"سلیمان (اسلام)" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 1:
{{دیگر استعمال|سلیمان (بادشاہ)}}
{{انبیاء اسلام}}
{{اسلامی انبیاء}}
سطر 4 ⟵ 5:
'''سلیمان علیہ السلام''' اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ نبی {{ع مذ}} تھے۔ سلیمان علیہ السلام [[داؤد علیہ السلام]] کے بیٹے تھے۔ سمجھا جاتا ہے کہ انہوں نے متحدہ اسرائیل پر 970 قبل از مسیح سے لے کر 931 قبل از مسیح تک حکومت کی۔ ان کے بعد ملک اسرائیل کے دو حصے (شمالی اور جنوبی) ہو گئے۔
 
== سلسلہ نسب ==
حضرت سلیمان کا سلسلہ نسب یہودا (اولاد یعقوب) کے واسطے سے حضرت یعقوب سے جا ملتا ہے۔ قرآن پاک میں انھیں اولاد ابراہیم میں شمار کیا ہے۔
 
حافظ ابنِ عساکر نے آپ کے نسب نامے کی تفصیل یوں بیان کی ہے:
 
{{اقتباس|سلیمان بن داؤد بن ایشا بن عوید بن عابر بن سلمون بن نحشون بن عیمنا ذب بن ارم بن حصرون بن فارص بن یہودا بن یعقوب بن اسیاق بن ابراہیم۔ }}
 
== معجزے ==
حضرت داؤد علیہ السلام کی طرح [[اللہ]] تعالیٰ نے حضرت سلیمان علیہ السلام کو بھی بہت سے [[معجزہ|معجزے]] عطا کر رکھے تھے.تھے۔
* آپ [[جانور|جانوروں]] کی [[بولی|بولیاں]] سمجھ لیتے تھے،
* [[ہوا]] پر آپ کا قابو تھا۔ آپ کا تخت ہوا میں اڑا کرتا تھا۔ یعنی [[صبح]] اور [[شام (دن کا حصہ)|شام]] مختلف [[سمت|سمتوں]] کو ایک ایک [[ماہ]] کا [[فاصلہ]] طے کر لیا کرتے تھے.تھے۔
حضرت سلیمان علیہ السلام کی سب سے بڑی خصوصیت یہ تھی کہ
* آپ کی [[حکومت]] صرف [[انسان|انسانوں]] پر ہی نہ تھی، بلکہ [[جن]] بھی آپ کے تابع تھے۔
 
== مسجد اقصی اور بیت المقدس کی تعمیر ==
سطر 50 ⟵ 51:
 
ترجمہ: {{اقتباس|اور سلیمان علیہ السلام داؤد علیہ السلام کا وارث ہوا۔}}
=== تفسیر ===
یہاں وراثت سے مراد مال و دولت اور حکومت و سلطنت نہیں ہے، کیونکہ حضرت سلیمان علیہ السلام حضرت داؤد علیہ السلام کی واحد اولاد نہ تھے۔ ان کی سو بیویاں تھیں ان سے اولادیں بھی تھیں اور حضرت داؤد علیہ السلام کی وفات کے وقت آپ کے انیس بیٹوں کا ذکر ملتا ہے۔ اگر وراثت سے مراد مال و دولت، جائداد اور سلطنت ہے تو پھر انیس کے انیس بیٹے وارث ٹھہرتے اور حضرت سلیمان علیہ السلام کی تخصیص باقی نہ رہتی۔ اب چونکہ یہاں وارث ہونے میں حضرت سلیمان علیہ السلام کا ذکر ہے تو وہ علم اور نبوت ہی کی وراثت ہو سکتی ہے۔ (وان العلماء ورثۃ الأنبیاء) بے شک علما ہی انبیا کے وارث ہوا کرتے ہیں (علم کے) پھر دوسری بات یہ بھی ہے کہ انبیا کی وفات کے بعد ان کی اولاد ان کے مال و دولت کی وارث نہیں ہوتی بلکہ تمام مال و اسباب مساکین و فقرا کا حق سمجھتے ہوئے خدا کے نام پر صدقہ کر دیا جاتا ہے کیونکہ یہ حقیقت ہے کہ انبیاء کے مال کی میراث تقسیم نہیں ہوا کرتی۔ رسول پاکﷺ کا ارشاد مبارک ہے کہ {{اقتباس|ہم جماعت انبیا ہیں۔ ہمارے ورثے بٹا نہیں کرتے۔ ہم جو کچھ چھوڑ جائیں، صدقہ ہے۔}}
 
سطر 56 ⟵ 57:
حضرت سلیمان علیہ السلام کی وفات کا واقعہ بڑا دلچسپ ہے۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کے حکم سے جنوں کی ایک جماعت ہیکل سلیمانی ([[بیت المقدس]]) بنانے میں مصروف تھی کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کی وفات کا [[وقت]] آن پہنچا، آپ ایک [[لاٹھی]] کے سہارے کھڑے ہو گئے اور [[انتقال]] فرما گئے۔ جنوں کو آپ کی [[موت]] کی خبر نہ ہوئی اور وہ اپنے کام میں لگے رہے۔ آخر ایک عرصہ کے بعد جب ان کی لاٹھی کو [[دیمک]] نے چاٹ لیا تو وہ بودی ہو کر ٹوٹ کر گر پڑی اور حضرت سلیمان علیہ السلام جو لاٹھی کے سہارے کھڑے تھے وہ بھی گر پڑے۔ اس وقت جنوں کو معلوم ہوا کہ حضرت سلیمان علیہ السلام تو مدت سے انتقال کرچکے ہیں۔
 
== دولت ==
حضرت سلیمان علیہ السلام اپنے زمانے کے امیر ترین آدمی تھے۔ اگر آج کے حساب سے دیکھا جائے تو وہ 2200 ارب ڈالر کے مالک تھے۔ اپنے 39 سالہ دور حکومت میں انہیں ہر سال 25 ٹن سونا بطور نذرانہ ملتا تھا۔<ref>[http://money.visualcapitalist.com/wp-content/uploads/2017/07/richest-people-in-history.html The Richest People in Human History]</ref>
 
== حوالہ جات ==
{{حوالہ جات}}
۱۔ القرآن، ۲2:۲۴۹249
 
۲۔ تہامی، ص ۴۶46
 
۳۔ ادارہ سیارہ ڈائجسٹ ص ۲۷۲272 تا ۲۷۶276
 
۴۔ مہر، غلام رسول، ص ۸۹89
 
۵۔ ادارہ سیارہ ڈائجسٹ ص ۲۷۲272 تا ۲۷۶276
 
۶۔ مہر، غلام رسول، ص ۸۲82
 
۷۔ ادارہ سیارہ ڈائجسٹ ص ۲۷۲272 تا ۲۷۶276
 
۸۔ القرآن، ص: ۲۰20
 
۹۔ القرآن، البقرہ:۲2:۲۵۲252
 
۱۰۔ 10۔ ا محمد حفیظ الرحمن سینوہاروی، مولانا، ص ۹۲92
 
۱۱۔ 11۔ القرآن، المائدہ:۷۸78
 
۱۲۔ 12۔ القرآن، الاعراف: ۱۶۶166
 
۱۳۔ 13۔ عبد العزیز ہزاروی، مولانا ص ۵۶۸۔568۔ ۵۶۹569
 
۱۴۔ 14۔ محمد شفیع، مولانا، ص ۴۹۶496
 
۱۵۔ 15۔ القرآن، ص: ۲۴24
 
۱۶۔ 16۔ القرآن، ص:۲۶26
 
۱۷۔ 17۔ قاضی عبد الرزاق، ص۲۰۶ص206
 
۱۸۔ 18۔ القرآن، ص: ۲۰20
 
۱۹۔ 19۔ القرآن، بنی اسرائیل : ۵۵55
 
۲۰۔ 20۔ القرآن، سبا:۱۱۔11۔ ۱۰10
 
۲۱۔ 21۔ عبد الرحمن، مولانا، ص ۳۶36
 
۲۲۔ 22۔ حفیظ الرحمن سیوہاروی، مولانا، ص ۹۳93
 
۲۳۔ 23۔ مہر، ص ۸۳83
 
۲۴۔ 24۔ القرآن (۳۸38: ۳۰30)
 
۲۵۔ 25۔ عطا اللہ ساجد مولانا، ص ۵۷۲572
 
۲۶۔ 26۔ عبد الرحمن، مولانا، ص ۳۷۔37۔ ۳۸38
 
۲۷۔ 27۔ عطا اللہ ساجد، مولانا، ص ۵۸۷587
 
۲۸۔ 28۔ عطا اللہ ساجد، مولانا، ص ۵۸۷587
 
۲۹۔ 29۔ القرآن، ص :۲۵25
 
۳۰۔ 30۔ مولانا عبد الرحمن، مولانا، ص ۴۱۔41۔ ۴۲42
 
۳۱۔ 31۔ عطا اللہ ساجد، ص ۵۸۶586
 
۳۲۔ 32۔ قاضی عبد الرزاق، ص ۲۱۴214
 
۳۳۔ 33۔ القرآن، النمل: ۱۶16
 
۳۴۔ 34۔ قاضی عبد الرزاق، حافظ قاضی ص ۲۰۹209
 
۳۵۔ 35۔ عبد الرحمن، مولانا، ہدایت کے چراغ۔ سیرت انبیائے کرام، ص ۸۴۔84۔ ۸۵85
 
۳۶۔ 36۔ القرآن، النمل:۲۱۔21۔ ۲۰20
 
۳۷۔ 37۔ عبد الرزاق، حافظ قاضی، تذکرۃ الانبیا، ص ۲۲۸۔228۔ ۲۲۹229
 
۳۸۔ 38۔ غلام نبی بن عنایت اللہ، ص ۳۶۹369
 
۳۹۔ 39۔ القرآن، ص:۳۳۔33۔ ۳۰30
 
۴۰۔ 40۔ القرآن، ص: ۳۵۔35۔ ۳۴34
 
۴۱۔ 41۔ القرآن ص:۳۶36
 
۴۲۔ 42۔ چراغ علی، مولوی، ص ۱۵۶156
 
۴۳۔ 43۔ ایضاً ص ۱۵۴154
 
۴۴۔ 44۔ معارف القرآن جلد دوم ص ۱۱۶116
 
۴۵۔ 45۔ القرآن، الانبیا:۸۲82
 
۴۶۔ 46۔ القرآن، سبا: ۱۳۔13۔ ۱۲12
 
۴۷۔ 47۔ چراغ علی، مولوی، ص ۱۵۲۔152۔ ۱۵۳153
 
۴۸۔ 48۔ قصص القرآن، ص ۱۱۰۔110۔ ۱۱۱111
 
۴۹۔ 49۔ القرآن، البقرہ:۲۴۸248
 
۵۰۔ 50۔ تفہیم القرآن، جلد اول ص ۱۸۹189
 
۵۱۔ 51۔ شاہکار اسلامی انسائیکلوپیڈیا ص۴۰۹ص409
 
۵۲۔ 52۔ معارف القرآن جلد ہفتم‘ ص۔ ۲۷۶276
 
۵۳۔ 53۔ القرآن، النمل: ۱۹19
 
۵۴۔ 54۔ تہامی، ص ۵۳53
 
{{CommonscatCommons category|Solomon}}
{{اقوام وشخصیات قرآن}}