"جنگ جمل" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م درستی املا بمطابق فہرست املا پڑتالگر
سطر 58:
"اپنے اصحاب کی سرزنش کرتے ہوئے(قوم)کب تک میں تمھارے ساتھ نرمی کا برتاؤ کروں خد ا کی قسم ذلیل وہی ہوگا جس کے تم جیسے مددگار ہوں گے۔خدا تمھارے چہروں کو ذلیل کرے۔"(صفحہ 119)
"خدا گواہ ہے کہ مجھے یہ بات پسند ہے کہ معاویہ مجھ سے درہم و دینار کا سودا کرلے کہ تم میں سے دس لے کر ایک دے دے۔(صفحہ 189)
اس طرح کے اقوال سے جو علی سے منسوب نہج البلاغہ میں بکھرے پڑے ہیں، کو پڑھ کر بخوبی اندازااندازہ ہوتا ہے کہ علی بھی اپنی فوج کے باغیوں سے تنگ تھے اور ان کا مکر و فریب اور ان کی بغاوت کو خوب جانتے تھے لیکن بے بس تھے۔
مورخوں نے ایک اور واقعہ کا ذکر کیا ہے۔ جنگِ جمل سے قبل یا فوراً بعد کچھ مخلص مسلمانوں نے علی رضی اللہ تعالی عنہ سے شکایت کی کہ قاتلینِ عثمان رضی اللہ تعالی عنہ ان کی فوج میں آزادی سے پھر رہے ہیں اور وہ ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کر رہے۔ اس پر علی رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنے آدمیوں سے پوچھا کہ قاتلینِ عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کون ہیں؟ کم و بیش 12 ہزار آدمی اٹھ کر کھڑے ہوئے اور چلاچلا کر کہنےلگے "میں ہوں۔ میں ہوں۔"<ref>[http://ebooks.i360.pk/2013/11/06/jang-jamal-aur-jang-sufain-ka-yahudi/ جنگ جمل اور جنگ صفین کا یہودی پس منظر]</ref> یہاں اس حقیقت کو تسلیم کئے بغیر چارہ نہیں کہ قاتلان عثمان کی گرفتاری کے لیے اپنی نیک دلی کے باوجود علی رضی اللہ تعالی عنہ کو وہ آزادی حاصل نہیں تھی جو ایک حکمران کو حاصل ہونی چاہئیے۔