"زحل" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م درستی املا بمطابق فہرست املا پڑتالگر
سطر 5:
زحل، یورینس، نیپچون اور مشتری کو مشترکہ طور پر گیسی دیو بھی کہا جاتا ہے۔ ان سیاروں کو مشتری نما بھی کہا جاتا ہے۔ زحل کا مدار زمین کے مدار کی نسبت 9 گنا بڑا ہے۔ تاہم اس کی اوسط کثافت زمین کی کثافت کا آٹھواں حصہ ہے۔ تاہم کمیت میں یہ سیارہ زمین سے 95 گنا بڑا ہے۔
 
زحل کی کمیت اور نتیجتاً اس کی کششِ ثقل کی وجہ سے زمین کی نسبت زحل کے حالات بہت شدید ہوتے ہیں۔ اندازااندازہ ہے کہ زحل کے اندر لوہا، نکل، سیلیکان اور آکسیجن کے مرکبات پائے جاتے ہیں۔ ان کے گرد دھاتی ہائیڈروجن موجود ہے جبکہ ان کے درمیان مائع ہائیڈروجن اور مائع ہیلئم پائی جاتی ہے۔ بیرونی سطح گیسوں سے بنی ہے۔ دھاتی ہائیڈروجن میں بہنے والی برقی رو کی وجہ سے زحل کا مقناطیسی میدان پیدا ہوتا ہے جو زمین کی نسبت کچھ کمزور ہے۔ بیرونی فضاء زیادہ تر کمزور ہے تاہم طویل المدتی اثرات ہو سکتے ہیں۔ ہوا کی رفتار 1٫800 کلومیٹر فی گھنٹہ تک پہنچ سکتی ہے جو مشتری سے بھی زیادہ ہے۔
 
زحل کے گرد نو دائرے ہیں جو زیادہ تر برفانی ذرات سے بنے ہیں جبکہ کچھ پتھر اور دھول بھی موجود ہے۔ زحل کے گرد 62 چاند دریافت ہو چکے ہیں جن میں سے 53 کو باقائدہ نام دیا جا چکا ہے۔ اس کے علاوہ چاند نما اجسام بھی ان دائروں میں موجود ہیں جن کی تعداد سینکڑوں میں ہے۔ زحل کا سب سے بڑا چاند ٹائیٹن ہے اور یہ ہمارے نظامِ شمسی کا دوسرا بڑا چاند ہے۔ یہ چاند عطارد سے بڑا ہے اور ہمارے نظام شمسی کا واحد چاند ہے جہاں مناسب مقدار میں فضاء موجود ہے۔
سطر 11:
کم کثافت، تیز رفتاری اور مائع حالت کی وجہ سے زحل چپٹا دائرے نما ہے۔ اس وجہ سے قطبین پر زحل پھیلا ہوا جبکہ خطِ استوا پر باہر کو نکلا ہوا ہے۔ دیگر گیسی دیو بھی اسی شکل کے ہیں۔ زحل ہمارے نظامِ شمسی کا واحد سیارہ ہے جو پانی سے کم کثافت رکھتا ہے۔ زحل کا وزن زمین سے 95 گنا زیادہ ہے۔
=== اندرونی ڈھانچہ ===
زحل کے اندرونی ڈھانچے کے بارے براہ راست کوئی معلومات نہیں لیکن اندازااندازہ ہے کہ یہ مشتری سے مماثل ہے یعنی اس کے اندر چھوٹا سا دھاتی مرکزہ ہے جس کے گرد ہائیڈروجن اور ہیلئم موجود ہے۔ یہ دھاتی مرکزہ زمین کے دھاتی مرکزے کے مماثل لیکن کم کثیف ہے۔ اس کے گرد دھاتی ہائیڈروجن مائع حالت میں موجود ہے جس کے بعد مائع شکل میں ہائیڈروجن اور ہیلئم پائے جاتے ہیں۔ اس کے بعد 1٫000 کلومیٹر کی فضاء موجود ہے۔ آتشگیر مواد بھی معمولی مقدار میں یہاں پائے جاتے ہیں۔ مرکزہ زمین کے کل وزن سے 9 سے 22 گنا زیادہ بھاری ہے۔ زحل کا اندرونی حصہ زمین کی نسبت بہت زیادہ گرم ہے جو 11٫700 ڈگری کے لگ بھگ ہے۔ زحل سورج سے آنے والی جتنی توانائی جذب کرتا ہے اس سے اڑھائی گنا زیادہ توانائی زحل خلاء میں خارج کرتا ہے۔
 
=== فضاء ===
سطر 18:
ہیلئم سے زیادہ بھاری عناصر کی مقدار کے بارے یقین سے نہیں کہا جا سکتا۔
=== بادلوں کی تہیں ===
زحل کی فضاء مشتری کی طرح پٹیوں سے مل کر بنی ہے تاہم زحل کی یہ پٹیاں بہت دھندلی ہیں اور خط استوا کے نزدیک زیادہ پھیلی ہوئی ہیں۔ گہرائی میں یہ 10 کلومیٹر تک پھیلی ہوئی ہیں اور درجہ حرارت منفی 23 ڈگری سینٹی گریڈ ہے اور یہ پٹی یا تہہ پانی کی برف سے بنی ہے۔ اس تہہ کے اوپر اندازااندازہ ہے کہ امونیئم ہائیڈرو سلفائیڈ کی برف موجود ہے جو 50 کلومیٹر پر محیط ہے اور اس کا درجہ حرارت منفی 93 ڈگری ہے۔ اس کے اوپر 80 کلومیٹر تک امونیا کے بادل موجود ہیں جن کا درجہ حرارت منفی 153 ڈگری ہے۔ فضاء کے اوپر 200 سے 270 کلومیٹر کے علاقے میں ہائیڈروجن اور ہیلئم موجود ہیں۔ زحل کی ہوائیں ہمارے نظامِ شمسی کی تیز ترین ہیں۔ وائجر کے بھیجے گئے ڈیٹا سے پتہ چلتا ہے کہ مشرق کی سمت تیز ترین ہوائیں 1٫800 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چل رہی تھیں۔ اس وقت زمینی دوربینیں اتنی طاقتور ہو چکی ہیں کہ اب ہم زمین سے زحل کے بادلوں کو براہ راست دیکھ سکتے ہیں۔
 
زحل کے بے رنگ موسم میں کبھی کبھار طویل المدتی تبدیلی آتی ہے۔ 1990 میں ہبل خلائی دور بین نے استوا کے قریب ایک بڑا سفید بادل دیکھا جو وائجر کے سفر میں دکھائی نہیں دیا تھا۔ 1994 میں ایک اور چھوٹا طوفان دکھائی دیا۔ اس طرح کے طوفان زحل پر ہر سال آتے ہیں۔ زحل کا ایک سال زمین کے 30 سالوں کے برابر ہوتا ہے۔ اس سے قبل 1876، 1903، 1933 اور 1960 میں اس طرح کے طوفان بھی دیکھے گئے ہیں۔ 1933 کا طوفان مشہور ترین ہے۔ اگر یہ سلسہ اسی طرح جاری رہا تو اندازااندازہ ہے کہ 2020 میں اگلا طوفان آئے گا۔
 
کیسینی خلائی جہاز کی بھیجی ہوئی تصاویر کے مطابق زحل کا شمالی نصف کرہ یورینس کی طرح چمکدار نیلے رنگ کا تھا تاہم اس وقت زمین سے اس کا براہ راست مشاہدہ نہیں کیا جا سکتا تھا کیونکہ زحل کے دائرے راستے میں آ جاتے تھے۔
سطر 30:
زحل کو اس کے حلقوں کی وجہ سے زیادہ جانا جاتا ہے جو اسے ہمارے نظام شمسی کا منفرد ترین سیارہ بناتے ہیں۔ یہ حلقے زحل کے خطِ استوا سے 6٫630 سے لے کر 1٫20٫700 کلومیٹر اوپر تک پھیلے ہوئے ہیں۔ ان کی اوسط موٹائی 20 میٹر ہے اور 93 فیصد پانی کی برف اور 7 فیصد کاربن پر مشتمل ہیں۔ ان ذروں کا حجم دھول کے ذرے سے لے کر چھوٹی کار تک ہو سکتا ہے۔ ان حلقوں کے بارے دو آراء ہیں۔ پہلی رائے میں یہ حلقے کسی سابقہ چاند کی باقیات ہیں جبکہ دوسری رائے میں یہ حلقے اسی مادے کا بقیہ حصہ ہیں جس سے زحل بنا تھا۔ چند مرکزی حلقوں میں موجود برف زحل کے ایک چاند کے برفانی آتش فشانوں سے آئی ہے۔
== قدرتی چاند ==
زحل کے کم از کم 62 چاند ہیں۔ ٹائیٹن سب سے بڑا اور زحل کے گرد موجود تمام مادے کے 90 فیصد کے برابر ہے۔ اندازااندازہ ہے کہ دوسرے بڑے چاند ریا کے گرد اس کا اپنا حلقوں کا نظام ہے۔ دیگر چاندوں میں سے 34 کا قطر 10 کلومیٹر سے کم ہے اور بقیہ 14 ایسے ہیں جن کا قطر 50 کلومیٹر سے کم ہے۔ عام طور پر ان چاندوں کو یونانی دیومالائی داستان کے کرداروں پر نام دیا جاتا ہے۔
== مہم کی ابتداء ==
زحل کی چھان بین تین ادوار میں منقسم ہے۔ پہلے یعنی قدیم دور میں جب تمام تر مشاہدات انسانی آنکھ سے بغیر کسی آلے کی مدد کے کیے جاتے تھے جب دوربین ابھی ایجاد نہیں ہوئی تھی۔ 17ویں صدی سے بتدریج دوربینوں میں جدت پیدا ہونے لگی اور زمین سے دوربین کی مدد سے مشاہدات کیے جانے لگے۔ اس کے بعد خلائی جہاز جیسا کہ خلائی جہازوں کی مدد سے مشاہدات کیے جانے لگے۔
اخذ کردہ از «https://ur.wikipedia.org/wiki/زحل»