"علاؤ الدین عالم شاہ" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
سطر 3:
==عہد حکومت==
عالم شاہ [[جنوری]] [[1446ء]] میں تخت نشیں ہوا۔ عالم شاہ رموزِ سلطنت و کارہائے حکومت سے ناواقف تھا۔ عالم شاہ کی بزدلی کا اندازہ اِس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ [[850ھ]]/ [[1446ء]] میں جب یہ بیانہ کی تسخیر کے لیے روانہ ہوا تو کسی نے یہ افواہ اُڑا دی کہ جونپور کا حاکم [[دہلی]] فتح کرنے آ رہا ہے، یہ سنتے ہی اُس کے دل پر کچھ ایسا خوف طاری ہوا کہ راستے سے بھاگتا ہوا واپس [[دہلی]] چلا آیا۔ عالم شاہ کو [[بدایوں]] پسند تھا۔ چنانچہ جب یہ [[851ھ]]/ [[1447ء]] میں [[بدایوں]] گیا تو ایک مدت تک وہیں مقیم رہا اور بہت دیر بعد [[دہلی]] واپس آیا۔ عالم شاہ کے عہدِ حکومت میں [[سلطنت دہلی]] میں طوائف الملوکی پھیل گئی اور [[سلطنت دہلی]] کے اکثر صوبے اور علاقے اقتدار سے نکل گئے۔ عالم شاہ کی حکومت بس بارہ میل کے دائر تک محیط ہوچکی تھی۔ گجرات، [[سندھ]]، مالوہ، [[ملتان]]، [[خطۂ پنجاب]]، بنگال، جونپور، [[گوالیار]]، دھولپور، بھدورا، سنبھل، نارنول، بیانہ، بہار، غرضیکہ ہر ریاست اور صوبے میں خودمختار گورنر حکومت کرنے لگے۔ عالم شاہ کی کمزوری کو دیکھتے ہوئے [[851ھ]]/ [[1447ء]] میں دوبارہ [[دہلی]] پر حملہ کیا لیکن اُسے کامیابی نہ ہوسکی۔
 
عالم شاہ نے استحکام سلطنت کی طرف توجہ مبذول کی تو قطب خاں، عیسیٰ خاں اور رائے پرتاپ سے مشورہ کیا۔ یہ امرا تو چاہتے تھے کہ عالم شاہ کو بدتر حالت میں دیکھیں۔ لہٰذا اِن لوگوں نے یہ مشورہ کیا کہ حمید خاں کو اگر عہدہ وزارت سے معزول کردیا جائے تو حالات درست ہوجائیں گے کیونکہ رعیت اُس سے بہت ناراض ہے۔ عالم شاہ کو عقل و فہم اور دور اندیشی سے کوئی واسطہ نہ تھا، اِسی لیے اُس نے امراء کا یقین کرلیا اور حمید خاں کو قید کروا دیا اور خود [[بدایوں]] جا کر اقامت اختیار کرلی۔ عالم شاہ نے [[دہلی]] کی بجائے [[بدایوں]] کو دارالسلطنت بنانا چاہا لیکن حسام خان نے اِس بار بھی یہی سمجھا کہ [[دہلی]] پایہ تخت ہے، اب اِس کو [[بدایوں]] منتقل کرنا نامناسب ہے۔ لیکن عالم شاہ نے کسی کی بات پر غور نہ کیا اور حسام خاں کی طرف سے رنجیدہ خاطر ہوا۔ عالم شاہ حسام خاں سے الگ ہوگیا اور خود [[852ھ]] کے آخری مہینوں میں [[بدایوں]] چلا گیا۔ عالم شاہ اپنی بیوں کے ہمراہ [[بدایوں]] منتقل ہوا تو [[دہلی]] میں طوائف الملوکی عام ہوگئی، خونریزی کے واقعات بڑھتے گئے یہاں تک کہ عالم شاہ کے دو سالے بھی اِنہی واقعات و ہنگاموں میں قتل ہوگئے۔ مگر عالم شاہ بدستوں اپنی رنگ رلیوں میں مصروف رہا۔ عالم شاہ کے [[بدایوں]] قیام کے دوران رائے پرتاب نے اُسے یہ بات باور کروائی کہ اگر حمید خاں کو قتل کردیا جائے تو [[دہلی]] کے حالات درست ہوسکتے ہیں اور سب فوراً مطیع ہوسکتے ہیں۔ عالم شاہ نے حمید خان کے قتل کا حکم جاری کردیا۔ حمید خاں کو عالم شاہ نے قید کروا دیا تھا، جب اُس کے ساتھیوں کو پتا چلا کہ عالم شاہ [[بدایوں]] منتقل ہوگیا تو اُنہوں نے قید خانہ پر حملہ کرکے حمید خاں کو آزاد کروا لیا۔ حمید خان رہا ہوتے ہی حرم شاہی میں داخل ہوگیا اور عالم شاہ کی بہو بیٹیوں کی خوب بے عزتی کی اور عالم شاہ کے بیٹوں، بیٹیوں، بیویوں اور خاندان کے دوسرے افراد کو کو محل سے برہنہ سر کرکے نکال دیا اور شاہی خزانہ پر قبضہ کرلیا اور [[بہلول لودھی]] کو [[دہلی]] پر حملہ آور ہونے کی دعوت دی۔ [[بہلول لودھی]] جس نے [[1447ء]] میں پہلے حملہ کیا تھا کہ [[سلطنت دہلی]] کو اپنے ہاتھوں میں لے سکے، اب کی بار موقع پاتے ہی اُس نے [[دہلی]] پر حملہ کردیا۔ [[854ھ]]/ [[1450ء]] میں [[بہلول لودھی]] [[دہلی]] پر قابض ہوگیا اور پنجاب اور دیپالپور کو فتح کرلینے کے بعد واپس [[دہلی]] آیا تو عالم شاہ نے ایک خط کے ذریعہ سے اپنی دستبرداری ظاہر کردی اور [[سلطنت دہلی]] کی باگ دوڑ [[بہلول لودھی]] کو سونپ دی اور خود [[بدایوں]] میں مقیم رہا۔<ref>مفتی شوکت علی فہمی: ہندوستان پر اسلامی حکومت، ص 210/211۔</ref><ref>ابو القاسم فرشتہ: تاریخ فرشتہ، جلد 2، ص 383/384۔</ref>
 
==مزید دیکھیں==