آیتوں میں بتایا گیا ہے کہ تمہارا رب، جس کے نام کی تسبیح کا حکم دیا جا رہا ہے، وہ ہے جس نے [[کائنات]] کی ہر چیز کو پیدا کیا، اس کا تناسب قائم کیا، اس کی تقدیر بنائی، اسے وہ کام انجام دینے کی راہ بتائی جس کے لیے وہ پیدا کی گئی ہے، اور تم اپنی آنکھوں سے اس کی قدرت کا یہ کرشمہ دیکھ رہے ہو کہ وہ [[زمین]] پر نباتات کو پیدا بھی کرتا ہے اور پھر انہیں خس و خاشاک بھی بنا دیتا ہے۔ کوئی ہستی نہ بہار لانے پر قادر ہے نہ خزاں کو آنے سے روک سکتی ہے۔
 
پھر دو آیتوں میں رسول اللہ {{درود}} کو ہدایت فرمائی گئی ہے کہ آپ اس فکر میں نہ پڑیں کہ یہ قرآن جو آپ پر نازل کیا جا رہا ہے، یہ لفظ بلفظ آپ کو یاد کیسے رہے گا۔ اس کو آپ کے حافظے میں محفوظ کر دینا ہمارا کام ہے، اور اس کا محفوظ رہنا آپ کے کسی ذاتی کمال کا نتیجہ نہیں بلکہ ہمارے فضل کا نتیجہ ہے، ورنہ ہم چاہیں تو اسے بھلا دیں۔
 
اس کے بعد رسول اللہ {{درود}} سے فرمایا گیا ہے کہ آپ کے سپرد ہر ایک کو راہ راست پر لے آنے کا کام نہیں کیا گیا ہے بلکہ آپ کا کام بس حق کی تبلیغ کر دینا ہے، اور تبلیغ کا سیدھا سادا طریقہ یہ ہے کہ جو نصیحت سننے اور قبول کرنے کے لیے تیار ہو اسے نصیحت کی جائے اور جو اس کے لیے تیار نہ ہو اس کے پیچھے نہ پڑا جائے۔ جس کے دل میں گمراہی کے انجامِ بد کا خوف ہوگا وہ حق بات کو سن کر قبول کر لے گا اور جو بدبخت اسے سننے اور قبول کرنے سے گریز کرے گا وہ اپنا برا انجام خود دیکھ لے گا۔
 
آحرآخر میں کلام کو اس بات پر ختم کیا گیا ہے کہ فلاح صرف ان لوگوں کے لیے ہے جو عقائد، اخلاق اور اعمال کی پاکیزگی اختیار کریں، اور اپنے رب کا نام یاد کر کے نماز پڑھیں۔ لیکن لوگوں کا حال یہ ہے کہ انہیں ساری فکر بس اسی دنیا کے آرام و آسائش اور فائدوں اور لذتوں کی ہے حالانکہ اصل فکر آخرت کی ہونی چاہیے، کیونکہ دنیا فانی ہے اور آخرت باقی، اور دنیا کی نعمتوں سے آخرت کی نعمتیں بدرجہا بڑھ کر ہیں۔ یہ حقیقت صرف قرآن ہی میں نہیں بتائی جا رہی ہے، بلکہ حضرت [[ابراہیم علیہ السلام|ابراہیم]] اور حضرت [[موسیٰ علیہ السلام|موسٰی]] علیہم السلام کے صحیفوں میں بھی انسان کو اسی حقیقت سے آگاہ کیا گیا تھا۔
 
{{سورت
|87
|[[الطارق]]
|
|[[الغاشیہ]]
|
}}
[[زمرہ:قرآن]]