"مشتری" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م درستی املا بمطابق فہرست املا پڑتالگر
سطر 297:
 
[[File:PIA02863 - Jupiter surface motion animation thumbnail 300px 10fps.ogv|right|thumb|اس متحرک تصویر میں مشتری پر گھڑیال موافق حرکت کرتے بادلوں کی پٹیاں دکھائی دے رہی ہیں: [[:File:PIA02863 - Jupiter surface motion animation thumbnail 720px 10fps.ogv|720 پکسل]]، [[:File:PIA02863 - Jupiter surface motion animation 1fps.ogv|1799 پکسل]].]]
بادلوں کی یہ تہہ تقریباً 50 کلومیٹر موٹی ہے اور اس میں دوتہیں ہیں۔ اوپری تہہ ہلکی جبکہ نچلی تہہ گہری اور بھاری ہے۔ مشتری پر چمکنے والی آسمانی بجلی سے اندازااندازہ ہوتا ہے کہ ان بادلوں کی تہہ کے نیچے پانی کے بادلوں کی بھی ہلکی تہہ موجود ہوگی<ref name="elkins-tanton">{{cite book
|first=Linda T.|last=Elkins-Tanton|year=2006
|title=Jupiter and Saturn|publisher=Chelsea House
سطر 305:
|title = Surprising Jupiter: Busy Galileo spacecraft showed jovian system is full of surprises
|publisher = NASA|accessdate = February 20, 2007}}</ref>۔ <br />
بادلوں کے رنگ نارنجی اور بھورے ہونے کی وجہ یہ ہے کہ یہ جس مادے سے بنے ہیں، وہ سورج کی بالائے بنفشی شعاعوں میں اپنا رنگ بدلتے ہیں۔ اندازااندازہ ہے کہ یہ بادل فاسفورس، گندھک اور شاید ہائیڈرو کاربن سے بنے ہوں<ref name="elkins-tanton" /><ref>{{cite conference
|author=Strycker, P. D.; Chanover, N.; Sussman, M.; Simon-Miller, A.
|title = A Spectroscopic Search for Jupiter's Chromophores
سطر 520:
تاحال مشتری کے مدار میں پہنچنے والا واحد خلائی جہاز گلیلیو ہے۔ یہ جہاز 7 دسمبر 1995 کو مدار میں پہنچا اور سات سال تک کام کرتا رہا۔ اس نے کئی بار تمام چاندوں کے گرد بھی چکر لگائے۔ اسی خلائی جہاز کی مدد سے شو میکرِلیوی 9 نامی دمدار ستارے کو مشتری پر گرتے دیکھا گیا جو ایک انتہائی نادر واقعہ ہے۔ اگرچہ گلیلیو سے بہت قیمتی معلومات ملیں لیکن ایک خرابی کی وجہ سے اس کا اصل اینٹینا کام نہیں کر سکا جس کی وجہ سے ڈیٹا بھیجنے کا عمل سخت متائثر ہوا<ref name="galileo">{{cite web|last = McConnell|first = Shannon |date= April 14, 2003|url = <!-- http://www2.jpl.nasa.gov/galileo/ -->http://solarsystem.nasa.gov/galileo/|title = Galileo: Journey to Jupiter|publisher = NASA Jet Propulsion Laboratory|accessdate = November 28, 2006}}</ref>۔
 
جولائی 1995 کو گلیلیو نے ایک مشین نیچے اتاری جو پیراشوٹ کی مدد سے 7 دسمبر کو مشتری کی فضاء میں اتری۔ اس نے کل 57.6 منٹ تک کام کیا اور 150 کلومیٹر نیچے اتری اور آخرکار انتہائی دباؤ کی وجہ سے ناکارہ ہو گئی۔ اس وقت اس پر پڑنے والا فضائی دباؤ زمین سے 22 گنا زیادہ اور درجہ حرارت 153 ڈگری سینٹی گریڈ تھا<ref>{{cite web|first = Julio|last = Magalhães|date = December 10, 1996|url = http://spaceprojects.arc.nasa.gov/Space_Projects/galileo_probe/htmls/probe_events.html|title = Galileo Probe Mission Events|publisher = NASA Space Projects Division|accessdate = February 2, 2007}}</ref>۔ اندازااندازہ ہے کہ پگھلنے کے بعد شاید تبخیر کا شکار ہو گئی ہو۔ 21 ستمبر 2003 کو گلیلیو کو بھی اسی مقصد کے لئے مشتری کے مدار سے سطح کی طرف گرایا گیا۔ اس وقت اس کی رفتار 50 کلومیٹر فی سیکنڈ تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ناسا نے یوروپا کو کسی قسم کی ملاوٹ سے پاک رکھنے کے لئے یہ فیصلہ کیا تاکہ خلائی جہاز راستے میں ہی تباہ ہو جائے۔ سائنسدانوں کا خیال ہے کہ یوروپا پر زندگی کے امکانات ہیں<ref name="galileo" />۔
=== مستقبل میں بھیجی جانے والی اور منسوخ شدہ مہمات===
مشتری کے قطبین کے بہتر مطالعے کے لئے ناسا جونو نامی کلائی جہاز [[2011]] میں بھیجنے لگا تھا جو [[2016ء]] میں واپس آتا<ref>{{cite web
سطر 617:
===چاندوں کی درجہ بندی===
[[File:Europa-moon.jpg|thumb|140px|مشتری کا [[قدرتی سیاے|چاند]] یوروپا۔]]
وائجر مہمات سے قبل مشتری کے چاندوں کو ان کے مدار کی خصوصیات کی وجہ سے چار چار کے چار گروہوں میں رکھا گیا تھا۔ لیکن بے شمار چھوٹے چاندوں کی دریافت کے بعد یہ تقسیم درست نہیں رہی۔ اب چھ اہم گروہ ہیں لیکن اندازااندازہ ہے کہ اس سے بھی زیادہ گروہ بنیں گے۔
 
ایک اور درجہ بندی یہ ہے کہ اندرونی آٹھ چاندوں کو ایک گروہ میں رکھا جائے جن کے مدار تقریباً گول اور خطِ استوا کے قریب ہیں اور خیال کیا جاتا ہے کہ وہ مشتری کے ساتھ ہی پیدا ہوئے تھے۔ باقی سارے چاند ایک ہی درجہ بندی میں آتے ہیں اور خیال ہے کہ وہ شہابیئے ہیں جنہیں مشتری نے اپنی طرف کھینچ لیا تھا۔ ان کی شکلیں اور مدار ایک جیسے ہیں اور عین ممکن ہے کہ وہ کسی دوسرے چاند کے ٹوٹنے سے بنے ہوں<ref>{{cite book|author=Jewitt, D. C.; Sheppard, S.; Porco, C.|editor=Bagenal, F.; Dowling, T.; McKinnon, W|year=2004|title=Jupiter: The Planet, Satellites and Magnetosphere|publisher=Cambridge University Press|isbn=0-521-81808-7|url =http://www.ifa.hawaii.edu/~jewitt/papers/JUPITER/JSP.2003.pdf|archiveurl =http://web.archive.org/web/20110714003048/http://www.ifa.hawaii.edu/~jewitt/papers/JUPITER/JSP.2003.pdf|archivedate =July 14, 2011|format=PDF}}</ref><ref>{{cite journal|author=Nesvorný, D.; Alvarellos, J. L. A.; Dones, L.; Levison, H. F.|title=Orbital and Collisional Evolution of the Irregular Satellites|journal=The Astronomical Journal|year=2003|volume=126|issue=1|pages=398–429|bibcode=2003AJ....126..398N|doi=10.1086/375461}}</ref>۔