"سورہ النجم" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م درستی املا بمطابق فہرست املا پڑتالگر
م درستی املا بمطابق فہرست املا پڑتالگر
سطر 39:
== تاریخی پس منظر ==
 
زمانہ نزول کی اس تفصیل سے معلوم ہو جاتا ہے کہ وہ کیا حالات تھے جن میں یہ سورت نازل ہوئی۔ ابتدائے [[بعثت]] کے بعد سے پانچ سال تک رسول اللہ {{درود}} صرف نجی صحبتوں اور مخصوص مجلسوں ہی میں اللہ کا کلام سنا سنا کر لوگوں کو اللہ کے دین کی طرف دعوت دیتے رہے تھے۔ اس پوری مدت میں آپ کو کبھی کسی مجمع عام میں قرآن سنانے کا موقع نہ مل سکا تھا، کیونکہ کفار کی سخت مزاحمت اس میں مانع تھی۔ ان کو اس امر کا خوب اندازااندازہ تھا کہ آپ کی شخصیت اور آپ کی تبلیغ میں کس بلا کی کشش، اور قرآن مجید کی آیات میں کس غضب کی تاثیر ہے۔ اس لیے وہ کوشش کرتے تھے کہ اس کلام کو نہ خود سنیں، نہ کسی کو سننے دیں، اور آپ کے خلاف طرح طرح کی غلط فہمیاں پھیلا کر محض اپنے جھوٹے پروپیگنڈے کے زور سے آپ کی دعوت کو دبا دیں۔ اس غرض کے لیے ایک طرف تو وہ جگہ جگہ یہ مشہور کرتے پھر رہے تھے کہ محمد {{درود}} بہک گئے ہیں اور لوگوں کو گمراہ کرنے کے درپے ہیں۔ دوسری طرف ان کا یہ مستقل طریق{{زیر}} کار تھا کہ جہاں بھی آپ قرآن سنانے کی کوشش کریں وہاں شور مچا دیا جائے تاکہ لوگ یہ جان ہی نہ سکیں کہ وہ بات کیا ہے جس کی بنا پر آپ کو گمراہ اور بہکا ہوا آدمی قرار دیا جا رہا ہے۔
 
ان حالات میں ایک روز رسول اللہ {{درود}} حرم پاک میں، جہاں قریش کے لوگوں کا ایک بڑا مجع موجود تھا، یکا یک تقریر کرنے کھڑے ہو گئے اور اس وقت اللہ تعال{{ا}}ی کی طرف سے آپ کی زبان{{زیر}} مبارک پر یہ خطبہ جاری ہوا جو سورہ نجم کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔ اس کلام کی شدت تاثیر کا یہ حال تھا کہ جب آپ نے اسے سنانا شروع کیا تو مخالفین کو اس پر شور مچانے کا ہوش ہی نہ رہا، اور خاتمے پر جب آپ نے سجدہ فرمایا تو وہ بھی سجدے میں گر گئے۔ بعد میں انہیں سخت پریشانی لاحق ہوئی کہ یہ ہم سے کیا کمزوری سر زد ہوگئی، اور لوگوں نے بھی انہیں اس پر مطعون کرنا شروع کیا کہ دوسروں کو تو یہ کلام سننے سے منع کرتے تھے، آج خود اسے نہ صرف کان لگا کر سنا بلکہ محمد {{درود}} کے ساتھ سجدہ بھی کر گذرے۔ آخر کار انہوں نے یہ بات بنا کر اپنا پیچھا چھڑایا کہ صاحب ہمارے کانوں نے ''افرءیتم الل{{ا}}ت و العز{{ا}}ی، و من{{ا}}وۃ الثالثۃ'' کے بعد محمد کی زبان سے یہ الفاظ سنے تھے ''تلک الغرانقۃ العل{{ا}}ی، و ان شفاعتھن لترج{{ا}}ی'' (یہ بلند مرتبہ دیویاں ہیں اور ان کی شفاعت ضرورت متوقع ہے)، اس لیے ہم نے سمجھا کہ محمد ہمارے طریقے پر واپس آ گئے ہیں، حالانکہ کوئی پاگل آدمی ہی یہ سوچ سکتا تھا کہ اس پوری سورت کے سیاق و سباق میں ان فقروں کی بھی کوئی جگہ ہو سکتی ہے جو ان کا دعوی{{ا}} تھا کہ ان کے کانوں نے سنے ہیں۔