"غزوہ تبوک" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
(ٹیگ: حذف حوالہ جات بصری خانہ ترمیم)
استرجع 1 ترمیم از 119.154.46.233 (تبادلۂ خیال): پرانا مواد ہٹا کر اپنا شامل کیا۔ (پلک)
سطر 1:
{{حرب
غزوہ ٔ فتح مکہ ، حق وباطل کے درمیان ایک فیصلہ کن معرکہ تھا۔ اس معرکے کے بعد اہلِ عرب کے نزدیک رسول اللہﷺ کی رسالت میں کوئی شک باقی نہیں رہ گیا تھا۔ اسی لیے حالات کی رفتار یکسر بدل گئی۔ اور لوگ اللہ کے دین میں فوج در فوج داخل ہوگئے۔ اس کا کچھ اندازہ ان تفصیلات سے لگ سکے گا جنہیں ہم وفود کے باب میں پیش کریں گے۔ اور کچھ اندازہ اس تعداد سے بھی لگایا جاسکتا ہے جو حجۃ الوداع میں حاضر ہوئی تھی - بہرحال اب اندرونی مشکلات کا تقریباً خاتمہ ہوچکا تھا اور مسلمان شریعتِ الٰہی کی تعلیم عام کرنے اور اسلام کی دعوت پھیلانے کے لیے یکسو ہوگئے تھے۔
|محاربہ= غزوہ تبوک
|سلسلۂ_محارب=
|تصویر=
|بیان=
|تاریخ= رجب 9ھ (اکتوبر 630ء)
|مقام= [[تبوک]]
|خطۂ_اراضی=
|نتیجہ= مسلمانوں کی فتح
|متحارب1= مسلمانان{{زیر}} مدینہ
|متحارب2=[[غساسنہ]] <br /> [[بازنطینی سلطنت|بازنطینی روم]]
|متحارب3=
|قائد1= حضرت '''[[محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم|محمد]]''' {{درود}}
|قائد2=
|قائد3=
|قوت1=30,000
|قوت2= 40,000؟
|قوت3=
|نقصانات1=
|نقصانات2=
|نقصانات3=
|تذکرہ=
}}
== وجہ تسمیہ ==
''تبوک'' مدینہ اور شام کے درمیان ایک مقام کا نام ہے جو مدینہ سے چودہ منزل دور ہے۔ بعض مؤرخین کا قول ہے کہ ''تبوک'' ایک قلعہ کا نام ہے اور بعض کا قول ہے کہ ''تبوک'' ایک چشمہ کا نام ہے ۔ ممکن ہے یہ سب باتیں موجود ہوں۔
== جیش عسرت ==
یہ غزوہ سخت قحط کے دنوں میں ہوا۔ طویل سفر، ہواگرم، سواری کم، کھانے پینے کی تکلیف، لشکر کی تعداد بہت زیادہ، اس لیے اس غزوہ میں مسلمانوں کو بڑی تنگی اور تنگ دستی کا سامنا کرنا پڑا۔ یہی وجہ ہے کہ اس غزوہ کو''جیش العسرۃ ''(تنگ دستی کا لشکر) بھی کہتے ہیں
==غزوہ فاضحہ ==
چونکہ منافقوں کواس غزوہ میں بڑی شرمندگی اورشرمساری اٹھانی پڑی تھی۔ اس وجہ سے اس کا ایک نام ''غزوہ فاضحہ''(رسوا کرنے والا غزوہ) بھی ہے ۔
== روانگی ==
اس پر تمام مؤرخین کا اتفاق ہے کہ اس غزوہ کے لئے حضور ﷺ رجب 9 ھ مطابق 630ء جمعرات کے دن روانہ ہوئے۔ رسول پاک تیس ہزار جان نثار غلاموں کے ساتھ مدینے سے روانہ ہوئے۔ <ref>زرقانی ج 3ص 63</ref>
== غزوۂ تبوک کا سبب ==
عرب کا غسانی خاندان جو قیصر روم کے زیر اثر ملک شام پر حکومت کرتا تھا چونکہ وہ عیسائی تھا اس لیے قیصر روم نے اس کو اپنا آلہ کار بنا کر مدینہ پر فوج کشی کا عزم کرلیا۔ چنانچہ ملک شام کے جو سوداگر روغن زیتون بیچنے مدینہ آیا کرتے تھے۔ انہوں نے خبر دی کہ قیصر روم کی حکومت نے ملک ِشام میں بہت بڑی فوج جمع کردی ہے۔ اور اس فوج میں رومیوں کے علاوہ قبائل لخم و جذام اور غسان کے تمام عرب بھی شامل ہیں۔ ان خبروں کا تمام عرب میں ہر طرف چرچا تھا اور رومیوں کی اسلام دشمنی کوئی ڈھکی چھپی چیز نہیں تھی اس لیے ان خبروں کو غلط سمجھ کر نظر انداز کردینے کی بھی کوئی و جہ نہیں تھی۔ اس لیے حضور اکرم ﷺ نے بھی فوج کی تیاری کا حکم دے دیا۔
== تبوک کو روانگی ==
حضور ﷺ تیس ہزار کا لشکر ساتھ لے کر تبوک کے لئے روانہ ہوئے اور مدینہ کا نظم و نسق چلانے کے لئے علی المرتضی کو اپنا خلیفہ مقرر فرمایا
== تبوک کا چشمہ ==
حضور ﷺ تبوک کے قریب میں پہنچے تو ارشاد فرمایا کہ ان شاء اﷲ تعالیٰ کل تم لوگ تبوک کے چشمہ پر پہنچو گے اور سورج بلند ہونے کے بعد پہنچو گے لیکن کوئی شخص وہاں پہنچے تو پانی کو ہاتھ نہ لگائے رسول اﷲ ﷺ جب وہاں پہنچے تو جوتے کے تسمے کے برابر اس میں ایک پانی کی دھار بہہ رہی تھی۔ آپ ﷺ نے اس میں سے تھوڑا سا پانی منگا کر ہاتھ منہ دھویا اور اس پانی میں کلی فرمائی۔ پھر حکم دیا کہ اس پانی کو چشمہ میں انڈیل دو۔ لوگوں نے جب اس پانی کو چشمہ میں ڈالا تو چشمہ سے زوردار پانی کی موٹی دھار بہنے لگی اور تیس ہزار کا لشکر اور تمام جانور اس چشمہ کے پانی سے سیراب ہو گئے۔<ref>زرقانی ج3 ص76</ref>
 
== غزوہرومی کالشکر سبب:ڈر گیا ==
حضورِ اقدس ﷺ نے تبوک میں پہنچ کر لشکر کو پڑاؤ کا حکم دیا۔ مگر دور دور تک رومی لشکروں کا کوئی پتا نہیں چلا۔ واقعہ یہ ہوا کہ جب رومیوں کے جاسوسوں نے قیصر کو خبردی کہ رسول اﷲ ﷺ تیس ہزار کا لشکر لے کر تبوک میں آ رہے ہیں تو رومیوں کے دلوں پر اس قدر ہیبت چھا گئی کہ وہ جنگ سے ہمت ہار گئے اور اپنے گھروں سے باہر نہ نکل سکے ۔رسول اﷲ ﷺنے بیس دن تبوک میں قیام فرمایا اور اطراف و جوانب میں افواج الٰہی کا جلال دکھا کر اور کفار کے دلوں پر اسلام کا رعب بٹھا کر مدینہ واپس تشریف لائے اور تبوک میں کوئی جنگ نہیں ہوئی۔ <ref>طبقات ابن سعد حصہ اول صفحہ 276 تا278محمد بن سعد نفیس اکیڈمی کراچی</ref>
مگر اب ایک ایسی طاقت کا رُخ مدینہ کی طرف ہوچکا تھا جو کسی وجہ جواز کے بغیر مسلمانوں سے چھیڑ چھاڑ کررہی تھی۔ یہ طاقت رومیوں کی تھی جو اس وقت روئے زمین پر سب سے بڑی فوجی قوت کی حیثیت رکھتی تھی۔ پچھلے اوراق میں یہ بتایا جاچکا ہے کہ اس چھیڑ چھاڑ کی ابتدا شُرَحْبیل بن عمرو غسانی کے ہاتھو ں رسول اللہﷺ کے سفیر حضرت حارث بن عُمیر ازدیؓ کے قتل سے ہوئی جبکہ وہ رسول اللہﷺ کا پیغام لے کر بصریٰ کے حکمران کے پاس تشریف لے گئے تھے۔ یہ بھی بتا یا جا چکا ہے کہ نبیﷺ نے اس کے بعد حضرت زید بن حارثہؓ کی سرکردگی میں ایک لشکر بھیجا تھا جس نے رومیوں سے سر زمین موتہ میں خوفناک ٹکر لی۔ مگر یہ لشکر ان متکبر ظالموں سے انتقام لینے میں کامیاب نہ ہوا۔ البتہ اس نے دور ونزدیک کے عرب باشندوں پر نہایت بہترین اثر ات چھوڑے۔
 
{{محمد2}}
قیصر روم ان اثرات کو اور ان کے نتیجے میں عرب قبائل کے اندر روم سے آزادی اور مسلمانوں کی ہم نوائی کے لیے پیدا ہونے والے جذبات کو نظر انداز نہیں کرسکتا تھا۔ اس کے لیے یقینا یہ ایک <nowiki>''خطرہ '' تھا ، جو قدم بہ قدم اس کی سرحد کی طرف بڑھ رہا تھا اور عرب سے ملی ہوئی سر حد شام کے لیے چیلنج بنتا جارہا تھا۔ اس لیے قیصر نے سوچا کہ مسلمانوں کی قوت کو ایک عظیم اور ناقابل شکست خطرے کی صورت اختیار کرنے سے پہلے پہلے کچل دینا ضروری ہے تاکہ روم سے متصل عرب علاقوں میں ''فتنے '' اور ''ہنگامے''</nowiki> سرنہ اٹھا سکیں۔
 
ان مصلحتوں کے پیش نظر ابھی جنگ ِموتہ پر ایک سال بھی نہ گزرا تھا کہ قیصر نے رومی باشندوں اور اپنے ماتحت عربوں یعنی آل ِ غسان وغیرہ پر مشتمل فوج کی فراہمی شروع کردی، اور ایک خونریز اور فیصلہ کن معرکے کی تیاری میں لگ گیا۔
 
== روم وغَسّان کی تیاریوں کی عام خبریں: ==
ادھر مدینہ میں پے در پے خبریں پہنچ رہی تھیں کہ روم مسلمانوں کے خلاف ایک فیصلہ کن معرکے کی تیاری کر رہے ہیں۔ اس کی وجہ سے مسلمانوں کو ہمہ وقت کھٹکا لگا رہتا تھا۔ اور ان کے کان کسی بھی غیر مُعتاد آواز کو سن کر فورا ً کھڑے ہوجاتے تھے۔ وہ سمجھتے تھے کہ رومیوں کا ریلا آگیا۔ اس کا اندازہ اس واقعے سے ہوتا ہے کہ اسی ۹ ھ میں نبیﷺ نے اپنی ازواج مطہرات سے ناراض ہوکر ایک مہینہ کے لیے اِیْلَا1کرلیا تھا۔ اور انہیں چھوڑ کر ایک بالاخانہ میں علیحدہ ہوگئے تھے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو ابتداء میں حقیقت ِ حال معلوم نہ ہوسکی تھی۔ انہوں نے سمجھا کہ نبیﷺ نے طلاق دے دی ہے اور اس کی وجہسے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں شدید رنج وغم پھیل گیا تھا۔ حضرت عمر بن خطابؓ اس واقعہ کو بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ میرا ایک انصاری ساتھی تھا۔ جب میں (خدمتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں ) موجود نہ رہتا تو وہ میرے پاس خبر لاتا۔ اور جب وہ موجود نہ ہوتا تو میں اس کے پاس خبر لے جاتا ...یہ دونوں ہی عوالی مدینہ میں رہتے تھے۔ ایک دوسرے کے پڑوسی تھے۔ اور باری باری خدمتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضر ہوتے تھے - اس زمانے میں ہمیں شاہ غسان کا خطرہ لگا ہوا تھا۔ ہمیں بتایا گیا تھا کہ وہ ہم پر یورش کرنا چاہتا ہے اور اس کی وجہ سے ہمارے سینے بھرے ہوئے تھے۔ ایک روز اچانک میرا انصاری ساتھی دروازہ پیٹنے لگا اور کہنے لگا : کھولو کھولو۔ میں نے کہا : کیا غسانی آگئے ؟ اس نے کہا : نہیں بلکہ اس سے بھی بڑی بات ہوگئی۔ رسول اللہﷺ اپنی بیویوں سے علیحدہ ہوگئے ہیں۔2
 
ایک دوسری روایت میں یوں ہے کہ حضرت عمرؓ نے کہا : ہم میں چرچا تھا کہ آلِ غسان ہم پر چڑھا ئی کرنے کے لیے گھوڑوں کو نعل لگوارہے ہیں۔ ایک روز میرا ساتھی اپنی باری پر گیا اور عشاء کے وقت واپس آکر میرا دروازہ بڑے زور سے پیٹا اور کہا: کیا وہ سو گئے ہیں ؟ میں گھبراکر باہر آیا۔ اس نے کہا بڑا حادثہ ہوگیا ہے۔ میں نے کہا : کیا ہو ا؟ کیا غسانی آگئے ؟ اس نے کہا : نہیں۔ بلکہ اس سے بھی بڑا اور لمبا حادثہ۔ رسول اللہﷺ نے اپنی بیویوں کو طلاق دے دی ہے۔ الخ3
 
اس سے اس صورت حال کی سنگینی کا اندازہ لگایا جاسکتاہے جو اس وقت رومیوں کی جانب سے مسلمانوں کو درپیش تھی۔ اس میں مزید اضافہ منافقین کی ان ریشہ دوانیوں سے ہوا جو انہوں نے رومیوں کی تیاری کی خبر یں مدینہ پہنچنے کے بعد شروع کیں۔ چنانچہ اس کے باوجود کہ یہ منافقین دیکھ چکے تھے کہ رسول اللہﷺ ہر میدان میں کامیاب ہیں اور روئے زمین کی کسی طاقت سے نہیں ڈرتے بلکہ جو رکاوٹیں آپ کی راہ میں حائل ہوتی ہیں ، وہ پاش پاش ہوجاتی ہیں۔ اس کے باوجود منافقین نے یہ امید باندھ لی کہ مسلمانوں کے خلاف انہوں نے اپنے سینوں میں جو دیرینہ آرزو چھپا رکھی ہے ، اور جس گردشِ دوراں کا وہ عرصہ سے انتظار کررہے ہیں ، اب اس کی تکمیل کا وقت قریب آگیا ہے۔ اپنے اسی تصور کی بناء پر انہوں نے ایک مسجد کی شکل میں (جو مسجد ضرار کے نام سے مشہور ہوئی ) دسیسہ کاری اور سازش کا ایک بھٹ تیار کیا ، جس کی بنیاد اہلِ ایمان کے درمیان تفرقہ اندازی اور اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ کفر اور ان سے لڑنے والوں کے لیے گھات کی جگہ فراہم کرنے کے ناپاک مقصد پر رکھی اور رسول اللہﷺ سے گزارش کی کہ آپ اس میں نماز پڑھ دیں۔ اس سے منافقین کا مقصد یہ تھا کہ وہ اہلِ ایمان کو فریب میں رکھیں اور انہیں پتہ نہ لگنے دیں کہ اس مسجد میں ان کے خلاف سازش اور دسیسہ کاری کی کارروائیاں انجام دی جارہی ہیں۔ اور مسلمان اس مسجد میں آنے جانے والوں پر نظر نہ رکھیں۔ اس طرح یہ مسجد ، منافقین اور ان کے بیرونی دوستوں کے لیے پُر امن گھونسلے اور بھٹ کاکام دے۔ لیکن رسول اللہﷺ نے اس <nowiki>''مسجد''</nowiki>میں نماز کی ادائیگی کو جنگ سے واپسی تک کے لیے مؤخر کردیا۔ کیونکہ آپ تیار ی میں مشغول تھے۔ اس طرح منافقین اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہوسکے اور اللہ نے ان کا پردہ واپسی سے پہلے ہی چاک کردیا۔ چنانچہ آپ نے غزوے سے واپس آکر اس مسجد میں نماز پڑھنے کے بجائے اسے منہدم کرادیا۔
 
== روم و غسان کی تیاریوں کی خاص خبریں: ==
ان حالات اور خبروں کا مسلمان سامناکر ہی رہے تھے کہ انہیں اچانک ملک شام سے تیل لے کر آنے والے نبطیوں 1سے معلوم ہوا کہ ہرقل نے چالیس ہزار سپاہیوں کا ایک لشکر جرار تیار کیا ہے اور روم کے ایک عظیم کمانڈر کو اس کی کمان سونپی ہے۔ اپنے جھنڈے تلے عیسائی لخم وجذام وغیرہ کو بھی جمع کرلیا ہے، اور ان کا ہراول دستہ بلقاء پہنچ چکا ہے، اس طرح ایک بڑا خطرہ مجسم ہوکر مسلمانوں کے سامنے آگیا۔
 
== حالات کی نزاکت میں اضافہ : ==
پھر جس بات سے صورت حال کی نزاکت میں مزید اضافہ ہورہا تھا وہ یہ تھی کہ زمانہ سخت گرمی کا تھا۔ لوگ تنگی اور قحط سالی کی آزمائش سے دوچار تھے۔ سواریاں کم تھیں۔ پھل پک چکے تھے، اس لیے لوگ پھل اور سائے میں رہنا چاہتے تھے۔ وہ فی الفور روانگی نہ چاہتے تھے۔ ان سب پر مستزاد مسافت کی دوری اور راستے کی پیچیدگی اور دشواری تھی۔
 
== رسول اللہﷺ کی طرف سے ایک قطعی اقدام کا فیصلہ : ==
لیکن رسول اللہﷺ حالات وتغیرات کا مطالعہ کہیں زیادہ دقت ِ نظر سے فرمارہے تھے۔ آپﷺ سمجھ رہے تھے کہ اگر آپﷺ نے ان فیصلہ کن لمحات میں رومیوں سے جنگ لڑنے میں کاہلی اور سستی سے کام لیا ، رومیوں کو مسلمانوں کے زیر اثر علاقوں میں گھسنے دیا ، اور وہ مدینہ تک بڑھ اور چڑھ آئے تو اسلامی دعوت پر اس کے نہایت بُرے اثرات مرتب ہوں گے۔ مسلمانوں کی فوجی ساکھ اکھڑ جائے گی اور وہ جاہلیت جو جنگِ حنین میں کاری ضرب لگنے کے بعد آخری دم توڑ رہی ہے ، دوبارہ زندہ ہوجائے گی۔ اور منافقین جو مسلمانوں پر گردش ِ زمانہ کا انتظار کررہے ہیں ، اور ابو عامر فاسق کے ذریعہ شاہ روم سے رابطہ قائم کیے ہوئے ہیں ، پیچھے سے عین اس وقت مسلمانوں کے شکم میں خنجر گھونپ دیں گے ، جب آگے سے رومیوں کا ریلا ان پر خونخوار حملے کررہا ہوگا۔ اس طرح وہ بہت ساری کوشش رائیگاں چلی جائیں گی جو آپ نے اور آپ کے صحابہ ٔ کرام نے اسلام کی نشر واشاعت میں صرف کی تھیں۔ اور بہت ساری کامیابیاں ناکامی میں تبدیل ہوجائیں گی جو طویل اور خونریز جنگوں اور مسلسل فوجی دوڑ دھوپ کے بعد حاصل کی گئی تھیں۔
 
رسول اللہﷺ ان نتائج کو اچھی طرح سمجھ رہے تھے۔ ا س لیے عُسرت وشدت کے باوجود آپﷺ نے طے کیا کہ رومیوں کودار الاسلام کی طرف پیش قدمی کی مہلت دیے بغیر خود ان کے علاقے اور حدود میں گھس کر ان کے خلاف ایک فیصلہ کن جنگ لڑنی ہے۔
 
== رومیوں سے جنگ کی تیاری کا اعلان: ==
یہ معاملہ طے کر لینے کے بعد آپﷺ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں اعلان فرمادیا کہ لڑائی کی تیاری کریں۔ قبائل عرب اور اہلِ مکہ کو بھی پیغام دیا کہ لڑائی کے لیے نکل پڑیں۔ آپﷺ کا دستور تھا کہ جب کسی غزوے کا ارادہ فرماتے تو کسی اور ہی جانب کا توریہ کرتے۔ لیکن صورت حال کی نزاکت اور تنگی کی شدت کے سبب اب کی بار آپﷺ نے صاف صاف اعلان فرمادیا کہ رومیوں سے جنگ کا ارادہ ہے تاکہ لوگ مکمل تیاری کرلیں۔ آپﷺ نے اس موقع پر لوگوں کو جہاد کی ترغیب بھی دی۔ اور جنگ ہی پر ابھارنے کے لیے سورۂ توبہ کا بھی ایک ٹکڑا نازل ہوا۔ ساتھ ہی آپﷺ نے صدقہ وخیرات کر نے کی فضیلت بیان کی اور اللہ کی راہ میں اپنا نفیس مال خرچ کر نے کی رغبت دلائی۔
 
== غزوے کی تیاری کے لیے مسلمانوں کی دوڑدھوپ: ==
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے جونہی رسول اللہﷺ کا ارشاد سنا کہ آپﷺ رومیوں سے جنگ کی دعوت دے رہے ہیں جھٹ اس کی تعمیل کے لیے دوڑ پرے۔ اور پوری تیز رفتاری سے لڑائی کی تیاری شروع کردی۔ قبیلے اور برادریاں ہر چہار جانب سے مدینہ میں اترنا شروع ہوگئیں اور سوائے ان لوگوں کے جن کے دلو ں میں نفاق کی بیماری تھی ، کسی مسلمان نے اس غزوے سے پیچھے رہنا گوار ا نہ کیا۔ البتہ تین مسلمان اس سے مستثنیٰ ہیں کہ صحیح الایمان ہونے کے باوجود انہوں نے غزوے میں شرکت نہ کی۔ حالت یہ تھی کہ حاجت مند اور فاقہ مست لوگ آتے ، اور رسول اللہﷺ سے درخواست کرتے کہ ان کے لیے سواری فراہم کردیں۔ تاکہ وہ بھی رومیوں سے ہونے والی اس جنگ میں شرکت کرسکیں۔ اور جب آپﷺ ان سے معذرت کرتے کہ :
 
وَلَا عَلَى الَّذِينَ إِذَا مَا أَتَوْكَ لِتَحْمِلَهُمْ قُلْتَ لَا أَجِدُ مَا أَحْمِلُكُمْ عَلَيْهِ تَوَلَّوا وَّأَعْيُنُهُمْ تَفِيضُ مِنَ الدَّمْعِ حَزَنًا أَلَّا يَجِدُوا مَا يُنفِقُونَ (۹: ۹۲)
 
<nowiki>''میں تمہیں سوار کرنے کے لیے کچھ نہیں پاتا تو وہ اس حالت میں واپس ہوتے کہ ان آنکھوں سے آنسو رواں ہوتے کہ وہ خرچ کرنے کے لیے کچھ نہیں پارہے ہیں۔''</nowiki>
 
اسی طرح مسلمانوں نے صدقہ وخیرات کرنے میں بھی ایک دوسرے سے آگے نکل جانے کی کوشش کی۔ حضرت عثمان بن عفانؓ نے ملک شام کے لیے ایک قافلہ تیار کیا تھا۔ جس میں پالان اور کجاوے سمیت دوسو اونٹ تھے اور دو سو اوقیہ (تقریبا ًساڑھے انتیس کلو ) چاندی تھی۔ آپ نے یہ سب صدقہ کردیا۔ اس کے بعد پھر ایک سو اونٹ پالان اور کجاوے سمیت صدقہ کیا۔ اس کے بعد ایک ہزار دینار (تقریباً ساڑھے پانچ کلو سونے کے سکے) لے آئے اور انہیں نبیﷺ کی آغوش میں بکھیردیا۔ رسول اللہﷺ انہیں الٹتے جاتے تھے اور فرماتے جاتے تھے۔ آج کے بعد عثمان جو بھی کریں انہیں ضرر نہ ہوگا۔ 1اس کے بعد حضرت عثمانؓ نے پھر صدقہ کیا ، اور صدقہ کیا ، یہاں تک کہ ان کے صدقے کی مقدار نقدی کے علاوہ نوسو اونٹ اور ایک سو گھوڑے تک جاپہنچی۔
 
ادھر حضرت عبد الرحمن بن عوفؓ دوسو اوقیہ (تقریباً ساڑھے ۲۹ کلو ) چاندی لے آئے۔ حضرت ابوبکرؓ نے اپنا سارا مال حاضرِ خدمت کردیا۔ اور بال بچوں کے لیے اللہ اور اس کے رسول کے سواکچھ نہ چھوڑا۔ ان کے صدقے کی مقدار چار ہزار درہم تھی اور سب سے پہلے یہی اپنا صدقہ لے کر تشریف لائے تھے۔ حضرت عمرؓ نے اپنا آدھا مال خیرات کیا۔ حضرت عباسؓ بہت سا مال لائے۔ حضرت طلحہ ، سعد بن عبادہ اور محمد بن مسلمہ f بھی کافی مال لائے۔ حضرت عاصم بن عدیؓ نوے وسق (یعنی ساڑھے تیرہ ہزار کلو ،ساڑھے ۱۳ ٹن ) کھجور لے کر آئے۔ بقیہ صحابہ بھی پے در پے اپنے تھوڑے زیادہ صدقات لے آئے، یہاں تک کہ کسی کسی نے ایک مُد یا دومد صدقہ کیا کہ وہ اس سے زیادہ کی طاقت نہیں رکھتے تھے۔ عورتوں نے بھی ہار ، بازو بند ، پازیب ، بالی اور انگوٹھی وغیرہ جو کچھ ہوسکا آپﷺ کی خدمت میں بھیجا۔ کسی نے بھی اپنا ہاتھ نہ روکا، اور بخل سے کام نہ لیا۔ صرف منافقین تھے جو صدقات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والوں پر طعنہ زنی کرتے تھے ، (کہ یہ ریا کارہے) اور جن کے پاس اپنی مشقت کے سوا کچھ نہ تھا ان کا مذاق اڑاتے تھے۔ (کہ یہ ایک دو مدکھجور سے قیصر کی مملکت فتح کرنے اٹھے ہیں)
 
== اسلامی لشکر تبوک کی راہ میں : ==
اس دھوم دھام جوش وخروش اوربھاگ دوڑ کے نتیجے میں لشکر تیار ہوگیا تو رسول اللہﷺ نے حضرت محمد بن مسلمہؓ کو اور کہا جاتا ہے کہ سباعؓ بن عرفطہ کو مدینہ کا گورنر بنایا۔ اور حضرت علیؓ بن ابی طالب کو اپنے اہل وعیال کی دیکھ بھال کے لیے مدینہ ہی میں رہنے کا حکم دیا۔ لیکن منافقین نے ان پر طعنہ زنی۔ اس لیے وہ مدینہ سے نکل پڑے اور رسول اللہﷺ سے جالاحق ہوئے لیکن آپﷺ نے انہیں پھر مدینہ واپس کردیا اور فرمایا کہ کیاتم اس بات سے راضی نہیں کہ مجھ سے تمہیں وہی نسبت ہو جو حضرت موسی علیہ السلام سے حضرت ہارون علیہ السلام کو تھی۔ البتہ میرے بعد کوئی نبی نہ ہوگا۔
 
بہرحال رسول اللہﷺ نے اس انتظام کے بعد شمال کی جانب کوچ فرمایا (نسائی کی روایت کے مطابق یہ جمعرات کا دن تھا ) منزل تبوک تھی لیکن لشکر بڑا تھا۔ تیس ہزار مردان جنگی تھے۔ اس سے پہلے مسلمانوں کا اتنا بڑا لشکر کبھی فراہم نہ ہوا تھا۔ اس لیے مسلمان ہر چند مال خرچ کرنے کے باوجود لشکر کو پوری طرح تیار نہ کرسکے تھے بلکہ سواری اور توشے کی سخت کمی تھی۔ چنانچہ اٹھارہ اٹھارہ آدمیوں پر ایک ایک اونٹ تھا جس پر یہ لوگ باری باری سوار ہوتے تھے۔ اسی طرح کھانے کے لیے بسا اوقات درختوں کی پتیاں استعمال کرنی پڑتی تھیں جس سے ہونٹوں میں ورم آگیا تھا مجبورا ً اونٹوں کو -قلت کے باوجود - ذبح کرنا پڑا، تاکہ اس کے معدے اور آنتوں کے اندر جمع شدہ پانی اور تری پی جاسکے۔ اسی لیے اس کا نام جیش ِ عُسرت (تنگی کا لشکر ) پڑگیا۔
 
تبوک کی راہ میں لشکر کا گذر حِجر یعنی دیا ر ثمود سے ہوا۔ ثمود وہ قوم تھی جس نے وادیٔ القریٰ کے اندر چٹانیں تراش تراش کر مکانات بنائے تھے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے وہاں کے کنویں سے پانی لے لیا تھا، لیکن جب چلنے لگے تو رسول اللہﷺ نے فرمایا : تم یہاں کا پانی نہ پینا اور اس سے نماز کے لیے وضو نہ کرنا۔ اور جو آٹا تم لوگوں نے گوندھ رکھا ہے اسے جانوروں کو کھلا دو ، خود نہ کھاؤ۔ آپﷺ نے یہ بھی حکم دیا کہ لوگ اس کنویں سے پانی لیں جس سے صالح علیہ السلام کی اونٹنی پانی پیا کرتی تھی۔
 
صحیحین میں ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ جب نبیﷺ حِجر (دیار ِ ثمود ) سے گذرے تو فرمایا: ان ظالموں کی جائے سکونت میں داخل نہ ہونا کہ کہیں تم پر بھی وہی مصیبت نہ آن پڑے جو ان پر آئی تھی۔ ہاں مگر روتے ہوئے۔ پھر آپﷺ نے اپنا سر ڈھکا اور تیزی سے چل کر وادی پار کرگئے۔1
 
راستے میں لشکر کو پانی کی سخت ضرورت پڑی حتیٰ کہ لوگوں نے رسول اللہﷺ سے شکوہ کیا۔ آپﷺ نے اللہ سے دعا کی۔ اللہ نے بادل بھیج دیا، بارش ہوئی۔ لوگوں نے سیر ہو کر پانی پیا اور ضرورت کا پانی لاد بھی لیا۔پھر جب تبوک کے قریب پہنچے تو آپﷺ نے فرمایا : کل ان شاء اللہ تم لوگ تبوک کے چشمے پر پہنچ جاؤ گے، لیکن چاشت سے پہلے نہیں پہنچو گے۔ لہٰذا جو شخص وہاں پہنچے اس کے پانی کو ہاتھ نہ لگا ئے ، یہاں تک کہ میں آجاؤں۔ حضرت معاذؓ کا بیان ہے کہ ہم لوگ پہنچے تو وہاں دوآدمی پہلے ہی پہنچ چکے تھے۔ چشمے سے تھوڑا تھوڑا پانی آرہا تھا۔ رسول اللہﷺ نے دریافت کیا کہ کیا تم دونوں نے اس کے پانی کو ہاتھ لگایا ہے ؟ انہو ں نے کہا : ہاں ! آپﷺ نے ان دونوں سے جو کچھ اللہ نے چاہا ، فرمایا۔ پھر چشمے سے چُلّو کے ذریعہ تھوڑا تھوڑا پانی نکالا۔ یہاں تک کہ قدرے جمع ہوگیا۔ پھر رسول اللہﷺ نے اس میں اپناچہرہ اور ہاتھ دُھلا ، اور اسے چشمے میں انڈیل دیا۔ اس کے بعد چشمے سے خوب پانی آیا۔ صحابہ کرام نے سیر ہوکر پانی پیا۔ پھر رسول اللہﷺ نے فرمایا : اے معاذ ! اگر تمہاری زندگی دراز ہوئی تو تم اس مقام کو باغات سے ہرا بھرا دیکھو گے۔1
 
راستے ہی میں یاتبوک پہنچ کر... روایا ت میں اختلاف ہے ... رسول اللہﷺ نے فرمایا : آج رات تم پر سخت آندھی چلے گی لہٰذا کوئی نہ اٹھے اور جس کے پاس اونٹ ہو وہ اس کی رسی مضبوطی سے باندھ دے۔ چنانچہ سخت آندھی چلی۔ ایک شخص کھڑا ہوگیا تو آندھی نے اسے اڑا کر طی ٔکی دوپہاڑیوں کے پاس پھینک دیا۔2
 
راستے میں رسول اللہﷺ کا معمول تھا کہ آپ ظہر اور عصرکی نمازیں اکٹھا اور مغرب اور عشاء کی نمازیں اکٹھا پڑھتے تھے۔ جمع تقدیم بھی کرتے تھے اور جمع تاخیربھی۔ (جمع تقدیم کا مطلب یہ ہے کہ ظہر اور عصر دونوں ظہر کے وقت میں اور مغرب اور عشاء دونوں مغرب کے وقت میں پڑھی جائیں۔ اور جمع تاخیر کا مطلب یہ ہے کہ ظہر اور عصر دونوں عصر کے وقت میں اور مغرب عشاء دونوں عشاء کے وقت میں پڑھی جائیں۔ )
 
== اسلامی لشکر تبوک میں : ==
اسلامی لشکر تبوک میں اُتر کر خیمہ زن ہوا۔ وہ رومیوں سے دو دو ہاتھ کرنے کے لیے تیار تھا۔ پھر رسول اللہﷺ نے اہلِ لشکر کو مخاطب کر کے نہایت بلیغ خطبہ دیا۔ آپﷺ نے جوامع الکلم ارشاد فرمائے۔ دنیا اور آخرت کی بھلائی کی رغبت دلائی۔ اللہ کے عذاب سے ڈرایا اور اس کے انعامات کی خوشخبری دی۔ اس طرح فوج کا حوصلہ بلند ہوگیا۔ ان میں تو شے ، ضروریات اور سامان کی کمی کے سبب جو نقص اور خلل تھا وہ اس راہ سے پُر ہوگیا۔ دوسری طرف روم اور ان کے حلیفوں کا یہ حال ہوا کہ رسول اللہﷺ کی آمد کی خبر سن کر ان کے اندر خوف کی لہر دوڑ گئی۔ انہیں آگے بڑھنے اور ٹکر لینے کی ہمت نہ ہوئی۔ اور وہ اندرون ِ ملک مختلف شہروں میں بکھر گئے۔ ان کے اس طرزِ عمل کا اثر جزیرہ عرب کے اندر اور باہر مسلمانوں کی فوجی ساکھ پر بہت عمدہ مرتب ہوا اور مسلمانوں نے ایسے ایسے اہم سیاسی فوائد حاصل کیے کہ جنگ کی صورت میں اس کا حاصل کرنا آسان نہ ہوتا۔ تفصیل یہ ہے :
 
اَیْلَہ کے حاکم یحنہ بن روبہ نے آپﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر جزیہ کی ادائیگی منظور کی اور صلح کامعاہدہ کیا۔ جَرْبَاء اور اَذرُخ کے باشندوں نے بھی خدمتِ نبویﷺ میں حاضر ہوکر جزیہ دینا منظور کیا۔ رسول اللہﷺ نے ان کے لیے ایک تحریر لکھ دی جو ان کے پاس محفوظ تھی۔ اہل ِ مقناء نے اپنے پھلوں کی چوتھائی پیداوار دینے کی شرط پر صلح کی۔ آپ نے حاکمِ اَیْلَہ کو بھی ایک تحریر لکھ دی جو یہ تھی :
<nowiki>''</nowiki>بسم اللہ الرحمن الرحیم : یہ پروانہ ٔ امن ہے اللہ کی جانب سے اور نبی محمدرسول اللہ کی جانب سے۔ یحنہ بن روبہ اور باشندگان ِایلہ کے لیے۔ خشکی اور سمندر میں ان کی کشتیوں اور قافلوں کے لیے اللہ کا ذمہ ہے اور محمد نبی کا ذمہ ہے اور یہی ذمہ ان شامی اور سمندری باشندوں کے لیے ہے جو یحنہ کے ساتھ ہوں۔ ہاں ! اگر ان کا کوئی آدمی کوئی گڑبڑ کرے گا تو اس کا مال اس کی جان کے آگے روک نہ بن سکے گا اور جو آدمی اس کا مال لے لے گا اس کے لیے وہ حلال ہوگا۔ انہیں کسی چشمے پر اترنے اور خشکی یا سمندر کے کسی راستے پر چلنے سے منع نہیں کیا جاسکتا۔<nowiki>''</nowiki>
اس کے علاوہ رسول اللہﷺ نے حضرت خالد بن ولیدؓ کو چارسو بیس سواروں کا رسالہ دے کر دومۃ ُ الجُندل کے حاکم اُکَیْدرکے پا س بھیجا۔ اور فرمایا : تم اسے نیل گائے کا شکار کرتے ہوئے پاؤ گے۔ حضرت خالدؓ وہاں تشریف لے گئے۔ جب اتنے فاصلے پر رہ گئے کہ قلعہ صاف نظر آرہا تھا تو اچانک ایک نیل گائے نکلی اور قلعہ کے دروازے پر سینگ رگڑنے لگی۔ اُکَیدر اس کے شکار کو نکلا۔ چاندنی رات تھی۔ حضرت خالدؓ اور ان کے سواروں نے اسے جالیا۔ اور گرفتار کر کے رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر کیا۔ آپﷺ نے اس کی جان بخشی کی۔ اور دوہزار اونٹ ، آٹھ سو غلام ، چار سو زِرہیں اور چار سو نیزوں کی شرط پر مصالحت فرمائی۔ اس نے جزیہ بھی دینے کا اقرار کیا۔ چنانچہ آپﷺ نے اس سے یحنہ سمیت دُومہ ، تبوک ، ایلہ اور تیماء کے شرائط پر معاملہ طے کیا۔
ان حالات کو دیکھ کر وہ قبائل جو اب تک رومیوں کے آلۂ کار بنے ہوئے تھے ، سمجھ گئے کہ اب اپنے ان پُرانے سرپرستوں پر اعتماد کرنے کا وقت ختم ہوچکا ہے۔ اس لیے وہ مسلمانوں کے حمایتی بن گئے۔ اس طرح اسلامی حکومت کی سرحدیں وسیع ہوکر براہِ راست رُومی سرحد سے جاملیں اور رُوم کے آلہ کاروں کا بڑی حد تک خاتمہ ہوگیا۔
 
== مدینہ کو واپسی: ==
اسلامی لشکر تبوک سے مظفر ومنصور واپس آیا، کوئی ٹکر نہ ہوئی۔ اللہ جنگ کے معاملے میں مومنین کے لیے کافی ہوا۔ البتہ راستے میں ایک جگہ ایک گھاٹی کے پاس بارہ منافقین نے نبیﷺ کو قتل کرنے کی کوشش کی۔ اس وقت آپ اس گھاٹی سے گذررہے تھے اور آپ کے ساتھ صرف حضرت عمارؓ تھے جو اونٹنی کی نکیل تھامے ہوئے تھے اور حضرت حذیفہ بن یمانؓ تھے جو اونٹنی ہانک رہے تھے۔ باقی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم دُور وادی کے نشیب سے گذررہے تھے۔ اس لیے منافقین نے اس موقع کو اپنے ناپاک مقصد کے لیے غنیمت سمجھا اور آپﷺ کی طرف قدم بڑھایا۔ ادھر آپﷺ اور آپ کے دونوں ساتھی حسب ِ معمول راستہ طے کررہے تھے کہ پیچھے سے ان منافقین کے قدموں کی چاپیں سنائی دیں۔یہ سب چہروں پر ڈھاٹا باندھے ہوئے تھے اور اب آپﷺ پر تقریباً چڑھ ہی آئے تھے کہ آپﷺ نے حضرت حذیفہؓ کو ان کی جانب بھیجا۔ انہوں نے ان کی سواریوں کے چہروں پر اپنے ایک ڈھال سے ضرب لگانی شروع کی ، جس سے اللہ نے انہیں مرعوب کردیا۔ اور وہ تیزی سے بھاگ کر لوگوں میں جاملے۔ اس کے بعد رسول اللہﷺ نے ان کے نام بتائے اور ان کے ارادے سے باخبر کیا۔ اسی لیے حضرت حذیفہؓ کو رسول اللہﷺ کا <nowiki>''</nowiki>رازداں<nowiki>''</nowiki> کہا جاتا ہے۔ اسی واقعہ سے متعلق اللہ کا یہ ارشاد نازل ہوا کہ {وَہَمُّوْا بِمَا لَمْ یَنَالُوْا } <nowiki>''</nowiki>انہوں نے اس کام کا قصد کیا جسے وہ نہ پاسکے۔<nowiki>''</nowiki>
 
خاتمہ ٔ سفر پر جب دور سے نبیﷺ کو مدینہ کے نقوش دکھائی پڑے تو آپﷺ نے فرمایا : یہ رہا طابہ ، اور یہ رہا اُحد ، یہ وہ پہار ہے جو ہم سے محبت کرتا ہے اور جس سے ہم محبت کرتے ہیں۔ ادھر مدینہ میں آپﷺ کی آمد کی خبر پہنچی تو عورتیں بچے اور بچیاں باہر نکل پڑیں۔ اور زبردست اعزاز کے ساتھ لشکر کا استقبال کرتے ہوئے یہ نغمہ گنگنایا۔1
 
طلــع البــــدر علینــــا من ثنیــات الــــوداع
 
وجـب الشکـر علینـــــا مــــا دعـــا للــہ داع
 
<nowiki>''ہم پر ثنیۃ الوداع سے چودھویں کا چاند طلوع ہوا۔ جب تک پکارنے والااللہ کو پکارے ہم پر شکر واجب ہے۔''</nowiki>
 
رسول اللہﷺ تبوک سے رجب کے مہینے میں واپس پہنچے۔ 2اس سفر میں پورے پچاس روز صرف ہوئے۔ بیس دن تبوک میں اور تیس دن آمد ورفت میں۔ اور یہ آپﷺ کی حیات ِ مبارکہ کا آخری غزوہ تھا جس میں آپ نے بہ نفس ِ نفیس شرکت فرمائی۔
 
== مخلفین: ==
یہ غزوہ اپنے مخصوص حالات کے لحاظ سے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک سخت آزمائش بھی تھا۔ جس سے اہل ِ ایمان اور دوسرے لوگوں میں تمیز ہوگئی۔ اور اس قسم کے موقع پر اللہ کا دستور بھی یہی ہے۔ ارشاد ہے :مَّا كَانَ اللَّـهُ لِيَذَرَ‌ الْمُؤْمِنِينَ عَلَىٰ مَا أَنتُمْ عَلَيْهِ حَتَّىٰ يَمِيزَ الْخَبِيثَ مِنَ الطَّيِّبِ ۗ (۳: ۱۷۹)
<nowiki>''اللہ مومنین کو اسی حالت پر چھوڑ نہیں سکتا جس پر تم لوگ ہو یہاں تک کہ خبیث کو پاکیزہ سے علیحدہ کردے۔ ''</nowiki>
چنانچہ اس غزوہ میں سارے کے سارے مومنین صادقین نے شرکت کی اور اس سے غیر حاضری نفاق کی علامت قرار پائی۔ چنانچہ کیفیت یہ تھی کہ اگر کوئی پیچھے رہ گیا تھا اور اس کا ذکر رسول اللہﷺ سے کیا جاتا تو آپ فرماتے کہ اسے چھوڑ و۔ اگر اس میں خیر ہے تو اللہ اسے جلدہی تمہارے پاس پہنچادے گا اور اگر ایسا نہیں ہے تو پھر اللہ نے تمہیں اس سے راحت دے دی ہے۔ غرض اس غزوے سے یاتو وہ لوگ پیچھے رہے جو معذور تھے یاوہ لوگ جو منافق تھے۔ جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول سے ایمان کا جھوٹا دعویٰ کیا تھااور اب جھوٹا عذر پیش کرکے غزوہ میں شریک نہ ہونے کی اجازت لے لی تھی اور پیچھے بیٹھ رہے تھے۔ یا سر ے سے اجازت لیے بغیر ہی بیٹھے رہ گئے تھے۔ ہاں ! تین آدمی ایسے تھے جو سچے اور پکے مومن تھے۔ اور کسی وجہ جواز کے بغیر پیچھے رہ گئے تھے۔ انہیں اللہ نے آزمائش میں ڈالا اور پھر ان کی توبہ قبول کی۔
اس کی تفصیل یہ ہے کہ واپسی پر رسول اللہﷺ مدینہ میں داخل ہوئے تو حسبِ معمول سب سے پہلے مسجد نبوی میں تشریف لے گئے۔ وہاں دورکعت نماز پڑھی۔ پھر لوگوں کی خاطر بیٹھ گئے۔ ادھر منافقین نے جن کی تعداد اسی سے کچھ زیادہ تھی،1آآکر معذرتیں شروع کردیں۔ اور قسمیں کھانے لگے۔ آپ نے ان سے ان کا ظاہر قبول کرتے ہوئے بیعت کرلی اور دعائے مغفرت کی، اور ان کا باطن اللہ کے حوالے کردیا۔
باقی رہے تینوں مومنین صادقین ... یعنی کعب بن مالک ، مرارہ بن ربیع اور ہلال بن اُمیہ ... تو انہوں نے سچائی اختیار کرتے ہوئے اقرار کیا کہ ہم نے کسی مجبوری کے بغیر غزوے میں شرکت نہیں کی تھی۔ اس پر رسول اللہﷺ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو حکم دیا کہ ان تینوں سے بات چیت نہ کریں۔ چنانچہ ان کے خلاف سخت بائیکاٹ شروع ہوگیا۔ لوگ بدل گئے، زمین بھیانک بن گئی۔ اور کشادگی کے باوجود تنگ ہوگئی۔ اور خود ان کی اپنی جان پر بن آئی۔ سختی یہاں تک بڑھی کہ چالیس روز گزر نے کے بعد حکم دیا کہ اپنی عورتوں سے بھی الگ رہیں جب بائیکاٹ پر پچاس روز پورے ہوگئے تو اللہ نے ان کی توبہ قبول کیے جانے کا مژدہ نازل کیا۔ ارشاد ہوا 
 
وَعَلَى الثَّلَاثَةِ الَّذِينَ خُلِّفُوا حَتَّىٰ إِذَا ضَاقَتْ عَلَيْهِمُ الْأَرْ‌ضُ بِمَا رَ‌حُبَتْ وَضَاقَتْ عَلَيْهِمْ أَنفُسُهُمْ وَظَنُّوا أَن لَّا مَلْجَأَ مِنَ اللَّـهِ إِلَّا إِلَيْهِ ثُمَّ تَابَ عَلَيْهِمْ لِيَتُوبُوا ۚ إِنَّ اللَّـهَ هُوَ التَّوَّابُ الرَّ‌حِيمُ (۹: ۱۱۸)
 
<nowiki>''اور اللہ نے ان تین آدمیوں کی بھی توبہ قبول کی جن کا معاملہ مؤخر کردیا گیا تھا، یہاں تک کہ جب زمین اپنی کشادگی کے باوجود ان پرتنگ ہوگئی ، اور ان کی جان بھی ان پر تنگ ہوگئی اور انہوں نے یقین کرلیا کہ اللہ سے (بھاگ کر) کوئی جائے پناہ نہیں ہے مگر اسی کی طرف۔ پھر اللہ ان پر رجوع ہوا تاکہ وہ توبہ کریں یقینا اللہ توبہ قبول کرنے والا رحیم ہے۔''</nowiki>
 
اس فیصلے کے نزول پر مسلمان عموماً اور یہ تینوں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم خصوصاً بے حد وحساب خوش ہوئے۔ لوگوں نے دوڑ دوڑ کر بشارت دی۔ خوشی سے چہرے کھل اُٹھے اور انعامات اور صدقے دیے۔ درحقیقت یہ ان کی زندگی کا سب سے باسعادت دن تھا۔
 
اسی طرح جولوگ معذوری کی وجہ سے شریک ِ غزوہ نہ ہوسکے تھے ان کے بارے میں اللہ نے فرمایا :
 
لَّيْسَ عَلَى الضُّعَفَاءِ وَلَا عَلَى الْمَرْ‌ضَىٰ وَلَا عَلَى الَّذِينَ لَا يَجِدُونَ مَا يُنفِقُونَ حَرَ‌جٌ إِذَا نَصَحُوا لِلَّـهِ (۹: ۹۱)
 
<nowiki>''کمزوروں پر ،مریضوں پر اور جولوگ خرچ کرنے کے لیے کچھ نہ پائیں ان پر کوئی حرج نہیں جب کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کے خیرخواہ ہوں۔''</nowiki>
 
ان کے متعلق نبیﷺ نے بھی مدینہ کے قریب پہنچ کرفرمایا تھا : مدینہ میں کچھ ایسے لوگ ہیں کہ تم نے جس جگہ بھی سفر کیا اورجووادی بھی طے کی وہ تمہارے ساتھ رہے ، انہیں عذر نے روک رکھا تھا۔ لوگوں نے کہا: یارسول اللہ ! وہ مدینہ میں رہتے ہوئے بھی (ہمارے ساتھ تھے) ؟ آپ نے فرمایا: (ہاں) مدینہ میں رہتے ہوئے بھی۔
 
== اس غزوے کا اثر: ==
یہ غزوہ جزیرۃ العرب پر مسلمانوں کا اثر پھیلانے اور اسے تقویت پہنچانے میں بڑا مؤثر ثابت ہوا۔ لوگوں پر یہ بات اچھی طرح واضح ہوگئی کہ اب جزیرۃ العرب میں اسلام کی طاقت کے سوا اور کوئی طاقت زندہ نہیں رہ سکتی۔ اس طرح جاہلین اور منافقین کی وہ بچی کھچی آرزوئیں اور امیدیں بھی ختم ہوگئیں جو مسلمانوں کے خلاف گردشِ زمانہ کے انتظار میں ان کے نہاں خانہ ٔ دل میں پنہاں تھیں، کیونکہ ان کی ساری امیدوں اور آرزؤں کا محور رومی طاقت تھی۔ اور اس غزوے میں اس کا بھی بھرم کھل گیا تھا۔ اس لیے ان حضرات کے حوصلے ٹوٹ گئے۔ اور انہوں نے امر واقعہ کے سامنے سپر ڈال دی کہ اب اس سے بھاگنے اور چھٹکارا پانے کی کوئی راہ ہی نہیں رہ گئی تھی۔
 
اسی صورت ِ حال کی بناء پر اب اس کی بھی ضرورت نہیں رہ گئی تھی کہ مسلمان ، منافقین کے ساتھ رفق ونرمی کا معاملہ کریں۔ لہٰذا اللہ نے ان کے خلاف سخت رویہ اختیار کرنے کا حکم صادر فرمایا۔ یہاں تک کہ ان کے صدقے قبول کرنے ، ان کی نماز جنازہ پڑھنے ، ان کے لیے دعائے مغفرت کرنے اور ان کی قبروں پر کھڑے ہونے سے روک دیا۔ اور انہوں نے مسجد کے نام سے سازش اور دسیسہ کاری کا جو گھونسلہ تعمیر کیا تھا اسے ڈھادینے کا حکم دیا۔ اور ان کے بارے میں ایسی ایسی آیات نازل فرمائیں کہ وہ بالکل ننگے ہوگئے۔ انہیں پہچاننے میں کوئی ابہام نہ رہا، گویا اہل مدینہ کے لیے ان آیات نے ان منافقین پر انگلیاں رکھ دیں۔
 
اس غزوے کے اثر ات کا اندازہ ااس سے بھی کیاجاسکتا ہے کہ فتح مکہ کے بعد (بلکہ اس سے پہلے بھی ) عرب کے وفود اگرچہ رسول اللہﷺ کی خدمت میں آنا شروع ہوگئے تھے ، لیکن ان کی بھرمار اس غزوے کے بعد ہی ہوئی۔1
 
== اس غزوے سے متعلق قرآن کا نزول : ==
اس غزوے سے متعلق سورۂ توبہ کی بہت سی آیا ت نازل ہوئیں۔ کچھ روانگی سے پہلے ، کچھ روانگی کے بعد دورانِ سفر ، اور کچھ مدینہ واپس آنے کے بعد۔ ان آیا ت میں غزوے کے حالات ذکر کیے گئے ہیں۔ منافقین کا پردہ کھولا گیا ہے۔ مخلص مجاہد ین کی فضیلت بیان کی گئی ہے اور مومنین صادقین جو غزوے میں گئے تھے اور جو نہیں گئے تھے ان کی توبہ کی قبولیت کا ذکر ہے۔ وغیرہ وغیرہ!!
 
== اس سن کے بعض اہم واقعات: ==
اس سن ( ۹ ھ ) میں تاریخی اہمیت کے متعدد واقعات پیش آئے :
 
تبوک سے رسول اللہﷺ کی واپسی کے بعد عُوَیمر عَجلانی اور ان کی بیوی کے درمیان لِعَان ہوا۔
 
غامدیہ عورت کو جس نے آپ کی خدمت میں حاضر ہوکر بدکاری کا اقرار کیا تھا، رجم کیا گیا۔ اس عورت نے بچے کی پیدائش کے بعد جب دودھ چھڑالیا تب اسے رجم کیا گیا تھا۔
 
اَصْحَمہ نجاشی شاہ حبشہ نے وفات پائی اور رسول اللہﷺ نے اس کی غائبانہ نماز جنازہ پڑھی۔
 
نبیﷺ کی صاحبزادی ام کلثوم ؓ کی وفات ہوئی۔ ان کی وفات پر آپ کوسخت غم ہوا۔ اور آپ نے حضرت عثمان سے فرمایا کہ اگر میرے پاس تیسری لڑکی ہوتی تو اس کی شادی بھی تم سے کردیتا۔
 
تبوک سے رسول اللہﷺ کی واپسی کے بعد راس المنافقین عبد اللہ بن ابی نے وفات پائی۔ رسول اللہﷺ نے اس کے لیے دعائے مغفرت کی اور حضرت عمرؓ کے روکنے کے باوجود اس کی نماز جنازہ پڑھی۔ بعد میں قرآن نازل ہوا۔ اور اس میں حضرت عمرؓ کی موافقت اور تائید کر تے ہوئے منافقین پر نماز جنازہ پڑھنے سے منع کردیا گیا۔
 
== مآخذ: ==
ابن ہشام ۲/۵۱۵ تا ۵۳۷ ،
 
زاد المعاد ۳/۲ تا ۱۳ ،
 
صحیح بخاری ۲/ ۶۳۳ تا ۶۳۷ وا/۲۵۲ ، ۴۱۴ ،
 
صحیح مسلم مع شرح نووی ۲/۲۴۶،
 
فتح الباری ۸/۱۱۰تا ۱۲۶۔{{محمد2}}
{{عہد نبوی کی جنگیں}}