"21 اگست" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
(ٹیگ: ترمیم از موبائل موبائل ویب ترمیم)
م درستی املا بمطابق فہرست املا پڑتالگر
سطر 40:
 
 
1915ء میں آپؒ حضرت شیخ الہندؒ کے حکم سے کابل جانے کے لیے روانہ ہوئے۔ سات سال کابل میں قیام پذیرپزیر رہے۔ اس دوران آپؒ نے ایک جماعت ’’جنودُ اللہ الربانیہ‘‘ کے نام سے قائم کی، جو ہندوستان، افغانستان کی آزادی کے لیے جدوجہد اور کوشش کرتی رہی۔ 1916ء میں کابل میں ’’عبوری حکومت ِہند‘‘ قائم کی اوراس کے وزیر خارجہ کے طور پر کام کرتے رہے۔ 1922ء میں آپؒ نے ’کانگریس کمیٹی کابل‘ بنائی اور اس کے صدر مقرر ہوئے۔ جس کا الحاق انڈین نیشنل کانگریس نے اپنے اجلاس منعقدہ ’’گیا‘‘ میں منظور کیا۔ 1922ء میں ترکی جانے کے لیے براستہ روس روانہ ہوئے۔ اس دوران ماسکو میں سات ماہ قیام فرمایا۔ 1923ء میں آپؒ انقرہ ترکی پہنچے۔ یہاں چار ماہ قیام فرمایا اور عصمت پاشا، رؤف بِک وغیرہ انقلابی رہنماؤں، نیزشیخ عبد العزیز جاویش سے ملاقاتیں ہوئیں۔ استنبول میں تین سال قیام فرماکر یورپ کی تاریخ کا بڑی گہری نظر سے مطالعہ فرمایا۔ 1924ء کو ہندوستان کے مستقبل کے سیاسی اور معاشی اُمور کو حل کرنے کے لیے ’’آزاد برصغیر کا دستور ی خاکہ‘‘ جاری فرمایا۔ استنبول سے اٹلی اور سوئٹزرلینڈ تشریف لے گئے اور کچھ عرصہ جدید اٹلی اور یورپ کی سیاسیات کا مطالعہ کیا۔ 1926ء میں مکۃ المکرمہ تشریف لائے اور دینی تعلیمات کی روشنی میں قومی جمہوری دور کے تقاضوں کے مطابق ایک پروگرام ترتیب دیا۔
 
 
انڈین نیشنل کانگریس، جمعیت علمائے ہند، مسلم لیگ اور دیگر قومی جماعتوں نے حضرت سندھیؒ کی ہندوستان واپسی کے لیے کوششیں شروع کیں۔ 1939ء کو آپؒ کراچی کی بندرگاہ پر اُترے۔ حکومت ِسندھ کے وزیر اعظم اللہ بخش سومرو نے عمائدین کے ساتھ آپؒ کا استقبال کیا اور کراچی میونسپل ہال میں آپ کے اعزاز میں استقبالیہ دیا۔ جہاں آپؒ نے ایک اہم اور معرکۃمعرکہ الآراآرا خطاب فرمایا۔ آپؒ کی واپسی پر جمعیت علمائے صوبہ بنگال کے اجتماع منعقدہ کلکتہ کا آپ کو صدر مقرر کیا گیا۔ آپ ؒ نے شاہ ولی اللہؒ کے فلسفے کو سمجھانے کے لیے دہلی، لاہور، کراچی، پیرجھنڈا اور دین پور میں بیت الحکمت کے مراکز کھولی، جہاں نہایت سرگرمی سے نوجوانوں کی تربیت فرماتے رہے۔ 1944ء میں بیماری کے باوجود حضرت سندھیؒ کراچی سے حیدر آباد، میرپور خاص اور نواب شاہ ہوتے ہوئے گوٹھ پیرجھنڈا مدرسہ دار الرشاد میں قیام فرما ہوئے۔ آپؒ آخری دم تک پروفیسرمحمدسرور، مولانا غلام مصطفی قاسمی، مولانا بشیر احمد لدھیانوی اور اپنے دیگر نام وَر شاگردوں کو تاریخ، سیاست اور قرآنی علوم و معارف سے آراستہ کرتے رہے۔