"سورہ روم" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
م درستی املا بمطابق فہرست املا پڑتالگر
سطر 40:
خسرو پرویز نے جس اخلاقی بہانے کو بنیاد بنا کر جنگ چھیڑی تھی، فوکاس کے عزل و قتل کے بعد وہ ختم ہو چکا تھا۔ اگر واقعی اس کی جنگ کا مقصد غاصب فوکاس سے اس کے ظلم کا بدلہ لینا ہوتا تو اس کے مارے جانے پر اسے نئے قیصر سے صلح کر لینی چاہیے تھی۔ مگر اس نے پھر بھی جنگ جاری رکھی اور اب اس جنگ کو اس نے [[مجوسیت]] اور [[عیسائیت|مسیحیت]] کی مذہبی جنگ کا رنگ دیا۔ عیسائیوں کے جن فرقوں کو [[رومی سلطنت]] کے سرکاری کلیسا نے ملحد قرار دے کر سالہا سال سے تختۂ ستم بنا رکھا تھا (یعنی [[نسطوری]] اور [[یعقوبی]] وغیرہ) ان کی ساری ہمدردیاں بھی مجوسی حملہ آوروں کے ساتھ ہو گئیں۔ اور [[یہودی|یہودیوں]] نے بھی مجوسیوں کا ساتھ دیا، حتی{{ا}} کہ خسرو پرویز کی فوج میں بھرتی ہونے والے یہودیوں کی تعداد 26 ہزار تک پہنچ گئی۔
 
ہرقل اس سیلاب کو نہ روک سکا۔ تخت نشین ہوتے ہی پہلی اطلاع جو اسے مشرق سے ملی وہ انطاکیہ پر ایرانی قبضے کی تھی۔ اس کے بعد 613ء میں [[دمشق]] فتح ہوا۔ پھر 613ء میں [[بیت المقدس]] پر قبضہ کرکے ایرانیوں نے مسیحی دنیا پر قیامت ڈھا دی۔ 90 ہزار عیسائی اس شہر میں قتل کیے گئے۔ ان کا سب سے مقدس کلیسا '''کینستہ القیامہ (Holy Sepulchre)''' برباد کر دیا گیا۔ [[صلیب اعظم]]، جس کے متعلق عیسائیوں کا عقیدہ تھا کہ اس پر مسیح نے جان دی تھی، مجوسیوں نے چھین کر [[مدائن]] پہنچا دی۔ لاٹ پادری زکریاء کوبھی وہ پکڑ لے گئے اور شہر کے تمام بڑے بڑے گرجوں کو انہوں نے مسمار کر دیا۔ اس فتح کا نشہ جس بری طرح خسرو پرویز پر چڑھا تھا اس کا اندازااندازہ اس خط سے ہوتا ہے جو اس نے بیت المقدس سے ہرقل کو لکھا تھا۔ اس میں وہ کہتا ہے:
{{اقتباس|سب خداؤں سے بڑے خدا، تمام روئے زمین کے مالک خسرو کی طرف سے اس کے کمینے اور بے شعور بندے ہرقل کے نام،
تو کہتا ہے کہ تجھے اپنے رب پر بھروسا ہے، کیوں نہ تیرے رب نے یروشلم کو میرے ہاتھ سے بچا لیا؟}}