"جنگ صفین" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م صفائی
سطر 20:
، حدیث 7100</ref>
 
[[خزیمہ بن ثابت انصاری]] بھی اسی جنگ میں شہید ہوئے۔ یہ دونوں اصحاب علی کی فوج میں شامل تھے۔ اسی جنگ میں [[اویس قرنی]] بھی علی کرم اللہ وجہہ کی حمایت میں لڑتے ہوئے شہید ہوئے۔ علی کی فوج کے امیر مالک اشتر اور دوسری طرف عمرو ابن العاص تھے۔<br />
 
 
کتب تاریخ میں ہمیں ایسی روایات بھی ملتی ہیں، جن سے معلوم ہوتا ہے کہ علی و معاویہ دونوں ہی جنگ نہ چاہتے تھے۔ عمرو بن عاص رضی اللہ عنہم نے دونوں جانب کے مقتولین کو دیکھا تو انہیں اتنا دکھ ہوا کہ وہ رو پڑے۔ پھر انہوں نے معاویہ کی اجازت سے علی رضی اللہ عنہما کو صلح کی دعوت دی۔ یہ ایک نہایت ہی پرخلوص اقدام تھا اور علی نے اس خلوص کا جواب خلوص سے دیا۔
عتبہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ صفین کے میدان میں اترے اور یہاں کئی دن تک ہم نے جنگ کی۔ ہمارے مابین مقتولین کی تعداد بہت زیادہ ہو گئی اور گھوڑے بھی زخمی ہوئے۔ علی نے عمرو بن عاص کو پیغام بھیجا: ’’مقتولین بہت زیادہ ہو گئے ہیں۔ جنگ روک دیجیے تاکہ ہم ان تمام مقتولین کو دفن کر لیں۔‘‘ انہوں نے اس دعوت کو قبول کیا۔ اس کے بعد (دونوں جانب کے) لوگ آپس میں گھل مل گئے۔ (راوی نے یہ کہہ کر اپنی انگلیاں ایک دوسرے میں ڈال لیں۔) لشکر علی کا ایک شخص جو شدت دکھا رہا تھا، اسے اس کے کیمپ میں قتل کر دیا گیا اور اس کی لاش یہاں سے نکال دی گئی۔ عمرو اس خندق (جہاں مقتولین کو دفن کیا جا رہا تھا) کے دروازے پر بیٹھے تھے اور دونوں فریقوں کے مقتولین کی تعداد ان سے مخفی نہ تھی۔ علی کے ساتھیوں میں سے ایک شخص کی لاش لائی گئی جو معاویہ کے کیمپ میں قتل کیا گیا تھا۔ عمرو یہ دیکھ کر رو پڑے اور بولے: ’’یہ شخص مجتہد تھا۔ کتنے ہی ایسے لوگ ہیں جو اللہ کے حکم پر سختی سے کاربند تھے مگر مارے گئے۔ وہ دیکھ رہا ہے کہ علی اور معاویہ دونوں ہی اس کے خون سے بری ہیں۔‘‘<ref>4. بلاذری۔ انساب الاشراف۔ 3/104</ref><br />
 
 
ابو وائل کہتے ہیں: ہم صفین میں تھے جب اہل شام کے ساتھ جنگ خوب زور پکڑ گئی۔ شامی ایک ٹیلے پر چڑھ گئے۔ عمرو بن عاص نے معاویہ کو کہا: ’’آپ علی کی طرف قرآن بھیج کر ان کو کتاب اللہ کی طرف دعوت دیجیے۔ مجھے امید ہے کہ وہ اس سے انکار نہیں کریں گے۔‘‘ معاویہ کی طرف سے ایک آدمی علی کے پاس آیا اور کہنے لگا: ’’ہمارے اور آپ کے درمیان اللہ کی کتاب ہے۔‘‘ علی نے اسے قبول کر لیا اور فرمایا: ’’میں لوگوں کو اس کی دعوت دینے کا زیادہ حق دار ہوں۔ ٹھیک ہے، ہمارے اور آپ کے درمیان اللہ کی کتاب فیصلہ کرے گی۔‘‘<ref>5. احمد بن حنبل۔ المسند۔ باب سہل بن حنیف۔ حدیث 15975</ref><br />
سطر 31 ⟵ 29:
 
علی کا خط، جو آپ نے شہروں کی جانب لکھا، اس میں آپ نے اپنے اور اہل صفین کے درمیان ہونے والے واقعے کو بیان فرمایا۔
ہمارے معاملہ کی ابتدا یوں ہوئی کہ ہم اہل شام کے ساتھ ایک میدان میں اکٹھے ہوئے۔ ظاہر ہے کہ ہمارا اور ان کا رب ایک، ہمارا اور ان کا نبی ایک، ہماری اور ان کی اسلام کے متعلق دعوت ایک۔ اللہ پر ایمان اور اس کے رسول کی تصدیق کے معاملے میں نہ ہم ان سے بڑھ کر تھے اور نہ وہ ہم سے بڑھ کر۔ صرف ایک معاملے میں ہم میں اختلاف ہوا اور وہ تھا خون عثمان کا جبکہ ہم اس سے بری تھے۔ ہم نے اس کا حل یہ پیش کیا کہ جو مقصد آج نہیں حاصل ہو سکتا ہے، اس کا وقتی علاج یہ کیا جائے کہ آتش جنگ کو خاموش کر دیا جائے اور لوگوں کو جذبات کو پرسکون ہو لینے دیا جائے۔ اس کے بعد جب حکومت کو استحکام حاصل ہو جائے گا اور حالات سازگار ہو جائیں گے تو ہم اتنے طاقتور ہو جائیں گے کہ حق (یعنی قصاص) کو اس کے مقام پر رکھ لیں۔ لیکن انہوں نے کہا کہ اس کا علاج صرف جنگ ہی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جنگ نے اپنے پاؤں پھیلا دیے اور جم کر کھڑی ہو گئی۔ شعلے بھڑک اٹھے اور مستقل ہو گئے۔ سب نے دیکھا کہ جنگ نے دونوں فریقوں کو دانت سے کاٹنا شروع کر دیا ہے اور فریقین میں اپنے پنجے گاڑ دیے ہیں تو وہ میری بات ماننے پر آمادہ ہو گئے اور میں نے بھی ان کی بات کو مان لیا اور تیزی سے بڑھ کر ان کے مطالبہ صلح کو قبول کر لیا۔ یہاں تک کہ ان پر حجت واضح ہو گئی اور ہر طرح کا عذر ختم ہو گیا۔ اب اس کے بعد کوئی اس حق پر قائم رہ گیا تو گویا اپنے آپ کو ہلاکت سے نکال لے گا ورنہ اسی گمراہی میں پڑا رہ گیا تو ایسا عہد شکن ہو گا جس کے دل پر اللہ نے مہر لگا دی ہے۔ گردش ایام اسی کے سر پر منڈلا رہی ہو گی۔ <ref>6. سید شریف رضی۔ نہج البلاغہ۔ خط نمبر 58</ref><br />
 
== حوالہ جات ==
سطر 44 ⟵ 42:
[[زمرہ:657ء]]
[[زمرہ:خلفائے راشدین کی جنگیں]]
 
[[زمرہ:مسلم خانہ جنگیاں]]