"کسریٰ کی ہوائیں" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 17:
}}
کسریٰ کی ہوائیں سیدنورعالم گیلانی کے سفر ِایران کی رودادہے۔کتاب کانام حسان العصرجناب مظفروارثی کی دین ہے۔اس سفرنامے کوصاحبان ِذوق کی طرف سے بے حدپزیرائی حاصل ہوئی۔
یہ کتاب کوئی سفرنامہ نہیں ہے۔
شاید میری اس بات پر آپ کوبیک وقت حیرانگی اور افسوس ہوکہ میں کتنی دیدہ دلیری سے چاند پر انگلی اٹھا کر علی الاعلان یہ کہہ رہا ہوں کہ یہ چاند نہیں ہے۔لیکن میں اپنی بات پھر سے دہرانے کے لئے تیار ہوں کہ یہ کتاب سفرنامہ نہیں ہے۔اب آپ میری دماغی حالت پر شبہ کرنے سے پہلے میری بات کو مکمل ہولینے دیجئے۔میں یہ کہنا چاہتا تھا کہ یہ کتاب” سفر نامہ“ نہیں بلکہ” مسافرنامہ“ ہے۔یہ ایک رہ نوردِ شوق کا ”ماجرائے حیرت“ ہے ۔،ایک ایسی”حکایت ِہستی“ہے جو اپنے اندر بے پناہ زندگیاں سموئے ہوئے ہے۔یہ وہ ”چراغ ِجاں “ہے جومصنف نے محرابِ نثرمیں روشن کیاہے۔یہ کتاب اوراق کانہیں بلکہ” جگرِلخت لخت“ کا ”مجموعہ “ہے ۔یہ ایک ایسے مسافر کی رودادِ سفر ہے سیاحت جس کا مشغلہ نہیں تھا،نہ ہی سفرنامہ لکھنا اسکامقصد حیا ت ٹھہراتھا،اس لئے میں نے اسکو سفرنامہ نہیں بلکہ ”چیزے دِگر“ قراردیاہے۔
انقلاب ِچین سے پہلے کے فلسفی لِن یوتانگ نے لکھاتھاکہ تین قسم کے لوگ اچھے شہری ہوسکتے ہیں۔کسان ،شاعراورآوارہ گرد۔یہ تینوں خوبیاں مصنف میں پائی جاتی ہیں۔بنیادی طور پر مصنف کا تعلق کاشت کاری سے ہے ،اس لئے زمین ِ سخن میں تفکرات کے بیج بوکر اپنے خونِ دل سے سیراب کرنے اور فصلیں اور شادابیاں اگانے کا فن جانتے ہیں۔ تخلیق ان کی سرشت میں ہے ،اس معاملے میں وہ ایک خدادادصلاحیت کے مالک ہیں۔اگروہ اس سے فائدہ نہ اٹھاتے توکفران ِنعمت کے مرتکب ہوتے،ناشکری کرتے۔خداسب کو تومصور،شاعر،موسیقاریاکرکٹرنہیں بناتا،یہ سب کچھ اگرسیکھنے سے آجاتاتوآج ہرکوئی فن کارہوتا۔اربوں کی آبادی والی دنیامیں چندلاکھ ہی ایسے ہوں گے جنکوقدرت نے پیدائشی طورپہ کسی غیرمعمولی صلاحیت سے نوازاہو۔ایک لاکھ میں شایدکوئی ایک۔۔۔!
اس مسافر نامے میں داستان طرازی بھی ہے اورمنظرکشی بھی ۔آپ بیتی کی آپ بیتی ہے اور جگ بیتی کی جگ بیتی ہے ،زبان وبیان میں ان کی علاقائی زبان اورمروجہ اردوکابڑاحسین امتزاج ہے،پروفیسرظہیر احمد صدیقی لکھتے ہیں کہ سفر نامہ لکھ دیناتو کوئی مشکل کام نہیں ۔ہرپڑھالکھاآدمی اپنے سفر کے حالات قلمبند کردے تو سفرنامہ لکھاگیا۔ صدیقی صاحب نے اس پڑھے لکھے انسان کے لئے ادب دوست یا ادب دان ہونے کی شرط عائدنہیں کی لہذا مذکورہ بالا خواندہ شخص جو سفر نامہ تحریر کرے گاوہ ” ڈائری کے پریشان اوراق“ سے کچھ زیادہ کہلانے کا حقدار نہیں ہوگا۔
رہ نوردِ شوق کے یہاں ایسا معاملہ نہیں ہے۔ وہ بذاتِ خود ایک ادب دوست انسان ہیں،ان کازندگی اورادب کامطالعہ بہت وسیع ہے، مطالعے سے تخلیق کا ان کایہ سفرکئی برسوں پر محیط ہے۔یہ مسافر نامہ تو صرف ایک پڑاؤ ہے ورنہ یہ سفر اس سے پہلے بھی جاری وساری تھا۔کبھی حرفِ شعر کی صورت تو کبھی نثرکے رنگ میں۔اس سے پیشتر ان کی ایک تصنیف” تذکرہء سلطان العصر“منظرعام پر آچکی ہے ۔اگرچہ یہ سفر اس تصنیف کی اشاعت سے پہلے کیا گیااور اس کا مسودہ بھی مذکورہ بالا کتاب سے پہلے تحریر کیا جاچکا تھالیکن تذکرہء سلطان العصر پہلے شائع ہوگئی۔اچھا ہی ہوا ورنہ کہا جاتا کہ ۔ ع جب کچھ نہ لکھ سکے تو سفرنامہ لکھ دیا۔
موجودعہد سائنس ،ٹیکنالوجی، ملٹی میڈیااورانٹرنیٹ کادورہے،زندگی کاانداز میکانکی ساہوچکاہے،تغیرات کی رفتار بہت تیز ہوتی چلی جارہی ہے،کتاب لکھنا تو دور پڑھنا ہی کارے دارد ہوکر رہ گیا ہے۔ایسے حبس زدہ ماحول میں زیرِ نظرتصنیف اپنے نام کی طرح روح افزاء اور راحت ِ جاں معلوم ہوتی ہے ۔ع
للہ الحمد کہ اس دورِ زمستاں میں بھی جوش
نفسِ گرم و دلِ شعلہ فشاں باقی ہے
یہ مسافرنامہ وہ نقطہ ہے جہاں ماضی وحال کی لکیریں ایک دوسرے سے آن ملتی ہیں اورگئی صدیاں اپنی پوری حشرسامانیوں کے ساتھ اس ایک نقطے میں سمٹ جاتی ہیں،مسافر ِشوق نے انہی صدیوں کے اندر غوطہ لگاکرساحلوں پر موتی بکھیرے ہیں اور جو”تھا“،جو”ہے“ اور جو” ہوناچاہئے“ کے عصری شعورکوپوری صداقت سے منکشف کیاہے۔ماضی وحال کا یہ توازن ہی اس مسافرنامے کاخاصہ ہے،یہاں مقامات ِدیدہ پر تاثرات بھی ہیں، ذاتی آراء بھی ،یادیں بھی اورپسندناپسندبھی ،تاریخ ،تصوف ،ادب سیاست اور دین ودانش کے نقش ہائے رنگ رنگ بھی،یہ مسافر نامہ سوز ِدروں سے عبارت ہے ۔ یہ ایمان وایقان اورعقیدہ وعقیدت کی آگہی کا سفر ہے،وہ عقیدت جوہمارے ایمان اور عشق کا پہلا زینہ ہے ۔میرے مشفقی ومربی استادسخن حضرت مظفر وارثی دامت برکاتہم نے کہاتھا۔ع
تاریخ ِ ارتقاء گئی صدیوں کو یاد تھی
فرد ا کو لے کے شہر پرانے چلاگیا
یہ رہ نوردِشوق بھی فردا کی انگلی تھامے پرانے شہروں کی سیر کو نکلا ہے ۔جی چاہے تو جذب وشوق کے اس کارواں کا حصہ بن جائیے ۔