"اردشیر اول" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م BukhariSaeed نے صفحہ اردشیراول کو اردشیر اول کی جانب منتقل کیا: اسپیس
مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 12:
خشیارشا اول کے عہد میں ایرانیوں نے یونانیوں سے شکست کھائی تھی، اس شکست سے جہاں ہونانی جزائر و مقبوضات ایرانی حکومت کے قبضہ سے نکل گئے وہاں ان کی گرفت مصر پر بھی ڈھیلی پڑی ۔ 461 ق م میں لیبیا کے سابق شاہی خاندان کے ایک فرد ایناروس Inarus بن سامتق دوم نے یونانیوں کی مدد سے ایرانی حکومت کے خلاف بغاوت کردی۔ یونانی بیڑوں نے مصر کی حمایت میں کئی مقام پر ایرانیوں سے جنگ کی اور ان کوو شکست دی۔ پپریمہ Papremis کی جنگ میں مصر کا ایرانی حاکم ہخامنش قتل ہوا۔ اس کے بعد باغیوں نے ممفیہ کا محاصرہ کردیا۔ اردشیرنے بغابیش Bagabish کو تین لاکھ فوج کے ساتھ اس فتنہ کو فرو کرنے کے لیے مصر بھیجا۔ اس نے آتے ہی باغیوں کو شکست فاش دی ، ایناروس کو گرفتار یوا اور اپنے ساتھیوں کے ساتھ سوسہ بھجوادیا۔(456 قبل مسیح )
اس کامیابی کے بعد ایرانی فوج نے یونانیوں کے خلاف کاروائی شروع کی۔ اس وقت یونان اتحاد کا شیرازہ بکھر رہا تھا، یونان کی دو بڑی طاقتیں ایتھنزاور اسپارٹاایک دوسرے سے برسر پیکار تھیں۔ ایسی حالت میں یونانیوں نے مصالحت کرلینی مناسب سمجھی ۔ جس کے تحت دونوں حکومتوں کے درمیان 449 قبل مسیح میں صلحی ہوگئی۔ اتحاد دلس کے میمبروں کی آزادی تسلیم کرلی گئی۔ نیز قبرض پر ایران کا قبضہ تسلیم کرلیا گیا۔اردشیرنے 424 ق م میں وفات پائی اور نققش رستم میں دفن ہوا۔ س کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ بہت حسین، باوقار اور رحمدل بادشاہ تھا۔ وہ یہودیوں پر بہت مہربان تھا اور انہیں ہر طرح کی مذہبی آزادی دے رکھی تھی۔ (اسٹوری آف سولائزیشن (تہذیب کی کہانی)، از: ول ڈیوررنٹ؛ لائف فرام دی اینشنٹ پاسٹ، از: جیک فِنگن؛ ایران قدیم، از: حسن پیرینیا ۔۔بحوالہ: قدیم مشرق از ڈاکٹر معین الدین <ref> [[قدیم مشرق ]] |۔ از: [[ڈاکٹرمعین الدین]]۔ جلد دوم۔ صفحہ 53 تا57 </ref>)۔
 
===یہود سے تعلقات===
ارتخشتر یا اردشیر اول کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ بہت حسین، باوقار اور رحمدل بادشاہ تھا۔ مصر کے پہلے آبشار کے نزدیک الفنطین (elephantine)کے مقام پر پیپری (Papyrus) دستیاب ہوئے ہیں جو الفنطین پیپری کے نام سے مشہور ہیں۔ ان میں دوسری باتوں کے علاوہ اردشیر کی مذہبی پالیسیوں کے متعلق بھی کچھ حالات ہیں ان کو دیکھنے سے ایسا لگتا ہے کہ وہ یہودیوں پر بہت مہربان تھا اور انہیں ہر طرح کی مذہبی آزادی دے رکھی تھی۔یہودیوں کی مذہبی روایات سے بھی اس کی تصدیق ہوتی ہے۔ ان کی روایات میں ہے کہ اردشیر ایک یہود[[ نحمیاہ]] کو بہت مانتا تھا۔ وہی اس کا ساقی تھا۔ اس کے عہد میں فلسطین کے چند حکام نے اس حقیقت کو واضح کرتے ہوئے کہ یہود ہمیشہ شورش پسند رہے اور آشوریوں اور کلدانیوں کے زمانے میں برابر بغاوت کرتے رہے۔ بادشاہ سے اس مضمون کا فرمان صادر کروایا کہ یہود کی مذہبی عمارات کی تعمیر روک دی جائے۔ چنانچہ اس کے فرمان پر فوری عمل کیا گیا اور تعمیر روک دی گئی۔ ایسی حالت میں نحمیاہ نے مرکزی حکام کو ملاکر اپنے دعوے کو پیش کیا کہ تعمیر کی اجازت خورس اعظم و دارا اول نے دی تھی۔ اس لیے اُن کے حکم کا لحاظ رکھا جائے۔ چنانچہ اس کی تعمیر کی اجازت دے دی گئی۔ یہودی روایات کے مطابق حضرت عزیر (Ezra) اسی بادشاہ کی حکومت کے ساتویں سال بابل سے یروشلم واپس آئے۔ <ref> [[قدیم مشرق ]] |۔ از: [[ڈاکٹرمعین الدین]]۔ جلد دوم۔ صفحہ 53 تا57 </ref>
 
== حوالہ جات ==