"ویکیپیڈیا:ویکی املائی منشور" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
(ٹیگ: ترمیم از موبائل موبائل ویب ترمیم)
اضافہ
(ٹیگ: ترمیم از موبائل موبائل ویب ترمیم)
سطر 359:
غلط: ھے، ھوا، ھندوستان، دھلی، ھمیشہ<br />
صحیح: ہے، ہوا، ہندوستان، دہلی، ہمیشہ
|}
 
=== ہمزہ ===
{|style="width:80%; " border="1" cellpadding="5" cellspacing="1" align="center"
|-
| style="width:20%" |'''ہمزہ'''
| style="width:80%" | '''ہمزہ کا استعمال'''<br />
اردو میں ہمزہ کے استعمال کے بارے میں یہ آسان سا اصول نظر میں رہنا چاہیے:<br />
جس لفظ میں بھی دو مُصوّتے (حرفِ علّت یا حرکات) ساتھ ساتھ آئیں اور اپنی اپنی آوازیں (پوری یا جزوی) دیں، وہاں ہمزہ لکھا جائے، جیسے:<br />
کو+ئی، جا+ئے، کھا+ؤ، دکھا+ئیں، نا+ئی، لکھن+ؤ، غا+ئب، فا+ئدہ، جا+ؤں، جا+ئز
 
اس بات کو بقول ڈاکٹر عبد السّتار صدیقی یوں بھی سمجھ سکتے ہیں کہ اردو میں ہمزہ لفظ کے درمیان الف متحرک کا قائم مقام ہے۔ (مثلاً عزرا+ئیل، سا+ئیس، جا+ئز، جا+ؤں، وغیرہ)<br />
'''ہمزہ اور الف'''<br />
عربی کے متعدد مصادر، جمعوں اور مفرد الفاظ کے آخر میں اصلاً ہمزہ ہے، جیسے:<br />
ابتداء، انتہاء، املاء، انشاء، شعراء، حکماء، ادباء، علماء، فقراء، وزراء
 
اردو میں یہ لفظ الف سے بولے جاتے ہیں۔ اس لیے انھیں ہمزہ کے بغیر لکھنا چاہیے:<br />
ابتدا، انتہا، املا، انشا، شعرا، حکما، ادبا، علما، فقرا، وزرا
 
البتہ اگر ایسا لفظ کسی ترکیب کا حصہ ہو تو ہمزہ کے ساتھ جوں کا توں لکھنا چاہیے:<br />
انشاء اللہ، ضیاءُ الرحمٰن، ذکاءُ اللہ، ثناءُ الحق، ثناءُ اللہ، بہاءُ اللہ، ضیاءُ الدین، علاءُ الدین<br />
'''جُرات، تَاثُّر، مورِّخ، موثِّر'''<br />
عربی میں ان الفاظ پر ہمزہ لکھا جاتا ہے۔ اگر عربی کی تقلید کرتے ہوئے ایسے الفاظ پر ہمزہ لکھا جائے (جیسے جُرأت، تَأثُّر، تأسُّف، مؤرِّخ، تأمُّل) تو اسے اردو میں غلط نہ سمجھا جائے۔ لیکن ہماری سفارش یہ ہے کہ یہ لفظ اردو میں عموماً ہمزہ کے بغیر لکھے جاتے ہیں، اس لیے انھیں ہمزہ کے بغیر لکھنا بھی صحیح سمجھا جائے:<br />
جرات، تاثّر، تاسّف، مورّخ، تامّل، متاثّر، موثّر، متاہّل، موذّن، مودّب، مونّث<br />
'''ہمزہ اور واؤ'''<br />
ڈاکٹر عبد السّتار صدیقی نے افعال آؤ، جاؤ اور حاصل مصدر بناو (سنگھار) اور (رکھ) رکھاو کے تلفظ میں فرق کیا ہے اور حاصل مصدر بناو، رکھاو وغیرہ کو ہمزہ کے بغیر لکھنے کی سفارش کی ہے، ہماری رائے ہے کہ ہندی میں تو بے شک ایسے لفظ آخری واؤ سے بولے جاتے ہیں، لیکن اردو بول چال میں افعال آؤ، جاؤ، پاؤ، کھاؤ اور حاصل مصدر بناؤ، پاؤ (سیر)، رکھاؤ، بچاؤ ایک ہی طرح بولے جاتے ہیں، یعنی ان سب میں دوہرے مصوّتے کی آواز آتی ہے۔ اس لیے ان کا فرق غیر ضروری ہے اور یہی چلن بھی ہے۔ چنانچہ ایسے تمام لفظوں میں ہمزہ لکھنا چاہیے:<br />
'''اسما:''' الاؤ، اود بلاؤ، پلاؤ، تاؤ، چاؤ، راؤ، گاؤ، باؤ گولا، گھماؤ<br />
'''حاصل مصدر:''' بچاؤ، بہاؤ، پتھراؤ، بہاؤ، دباؤ، گھماؤ، پھراؤ، الجھاؤ، چھڑکاؤ، چناؤ، جھکاؤ، سمجھاؤ، بناؤ سنگار، بھاؤ، تاؤ، گھاؤ، جماؤ (جماؤ امر اور جماؤ حاصل مصدر کی آواز میں کوئی فرق نہیں)<br />
'''امر:''' (امر کی سب شکلیں ہمزہ کے ساتھ صحیح ہیں) آؤ، جاؤ، لاؤ، کھاؤ، اڑاؤ<br />
'''پانو، چھانو؛ پاؤں، چھاؤں'''<br />
ان الفاظ کی بحث کے لیے ملاحظہ ہو "نون اور نون غُنّہ" کی ذیلی سرخی<br />
'''ہمزہ یا ی'''<br />
ہمزہ کے سلسلے میں ایک بڑی دقّت یہ ہے کہ چاہیے میں ہمزہ کیوں نہیں لکھنا چاہیے اور جائیے میں کیوں لکھنا چاہیے، یا کئی، گئے اور گئی کو تو ہمزہ سے لکھا جاتا ہے، لیکن کیے، لیے، اور دیے کو ہمزہ سے کیوں نہ لکھا جائے؟ واقعہ یہ ہے کہ کسرہ اور اعلان کی ی (نیم مصوّتہ ی) کا مخرج ساتھ ساتھ ہے۔ چنانچہ چاہِ+یے، لِ+یے، دِ+یے میں بالتّرتیب ہ، ل اور د کے زیر کے بعد دوسرے مصوّتے تک جانے سے پہلے زبان ی کے مخرج سے گزرتی ہے، جس سے ی کا شائبہ پیدا ہو جانا لازمی ہے۔ اس کے بر عکس کَ+ئی، گَ+ئے، گَ+ئی میں کسرہ نہیں بلکہ زبر ہے۔ اس لیے ی کے شائبے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ان میں دو مصوّتے ساتھ ساتھ آئے ہیں، اور یہ طے ہے کہ جہاں دو مصوّتے ساتھ ساتھ آئیں، وہاں ہمزہ لکھنا چاہیے۔<br />
اب اس سلسلے میں اصول یہ ہوا:<br />
اگر حرفِ ما قبل مکسور ہے تو ہمزہ نہیں آئے گا، ی لکھی جائے گی، جیسے کِیے، دِیے، لِیے، جِیے، سنیے، چاہِیے<br />
 
فعل کی تعظیمی صورتیں دیجِیے و لیجِیے اسی اصول کے تحت ی سے لکھی جائیں گی:<br />
دیجِیے، لیجِیے، کیجِیے، اُٹھیے، بولِیے، بیٹھِیے، کھولِیے، تولِیے
باقی تمام حالتوں میں ہمزہ لکھا جائے گا۔<br />
 
وہ تمام فعل جن کے مادّے کے آخر میں الف یا واؤ آتا ہے، اس اصول کے تحت ہمزہ سے لکھے جائیں گے۔ ان میں ایک حرفِ علّت تو مادّے کا، دوسرا تعظیمی لاحقے اِیے کا، (فرما اِیے، جا اِیے) مل کر اپنی اپنی آواز دیتے ہیں، اس لیے ہمزہ کے استعمال کا جواز پیدا ہو جاتا ہے:<br />
فرمائیے، جائیے، آئیے، کھوئیے، سوئیے
اسی طرح گئے، گئی، نئے میں یائے سے پہلا حرف مفتوح ہے۔ چنانچہ ان لفظوں کو بھی ہمزہ سے لکھنا صحیح ہے۔<br />
'''ہمزہ اور ے'''<br />
ذیل کے الفاظ میں الف اور یائے دوہرے مصوّتے کے طور پر بولے جاتے ہیں، اس لیے ان میں ہمزہ لکھنا صحیح ہے:<br />
گائے (اسم)، گائے (گانا سے)، پائے (اسم)، پائے (پانا سے)، رائے (بہادر)، رائے (صاحب)، چائے
(اردو بول چال میں گائے (اسم) اور گائے (مضارع گانا سے) کے تلفظ میں کوئی فرق نہیں)<br />
 
ذیل کے لفظ بھی بالعموم دوہرے مصوّتے سے بولے جاتے ہیں، اس لیے ان کو بھی ہمزہ سے لکھنا مناسب ہے:<br />
جائے، بجائے، سوائے، نائے، سرائے، رائے (عامّہ)، واؤ، یائے<br />
'''آزمائش، نمائش'''<br />
فارسی کے وہ حاصل مصدر جن کے آخر میں ش ہوتا ہے، اردو میں دوہرے مصوّتے کے ساتھ بولے جاتے ہیں۔ اس لیے ان کو ہمزہ سے لکھنا صحیح ہے۔ فارسی میں البتہ آزمایش، نمایش لکھنا مناسب ہے، لیکن اردو میں ان کے تلفظ میں ی کی آواز کا شائبہ تک نہیں۔ اردو میں ان کو ی سے لکھنے پر اصرار کرنا محض فارسی کی نقّالی ہے۔ اردو میں ان الفاظ کو ہمزہ سے لکھنا ہی صحیح ہے، اور چلن بھی یہی ہے:<br />
آزمائش، نمائش، آسائش، ستائش<br />
 
اسی طرح ذیل کے الفاظ کو ی سے لکھا جاتا ہے۔ ان کا صحیح املا ہمزہ ہی سے ہے:<br />
آئندہ، نمائندہ، پائندہ، نمائندگی، سائل، شائع، شائق، قائم، دائم، مائل<br />
'''ہمزہ اور اضافت'''<br />
ہمزہ اور اضافت کے تین نہایت آسان اصول درج کیے جاتے ہیں جو لفظوں کی تمام صورتوں کو کافی ہیں:<br />
1۔ اگر مضاف کے آخر میں ہائے خفی ہے تو اضافت ہمزہ سے ظاہر کرنی چاہیے:<br />
خانۂ خدا، جذبۂ دل، نغمۂ فردوس، نالۂ شب، نشۂ دولت، جلوۂ مجاز، تشنۂ کربلا، نذرانۂ عقیدت<br />
 
2۔ اگر مضاف کے آخر میں الف، واؤ یا یائے ہے تو اضافت ئے سے ظاہر کرنی چاہیے:<br />
اردوئے معلیٰ، صدائے دل، نوائے ادب، کوئے یار، بوئے گل، دعائے سحری، دنیائے فانی، گفتگوئے خاص<br />
 
بعض حضرات ایسی ترکیبوں میں ہمزہ استعمال نہیں کرتے لیکن در حقیقت مضاف اور مضاف الیہ یا موصوف اور صفت کی درمیانی آواز جو مختصر مصوّتہ ہے، وہ ما قبل کے طویل مصوّتے (الف یا واؤ) سے مل کر دوہرا مصوّتہ بن جاتا ہے۔ اصول ہے کہ جہاں دوہرا مصوّتہ ہوگا وہاں ہمزہ لکھا جائے گا۔ چنانچہ ایسی ترکیبوں میں ہمزہ لکھا جائے گا جو چلن ہے، اسے جائز سمجھنا چاہیے۔ البتہ فارسی کا معاملہ الگ ہے۔ (فارسی میں نوای ادب یا بوی گل لکھنا صحیح ہے۔)<br />
 
ی یا ے پر ختم ہونے والے الفاظ بھی اسی طرح ہمزہ ہی سے مضاف ہوں گے کیونکہ یہ بھی دوہرے مصوّتے سے بولے جاتے ہیں:<br />
شوخئ تحریر، زندگئ جاوید، رنگینئ مضمون، مئے رنگین، رائے عامّہ، سرائے فانی، تنگ نائے غزل، والئ ریاست، گیسوئے شب<br />
 
3۔ باقی تمام حالتوں میں اضافت کسرہ سے ظاہر کی جائے گی، جیسے:<br />
(الف) مصمتوں یعنی حرف صحیح پر ختم ہونے والے الفاظ:<br />
دلِ درد مند، دامِ موج، گلِ نغمہ، آہِ نیم شبی، ماہِ نو، لذتِ تقریر، نقشِ فریادی، دستِ صبا، دودِ چراغِ محفل، حسنِ توبہ شکن، شمعِ روشن، طبعِ رسا، شعاعِ زریں، نفعِ بے بہا<br />
 
(ب) نیم مصوّتہ واؤ پر ختم ہونے والے الفاظ:<br />
ذیل کے الفاظ جب مضاف ہوتے ہیں تو آخری واؤ چونکہ نیم مصوّتے کے طور پر ادا ہوتی ہے، اس لیے ایسے الفاظ میں اضافت کو کسرہ سے ظاہر کرنا چاہیے:<br />
پرتوِ خیال، جزوِ بدن، ہجوِ ملیح، عفوِ بندہ نواز<br />
 
(ج) ہمزہ جزوِ آخر<br />
درج ذیل الفاظ جن میں ہمزہ لفظ کے آخر میں آتا ہے، ان میں اضافت کو ہمزہ کے بعد کسرہ لگا کر ظاہر کرنا مناسب ہے:<br />
سوءِ ظن، مبدءِ اوّل، سوءِ ہضم، سوءِ ادب<br />
لیکن سوئے ظن، سوئے ہضم، سوئے ادب وغیرہ کو غلط نہ سمجھا جائے۔<br />
'''ہمزہ اور واؤ عطف'''<br />
عطف کے واؤ پر کسی بھی صورت ہمزہ نہیں لکھا جاتا:<br />
وفا و جفا، ہوا و ہوس، زندگی و موت، مے و جام، سادہ و پرکار، شمع و پروانہ<br />
'''ہُوا (ہونا کا ماضی)'''<br />
اس میں دو مصوّتے ساتھ ساتھ ہیں (و+ا)۔ قدیم املا میں ہمزہ ملتا ہے لیکن اب رائج نہیں، اس لیے اس لفظ کا صحیح املا بغیر ہمزہ مان لینا چاہیے۔
|}