"نظام الملک طوسی" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
گروہ زمرہ بندی: حذف از زمرہ:اشعری
م درستی املا بمطابق فہرست املا پڑتالگر
سطر 30:
جس طرح [[ہارون الرشید]] کا دور [[برامکہ]] کے تذکرے کے بغیر نامکمل ہے اسی طرح [[سلجوقی سلطنت|سلجوقیوں]] کا عہد '''نظام الملک طوسی''' کے ذکر کے بغیر ادھورا ہے۔ نظام الملک کا اصل نام حسن بن علی اور لقب نظام الملک تھا۔ وہ [[طوس]] کے ایک زمیندار علی کا بیٹا تھا۔ 408ھ میں پیدا ہوا اور بچپن سے ہی بہت ذہین اور کئی خوبیوں کا مالک تھا۔ اپنی ذہانت سے انتہائی کم عمری میں کئی علوم پر عبور حاصل کیا۔ سلجوقی عہد میں وزارت عظمی{{ا}} کے عہدے پر فائز ہوا۔ اس عہد کے تمام کارنامے نظام الملک کے تیس سالہ دور وزارت کے مرہون منت ہیں۔ یہ عہد سلجوقیوں کا درخشاں عہد کہلاتا ہے۔
الپ ارسلان جو ایک مجاہدانہ صفت رکھنے والا بادشاہ تھا نے اپنے کمسن بیٹےملک شاہ کو نظام الملک کے سپرد کردیا تا کہ وہ اسکی تربیت کرے اور عصری علوم کی تعلیم کے ساتھ ساتھ حکومت کرنے کے ڈھنگ بھی سکھائے۔ انہی دنوں گرجستان کی مہم پیش آئی جس کیلئے فوج کو نظام الملک کی سربراہی میں بھیجا گیا ۔ گرجستان والوں نے ہتھیار پھینک دئے اور مسلم فوج کی شرائط پر صلح کرلی۔ جارجیا کے بادشاہ بقراط کی بھتیجی ہیلینا جو ایک حسین و دلکش دوشیزہ تھی مگر راہبانہ زندگی گزاررہی تھی۔ خواجہ حسن نظام الملک اس سے شادی کرنے کا خواہش مند تھا مگر حالات کے برعکس اس شہزادی ہیلینا کو الپ ارسلان سے نکاح کیلئے مخصوص کرلیا گیا اور شرائط میں اس شرط کو بھی شامل کیا گیا جس پر عیسائی آبادی میں غم و غصہ پایا جانے لگا جبکہ دوسری طرف گرجستان کے اعلیٰ و شاہی خاندان کے نوجوان بھی شہزادی کے طالب تھے مگر اسکی راہبانہ زندگی کے پیش نظر اس سے مدعا بیان نہ کرسکتے تھے۔ شہزادی کوالپ ارسلان کے نکاح میں دے دیا گیا۔ کچھ عرصے بعد ایک گرجستانی شاعر جو الپ ارسلان کے دربار میں آیا ہوا تھا نے ایک قصیدہ موزوں کرکے گوش گزارنے کی اجازت طلب کی۔ الپ ارسلان نے اجازت دے دی تو اس گرجستانی شاعر نے انتہائی واہیات انداز میں شہزادی ہیلینا اور نظام الملک طوسی کی کردار کشی کی جس کے بعد الپ ارسلان نے اس شرط پر شہزادی ہیلینا کو طلاق دے دی کہ نظام الملک اس سے شادی کرے یا شہزادی گرجستان واپس چلی جائے مگر شہازدی نے واپس جانے سے اس بنا پر انکار کیا کہ اب میری وہاں پہلے والی عزت نہیں رہے گی اور یہ کہ وہ خود کو مسلمانوں میں محفوظ و مامون محسوس کرتی ہے لہذا اس نے نظام الملک سے شادی کرلی
سلجوقی سلطان [[الپ ارسلان]] نے نظام الملک کی صلاحیتوں کا اندازااندازہ لگاتے ہوئے وزارت کا منصب اس کے سپرد کردیا۔ اس نے الپ ارسلان کے عہد میں ایسے جوہر دکھائے کہ تہذیب و تمدن اور علوم و فنون کی ہزاروں شمعیں روشن ہوگئیں۔ اس نے ملک کو گوشے گوشے میں مدارس کا جال بچھا دیا اور سب سے بڑا اور اہم مدرسہ [[بغداد]] کا [[مدرسہ نظامیہ]] تھا جس کی تعمیر پر بے پناہ روپیہ صرف کیا گیا۔ اس کے علمی و ادبی کارناموں کی طویل فہرست کے ساتھ مذہبی اور دینی خدمات بھی بے شمار ہیں اور رفاہ عامہ کے کارنامے تاریخ پر انمٹ نقوش ثبت کرتے ہیں۔ اس کی تحریر کردہ کتاب "سیاست نامہ" کو انتہائی شہرت حاصل ہوئی اور اس سے آج بھی استفادہ کیا جاتا ہے۔ اس کتاب کا ترجمہ [[یورپ]] کی مختلف زبانوں میں ہوچکا ہے۔
 
عروج کی انتہائی بلندیوں تک پہنچنے کے بعد برامکہ کی طرح اس کی قسمت کا ستارہ بھی زوال میں آگیا اور [[ملک شاہ اول]] نے اسے وزارت سے علاحدہ کردیا۔ زوال کے اسباب بھی برامکہ کے اسباب کی طرح تھے۔ بہرحال اس کے کارنامے سلجوقی حکومت کے لئے لاتعداد ہیں بلکہ اس درخشاں دور کی کامیابیاں سلجوقی سلاطین کے علاوہ اس کی مرہون منت بھی ہیں۔