"ماتریدی" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
اضافہ سانچہ/سانچہ جات
م "ماتریدیہ"ایک بدعتی اور اہل کلام سے تعلق رکھنے والا فرقہ ہے، جو کہ ابو منصور ماتریدی کی طرف منسوب ہے، انہوں نے اسلامی عقائد اور دینی حقائق ثاب
(ٹیگ: حذف حوالہ جات بصری خانہ ترمیم)
سطر 1:
"ماتریدیہ"ایک بدعتی اور اہل کلام سے تعلق رکھنے والا فرقہ ہے، جو کہ ابو منصور ماتریدی کی طرف منسوب ہے، انہوں نے اسلامی عقائد اور دینی حقائق ثابت کرنے کیلئے ابتدائی طور پر معتزلی اور جہمیوں کے مقابلے میں عقلی اور کلامی دلائل پر زیادہ انحصار کیا۔
{{سنی اسلام|}}
'''ماتریدی'''عقائد میں احناف امام الہدی ابو منصور محمد ماتریدی حنفی کے متبع ہیں۔
== ماتریدیۃ کے کلامی عقائد ==
مسلک ماتریدیہ سرزمین ماوراء النہرمیں وجود میں آیا ہے
ماتریدیہ کے بانی ابومنصور ماتریدی ہیں جن کی پیدائش [[238ھ]] اور وفات [[333ھ]] میں ہوئی ابو منصور ذکاوت اور علم جدال میں کافی مہارت رکھتے تھے انہون نے اپنے [[مسلک]] کی تاسیس میں بزرگ اساتذہ سے استفادہ کیا ہے ان مین محمد بن مقاتل رازی، ابو نصر عیاضی، ابوبکر احمد بن اسحاق الجوزجانی اور نصیر جن یحی بلخی قابل ذکر ہیں ۔
ابو منصور نے بزرگ اساتذہ سے استفادہ کرنے کے علاوہ بہت سے شاگردوں کی تربیت کی ہے ان میں ابوالقاسم حکیم سمرقندی، علی رستغفنی، ابو محمد عبدالکریم بردوی، اور احمد عیاضی قابل ذکر ہیں ۔
ابو منصور نے تاویلات قرآن کے بارے میں ایک تاویلی تفسیر لکھی ہے اور علم کلام میں کتاب التوحید تحریر کی ہے جس میں مختلف فرقوں کے کلامی آراء کا ذکر کیا ہے ان کی دو اور کتابیں ہیں جس کے نام شرح فقہ الاکبر اور رسالۃ فی العقیدہ ہے ان کی فقہی کتابوں میں ماخذالشرایع والجدل قابل ذکر ہیں ۔
== ماتریدیہ کی مشہور شخصیتیں ==
{{عقیدہ|}}
1. ابو یسر بزدوی
2. ابولمعین نسفی
3. نجم الدین نسفی
4. نورالدین صابونی
ماتریدیہ کے نزدیک عقل و سمع دین و شریعت کے سمجھنے کے دواہم منابع ہیں اور ان کا عقیدہ ہےکہ خدا کی معرفت حصول نقل سے پہلے عقل سے ثابت ہوتی ہے اورہر انسان پر لازم ہے کہ وہ خدا کی معرفت عقل کے ذریعے حاصل کرے اسی بناپر حسن و قبح عقلی پر بھی یقین رکھتے ہیں، ان کے دیگر نظریات بطوراختصار حسب ذیل ہیں ۔
ماتریدیہ اور ابومنصور کا عقیدہ ہےکہ نصوص کو ان کے حقیقی معنی پر حمل کرنے سے تجسم وتشبیہ لازم آتی ہے بنابریں قرآن و حدیث میں مجاز کا استعمال ہواہے لھذا تاویل و تفویض ایسے اصول ہیں جن پر ماتریدیہ کے اصول عقائد استوار ہیں
 
ماتریدیہ متعدد مراحل سے گزرے ہیں، اور انہیں اس نام سے اس فرقے کے مؤسس کی وفات کے بعد ہی پہچانا گیا، جیسے اشعری ابو الحسن الاشعری کی وفات کے بعد ہی مشہور ہوئے، اس فرقے کے تمام مراحل کو چار بنیادی مرحلوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے:
ماتریدیہ کی نظر میں توحید کی کئي قسمیں ہیں ۔
 
1. توحید درصفات یعنی خدا کی کس صفت میں اس کاکوئي نظیر نہیں ہے ۔
تاسیسی مرحلہ:
2.توحید در ذات یعنی ذات خداوندی میں کثرت نہیں ہے ۔
 
3. توحید در افعال یعنی نفی خدا اپنے افعال کی انجام دہی میں غیر خدا سے تاثیر قبول نہیں کرتا ہے ۔
اس مرحلہ میں معتزلہ کے ساتھ انکے بہت ہی زیادہ مناظرے ہوئے، یہ مرحلہ ابو منصور ماتریدی پر قائم تھا، اسکا مکمل نام محمد بن محمد بن محمود ماتریدی سمرقندی، "ماتریدی"یہ نسبت جائے پیدائش کی طرف ہے، جو کہ ما وراء النہر کے علاقے میں سمرقند کے قریب ہی ایک محلے کا نام ہے۔
4. توحید ربوبی یعنی انسان کے لۓ خدا کی معرفت فطری معرفت سے مکمل نہیں ہوتی اور اسے صرف عقل سے ہی مکمل کیا جاسکتا ہے ۔
 
نبوت
انہیں عقل کو مقدم کرنے والوں کا سُرخیل سمجھا جاتا ہے، اور شرعی نصوص اور آثار و روایات سے انکا بہت ہی کم لگاؤ تھا، جیسے کہ اکثر متکلمین اور اہل اصول کا حال رہا ہے۔
اثبات نبوت اور عوام کا اسے قبول کرنا نبی کی طرف سے [[معجزہ]] پیش کئے جانے پراور اس کی طرف سے چلینج قبول کرنے پر منحصرہے ماتریدیہ کے نزدیک اولیاء کی [[کرامت|کرامات]] بھی یہی حکم رکھتی ہی‍ں ۔
 
قابل ذکر ہے کہ [[اہل سنت]] کے کلامی فرقوں میں ماتریدیہ کا اس وقت مذہب اشعری کے بعد اہل سنت کا دوسرا کلامی مکتب ہے اور اہل سنت کی ایک بڑی تعداد بالخصوص مذہب حنفی کے پیروکلام ماتریدی کی اتباع کرتے ہیں ۔<ref>http://sadeqin.com/ur/article.php?mod=4&id=1040</ref>
ابو منصور ماتریدی متعدد مسائل میں جہمی عقائد سے متاثر تھا، جن میں سے اہم ترین یہ ہیں: صفات خبریہ کی شرعی نصوص میں تاویل ، مرجئہ کی بدعات اور اقوال کا بھی قائل تھا۔
== مزید دیکھیے ==
 
ابو منصور، ابن کلاب (متوفی 240 ہجری) سے بھی متاثر تھا، اسی ابن کلاب نے اللہ تعالی کے بارے میں "کلام نفسی" کا عقیدہ ایجاد کیا تھا، جس سے ابو منصور بھی متاثر تھا۔
 
تکوینی مرحلہ:
 
یہ دور ماتریدی کے شاگردوں اور بعد میں اس سے متاثر ہونے والے لوگوں کا تھا، اس دور میں ماتریدیہ مستقل ایک کلامی فرقہ بن چکا تھا؛ ابتدائی طور پر سمرقند میں ظہور پذیر ہوا، اور اپنے شیخ اور امام کے افکار نشر کرنے شروع کئے، اور انکا دفاع بھی کیا، اس کے لئے انہوں نے تصانیف بھی لکھیں، یہ لوگ فروع میں امام ابو حنیفہ کے مقلد تھے، اسی لئے ماتریدی عقائد انہی علاقوں میں زیادہ منتشر ہوئے۔
 
اس مرحلے کے قابل ذکر افراد میں ، ابو القاسم اسحاق بن محمد بن اسماعیل الحکیم سمرقندی، اور ابو محمد عبد الكريم بن موسى بن عيسى بزدوی ہیں۔
 
ماتریدی عقائد کیلئے اصول و قواعد اور تالیفات کا مرحلہ:
 
اس مرحلے میں تالیف کثرت سے ہوئی ، اور ماتریدی عقائد کیلئے دلائل جمع کئے گئے، اس لئے مذہب کی بنیاد کیلئے گذشتہ تمام مراحل سے زیادہ اہم مرحلہ یہی ہے۔
 
اس مرحلے کے قابل ذکر علماء میں :ابو معين نسفی، اورنجم الدين عمر نسفی شامل ہیں۔
 
انتشار اور مذہبی پھیلاؤ کا مرحلہ:
 
ماتریدیہ کیلئے انتہائی اہم ترین مرحلہ ہے، کہ اس مرحلے میں ماتریدی مذہب خوب پھیلا حتیٰ کہ اس سے زیادہ پھیلاؤ کبھی نہیں ہوا تھا؛ اسکی وجہ یہ تھی کہ انہوں نے دولہ عثمانیہ کی خوب تائید کی ، اسی وجہ سے ماتریدی مذہب وہاں تک پھیلا جہاں تک دولہ عثمانیہ پھیلی، چنانچہ یہ مذہب زمین کے مشرق، مغرب، عرب ممالک ، غیر عرب ممالک، ہندوستان، ترکی، فارس، اور روم تک پھیل گیا۔
 
اس مرحلے میں متعدد کبار محققین نے اپنا نام پیدا کیا، جیسے: کمال بن ہمام۔
 
ماتریدی فرقہ کے پیروکار ہندوستان اور اسکے آس پاس کے مشرقی ممالک چین، بنگلہ دیش، پاکستان، اور افغانستان میں بہت زیادہ ہیں، اسی طرح اس فرقے کا پھیلاؤ ترکی، روم، فارس، اور ما وراء النہر کے علاقوں میں خوب ہوا، ابھی تک ان علاقوں میں اکثریت انہی کی ہے۔
 
دوسری بات:
 
ماتریدی اور اہل السنۃ کے مابین اختلافات کی شکلیں مندرجہ ذیل ہیں:
 
ماتریدیہ کے ہاں اصولِ دین(عقائد) کی ماخذ کے اعتبار سے دو قسمیں ہیں:
 
1- الٰہیات (عقلیات): یہ وہ مسائل ہیں جن کو ثابت کرنے کیلئے عقل بنیاد ی ماخذ ہے، اور نصوص شرعیہ عقل کے تابع ہیں، اس زمرے میں توحید کے تمام مسائل اور صفاتِ الٰہیہ شامل ہیں۔
 
2- شرعیات (سمعیات): یہ وہ مسائل ہیں جن کے امکان کے بارے میں عقل کے ذریعے جزمی فیصلہ کیا جاسکتا ہے، لیکن اس کو ثابت یا رد کرنے کرنے کیلئے عقل کو کوئی چارہ نہیں ؛ جیسے: نبوّات، عذابِ قبر، احوالِ آخرت، یاد رہے! کہ کچھ ماتریدی نبوّات کوبھی عقلیات میں شمار کرتے ہیں۔
 
مندرجہ بالابیان میں بالکل واضح منہج اہل السنۃ والجماعۃ کی مخالفت پائی جاتی ہے؛ اس لئے کہ اہل السنۃ کے ہاں قرآن و سنت اور اجماعِ صحابہ ہی مصادر اور مآخذ ہیں، اور دین کے تمام مسائل انہی مآخذ سے لئے جاتے ہیں، کسی مسئلہ کیلئے کوئی خاص ماخذ نہیں ہے۔
 
پھر انہوں نے اصولِ دین کو عقلیات، اور سمعیات دو حصوں میں تقسیم کرتے ہوئے ایک نئی بدعت ایجاد کی، یہ تقسیم ایک بے بنیاد فکر پر ہے اور وہ ہے کہ عقائد ایسے اصولوں پر مبنی ہیں جنکا عقل سے ادراک ناممکن ہے، اور نہ ہی نصوص بذاتہٖ خود ثابت کر سکتی ہیں، بلکہ عقلی دلیل سے ثابت ہونے والے امور کیلئے تائید کا کام کرتی ہیں۔
 
- ماتریدیہ نے بھی دیگر کلامی فرقوں معتزلہ اور اشاعرہ کی طرح معرفتِ الٰہیہ کتاب وسنت سے پہلے عقل کے ذریعے حاصل کرنے کے متعلق گفتگو کی اور اسے واجب کہہ دیا، بلکہ اسے مکلف کیلئے واجب اولی بھی قرار دیا ، اس سے بڑھ کر یہاں تک کہہ دیا کہ اگر اس نے یہ نہ کیا تو اسے سزا بھی ہوگی اور اسکا کوئی بھی عذر قبول نہیں کیا جائےگا، چاہے انبیاء اور رسل کی بعثت سے پہلے ہی کیوں نہ ہو۔
 
یہ بات کہہ کر انہوں نے معتزلہ کی موافقت کی ،حالانکہ یہ بات واضح طور پر باطل ہے، اور کتاب و سنت کے دلائل سے متصادم بھی ہے، کیونکہ کتاب وسنت ہمیں بتلاتے ہیں کہ ثواب اور عذاب شریعت کے بعد ہی ہوتا ہے، جیسے کہ فرمانِ باری تعالی ہے:
 
(وما كنا معذبين حتى نبعث رسولاً)
 
ترجمہ اور ہم اس وقت تک عذاب نہیں دیا کرتے جب تک اپنا رسول نہ بھیج دیں۔ الاسراء/15
 
اس لئے بندوں پر سب سے پہلے واجب یہ ہے کہ وہ اللہ تعالی کو ایک مانیں، اور اسکے دین میں داخل ہوجائیں، نا کہ اس معرفت کے پیچھے بھاگتے پھریں جو اللہ تعالی نے فطرتی طور پر ساری مخلوقات کی گھُٹّی میں ڈال دی ہے۔
 
- جبکہ ماتریدیہ کے ہاں توحید کا مفہوم یہ ہے کہ : اللہ تعالی کو ذات میں ایک سمجھا جائے، اسکا کوئی ہمسر نہیں، اور نہ ہی اسکا کوئی حصہ دار ہے، وہ اپنی صفات میں یکتا ہے، اسکا کوئی بھی شبیہ نہیں ہے، اور اپنے افعال میں اکیلا ہے، مخلوقات ایجاد کرنے میں اس کا کوئی بھی شراکت دار نہیں ہے۔
 
اسی لئے انہوں نے توحید کی اس قسم کو ثابت کرنے کیلئے ایڑھی چوٹی کا زور لگایا، کیونکہ ان کے ہاں "الٰہ" کا مطلب: وہ ذات ہے جو پیدا کرنے کی طاقت رکھتی ہو، اس نظریے کو مضبوط کرنے کیلئے انہوں نے معتزلہ اور جہمیہ کی ایجاد کردہ عقلی اور فلسفی قیاس آرائیوں کو استعمال کیا، یہ ایسے دلائل ہیں جن کی سلف ، ائمہ کرام، اور علمِ کلام و فلسفہ کے سُرخیل علماء نے تردید کی ، اور یہ روزِ روشن کی طرح عیاں کردیا کہ جو انداز قرآن مجید نے بیان کیا ہے وہی صحیح ترین ہے۔
 
- ماتریدی اللہ تعالی کی صرف آٹھ صفات کے قائل ہیں، اگرچہ ان آٹھ کی تفصیل کے بارے میں بھی انکا آپس میں اختلاف ہے، وہ آٹھ صفات یہ ہیں: حیات، قدرت، علم، ارادہ، سماعت، بصارت، کلام اور تخلیق۔
 
اسکے علاوہ جتنی بھی صفاتِ خبریہ صفاتِ ذاتیہ یا فعلیہ ہیں جن پر قرآن و سنت کے دلائل موجود ہیں؛عقل کے دائرہ کار میں داخل نہ ہونے کی وجہ سے ان سب کا انہوں نے انکار کردیا، اور ان کے سب دلائل میں من مانی تاویلیں کر ڈالیں۔
 
جبکہ اہل السنۃ والجماعۃ اسماء و صفات کے بارے میں یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ : تمام کی تمام صفات توقیفی ہیں، جن صفات کے بارے میں نصوص موجود ہیں ان کو بلا تشبیہ ثابت مانتے ہوئے ایمان لاتے ہیں، اور اللہ تعالی کو تمام صفاتِ ذمیمہ یا ایسی صفات جن سے مخلوق کے ساتھ مماثلت ہو ان تمام صفات سے پاک جانتے ہیں، اور تمام اسمائے حسنیٰ اور صفات کو بغیر تعطیل کے مانتے ہیں، جبکہ کیفیت اللہ کے سپرد کرتے ہیں، اور ان صفات کا معنی و مفہوم شانِ الٰہی کے مطابق بیان کرتے ہیں، اس لئے کہ انکی دلیل فرمانِ الہی ہے:
 
(ليس كمثله شيء وهو السميع البصير)
 
ترجمہ: کوئی چیز اس کے مشابہ نہیں اور وہ سب کچھ سننے والا اور دیکھنے والا ہے۔ الشوری/ 11
 
- ماتریدیہ کہتے ہیں کہ اللہ کی کلام حقیقت تو ہے لیکن وہ کلامِ نفسی ہے جو اللہ تعالی کی ذات کے ساتھ قائم ہے، اللہ کی کلام سُنی نہیں جاسکتی، اورجو آواز سنائی دیتی ہے وہ اصل میں قدیم نفسی صفت کی تعبیر ہوتی ہے، اسی لئے انکے ہاں لوگوں کے ہاتھوں میں لکھا ہوا قرآن مجید مخلوق ہوسکتا ہے، اور اس قول کی وجہ یہ لوگ معتزلہ سے جاملے، اور اجماع ائمہ کی مخالفت کر ڈالی، حالانکہ ائمہ کرام نے اس عقیدے کو غلط قرار دیا بلکہ قرآن مجید کو مخلوق کہنے والے کو کافر بھی کہا ہے۔
 
- ماتریدیہ ایمان کے بارے میں کہتے ہیں کہ : ایمان صرف دل سے تصدیق کا نام ہے، لیکن بعض لوگوں نے زبان سے اقرار کو بھی ایمان کی تعریف میں شامل کیاہے، لیکن ایمان میں کمی زیادتی کا سب ماتریدی انکار کرتے ہیں، اور ماتریدی ایمان کے متعلق استثناء کی حرمت کے قائل ہیں، انکے ہاں ایمان اور اسلام دونوں ہی مترادف ہیں، ان میں کوئی فرق نہیں، اوراس قول کی وجہ سے وہ مرجئہ سے جا ملے اور اہل السنۃ والجماعۃ کی مخالفت کی اس لئے اہل السنۃ کے ہاں ایمان یہ ہے کہ:
 
دل سے تصدیق ، زبان سے اقرار، اور اعضاء سے عمل کا نام ایمان ہے جوکہ نیکی کرنے سے بڑھتا ہےاور نافرمانی کرنے سے کم ہوتا ہے۔
 
- ماتریدی آخرت میں اللہ کے دیدار کو تو مانتے ہیں لیکن کس جہت میں اللہ کا دیدار ہوگا اسکا انکارکرتے ہیں، حالانکہ یہ دونوں باتیں آپس میں ٹکراتی ہیں، کہ شروع میں تو ایک چیز کو ثابت کیا ہے لیکن بعد میں اسکی حقیقت کا انکار کردیا۔
 
اس بارے میں مزیدمعلومات کیلئے، دیکھیں:
 
- "الموسوعة الميسرة في الأديان والمذاهب والأحزاب المعاصرة" (1/ 95-106(
 
- "الماتريدية" ، ماسٹر لیول کا مقالہ ہے، از باحث: احمد بن عوض الله لهيبی حربی۔
 
- "الماتريدية وموقفهم من توحيد الأسماء والصفات" ، یہ بھی ماسٹر لیول کا مقالہ ہے ، از باحث: شمس الدین افغانی سلفی
 
- "منهج الماتريدية في العقيدة" از ڈاکٹر محمد بن عبد الرحمن خميس۔
 
- "الاستقامة" از شيخ الاسلام ابن تيميہ
 
- "مجموع فتاوى ورسائل العثيمين" (3/ 307-308{{سنی اسلام|}}
 
== مزید دیکھیے ==
* [[اشعری]]
* [[معتزلہ]]