"پلندری" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 51:
=== بارل ===
[[File:Baral Fok.jpg|thumb|بارل قلعہ]]
 
تحریک آزادی کے حوالے سے ایک تاریخی مقام، یہاں ڈوگرہ عہد کا ایک قلعہ بھی موجود ہے۔ یہاں کے بہادر لوگوں نے جنگ آزادی میں پیش بہا قربانیاں دیں ۔
پلندری آزاد کشمير سے بارہ ميل جنوب کی طرف دو بڑے نالوں کی درميان اونچی گھاٹی پر ايک عمر رسيدہ اور خستہ حال عمارت جو قلعہ بارل کے نام سے مشہور ہے، زمانے کی مسلسل بے اعتنائيوں کے باوجود اپنی مثال آپ ہے۔ يہ عمارت تقريبا” پونے دو سو سال قبل تعمیر ہوئ- تیرھویں صدی میں کشمير پر مسلم سلاطين کی حکومت کا آغاز ہوا اور سو برس تک مغل حاکم رہے۔ ستر برس تک پٹھان اور 1819ء سے1845 تک سکھوں کا عمل دخل رہا جبکہ 1846 سے 1947 تک ڈوگرہ خاندان نے اس سر زمين پر اپنے ظلم و تشدد کا بازار گرم رکھا۔ ان حکومتوں کے دوران يہاں کے کئ علاقے آزاد رہے جن میں علاقہ پونچھ (سابق) سر فہرست ہے- آزاد قباءل کی زندگی پرسکون، خوشحال اور فارغ البال تھی- یہ لوگ اپنی طرز زندگی کا ايک عميق اور منفرد فلسفہ رکھتے تھے۔ بيرونی تسلط کو کبھی قبول نہ کرتے تھے۔ جب سری سکھ حکمران نے یہ چاہا کہ پوری رياست پر ان کا قبضہ رہے تو انہوں نے يہاں کے آزاد حکمرانوں کی آزادی سلب کرنے کی غرض سے حملہ کر ديا مگر آزاد قبائل نے متحد ہو کر کفر کو پاک سر زمين سے بھاگنے پر مجبور کر ديا ۔
يہ قلعہ جو بارل کے وسط ميں واقع ہے۔ ايک سو برس تک ڈوگراہ بربريت کا مرکذ رہا ہے۔ اس کے مشرق ميں کوہالہ، مغرب ميں اٹکورہ، شمال ميں پلندری اور جنوب ميں سہنسہ و اقع ہيں۔ اس کا سنگ بنياد 1837 ميں مہاراجہ گلاب سنگھ کے دور ميں رکھا گيا۔ اسکی تعمير ايک آنہ يوميہ کی مزدوری پر عمل ميں آ‎‎ئی۔ اسکے پتھر سہر نالہ (جو ڈيڑھ ميل کی دوری پرہے) سے لاۓ گۓ۔ عوام علاقہ عمارت کی جاۓ وقوعہ سے مذکورہ نالے تک ايک لمبی قطار بناتے اور پتھروں کو حرکت ديتے رہتے۔ يہ سلسلہ صبح تا شام جاری رہتا حتی کہ عمارت ميں صرف ہونے والےتمام پتھر اسی طریقہ سے لاۓ گۓ ۔علاوازيں سرخی اور چونا پنيالی(جو پانچ میل کی دوری پر ہے) سے لايا گيا۔
ڈوگرہ سا مراج نے مقامی آبادی کو ہراساں کرنے اور ہميشہ کے لۓ اپنا مطيع و فرمانبردار بنانے کی غرض اس قدر مظالم ڈھا‎‎ۓ کے قلعہ کی تعمير کی ابتدا ميں ايک مقامی مسلمان کو قلعے کے بڑے دروازے کے سامنے والے ستون کے نيچے زندہ دفن کر ديا گيا تاکہ لوگ آآزادی کی سی انمول نعمت کو ذہن میں نہ لا سکیں
قلعہ کی تعمير ميں جو پتھر استعمال ہوۓ ہیں وہ مختلف سا‎‎‎ئيز کے ہيں جن ميں سب سے چھوٹا پتھر “4”7 اور سب سے بڑا “12”7 کا ہے البتہ ايک پتھر کی لمبا‎‎‎‎ئ 96 انچ ہے يہ پتھر بڑے دروازس سے داخل ہوتے ہو‎‎ۓ با‎‎‌‌ئيں طرف کے دروازے ميں نصب ہے قلعے کی اندرونی ديواريں 22‎ انچ چوڑی ہيں جبکہ باہر کی ديوار 38 انچ چوڑی ہے جس ميں چاروں بندوںکوں اور ہلکی توپوں سے فا‎‎ئير کرنے کی جگہيں موجود ہيں۔
قلعے کی تکميل اس کی تاريخ آغاز سے لے کر مسلسل کام کے باوجود 1839 ميں ہو‎ئی ۔ ڈوگرا سا مراج کے قدم اکھڑتے ہی وہی قتل گاہ خاص و عام بچوں کی ايک تربيت گاہ ميں بدل گئی۔ 1947 سے 1957 تک اس قلعے سے مڈل سکول کا کام ليا گيا۔ کيونکہ سکول کيلۓ کوئی دوسری عمارت موجود نہ تھی۔
يہ عمارت جو آج کل اپنی بے بسی اور کسمپرسی پر سرگر يہ کناں ہے دو ہال اور اٹھارہ کمروں پر مشتمل ہے۔ اس کے وسط ميں ايک کنواں جو سنتے ہيں کہ بہت گہرا ہوا کرتا تھا، اب مٹی اور پتھروں سے بھر چکا ہے۔ عصر حاضر ميں اس قلعے کے اندر جس کی عمارت تين کنال کے رقبے ميں پھيلی ہوئی ہے۔ شہتوت، ہاڑی، جنگلی اناروں کے علاوہ بے شمار قسم کی خود رو جڑی بوٹياں اگی ہو‏ئی ہيں۔ کچھ ديواريں حالت رکوع ميں ہيں اور کچھ گريباں چاک ہيں۔ چھت گويا تھی ہی نہيں۔ اے کاش کوئ اس بے چارگی و کسمپرسی پر چارہ گری کا بيڑا اٹھاتا۔ قلعہ بارل آج بھی منتظر ہے کسی ايسی آنکھ کا جس کے دريچے ماضی کی عظمت رفتہ کی ديوار پر کھلتے ہيں۔
 
=== منگ ===