"سورہ الاخلاص" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
ربط/روابط کو ختم کیا جا رہا ہے «امام خازن»: درستی. (پلک)
م درستی املا
سطر 33:
۸)۔ ابن عباسؓ کی روایت ہے کہ نجران کے عیسائیوں کا ایک وفد سات پادریوں کے ساتھ نبی صلی اللہ و علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے حضور صلی اللہ و علیہ و سلم سے کہا ’ہمیں بتائیے کہ آپ ؐ کا رب کیسا ہے؟ کس چیز سے بنا ہے؟ آپ صلی اللہ و علیہ و سلم نے فرمایا، ’میرا رب کسی چیز سے نہیں بنا ہے، وہ تمام اشیاء سے جدا ہے‘ ۔ اس پر اللہ تعالٰیٰ نے یہ سورت نازل فرمائی۔
ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ مختلف مواقع پر مختلف لوگوں نے رسول الہ صلی اللہ و علیہ و سلم سے اس معبود کی ماہیت اور کیفیت دریافت کی تھی جس کی بندگی و عبادت کی طرف آپ صلی اللہ و علیہ و سلم لوگوں کو دعوت دے رہے تھے۔ اور ہر موقع پر آپ نے اللہ تعالٰیٰ کے حکم سے ان کو جواب میں یہی سورت نازل ہوئی۔ اس کے بعد مدینہ طیبہ میں یہودیوں نے کبھی عیسائیوں نے اور کبھی عرب کے دوسرے لوگوں نے حضور صلی اللہ و علیہ و سلم سے اسی نوعیت کے سوالات کئے، اور ہر مرتبہ اللہ تعالٰیٰ کی طرف سے اشارہ ہوا کہ جواب میں یہی سورت آپ ان کو سنا دیں۔
ان روایات میں سے ہر ایک میں یہ جو کہا گیا ہے کہ اس موقع پر یہ سورت نازل ہوئی تھی۔ اس سے کسی کو یہ خیال نہ ہونا چاہئےچاہیے کہ یہ سب روایتیں باہم متضاد ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ کسی مسئلے کے بارے میں اگر پہلے سے کوئی آیت یا کوئی سورہ نازل شدہ ہوتی تھی، تو بعد میں جب کبھی حضور صلی اللہ و علیہ و سلم کے سامنے وہی مسئلہ پیش کیا جاتا، اللہ کی طرف سے ہدایت آ جاتی تھی کہ اس کا جواب فلاں آیت یا سورے میں ہے یا اس کے جواب میں وہ آیت یا سورہ لوگوں کو پڑھ کر سنا دی جائے۔ احادیث کے راوی اس چیز کو یوں بیان کرتے ہیں کہ یہ جب فلاں معاملہ پیش آیا یا فلاں سوال کیا گیا، تو یہ آیت یا سورہ نازل ہوئی۔ اس کو تکرارِ نزول سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے۔ یعنی ایک آیت یا سورہ کا کئی مرتبہ نازل ہونا۔
پس صحیح بات یہ ہے کہ یہ سورہ در اصل مکی ہے، بلکہ اس کے مضمون پر غور کرنے سے محسوس ہوتا ہے کہ یہ مکے کے بھی ابتدائی دور میں نازل ہوئی ہے۔ جب اللہ تعالٰیٰ کی ذات و صفات کے بیان میں قرآن کی مفصل آیات ابھی نازل نہیں ہوئی تھیں اور رسول اللہ صلی اللہ و علیہ و سلم کی دعوت الی اللہ کو سن کر لوگ یہ معلوم کرنا چاہتے تھے کہ آخر آپ کا وہ رب ہے کیسا کس کی بندگی و عبادت کی طرف آپؐ لوگوں کو بلا رہے ہیں۔ اس کے بالکل ابتدائی دور کی نازل شدہ سورت ہونے کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ مکے میں جب حضرت بلالؓ کا آقا امیہ بن خلف ان کو دھوپ میں تپتی ہوئی ریت میں لٹا کر ایک بڑا سا پتھر ان کی چھاتی پر رکھ دیتا تھا تو وہ ’احد احد‘ پکارتے تھے۔ یہ لفظ ’احد‘ اسی سورہ سے ماخوذ تھا۔
 
==موضوع اور مضمون==
شان نزول کے بارے میں جو روایات اوپر درج کی گئی ہیں، ان پر ایک نگاہ ڈالنے سے معلوم ہو جاتا ہے کہ جب رسول الہ صلی اللہ و علیہ و سلم توحید کی دعوت لے کر اٹھے تھے، اُس وقت دنیا کے مذہبی تصورات کیا تھے۔ بت پرست مشرکین ایسے خداؤں کو پوج رہے تھے جو لکڑی، پتھر، سونے، چاندی وغیرہ مختلف چیزوں کے بنے ہوئے تھے۔ شکل صورت اور جسم رکھتے تھے۔ دیویوں اور دیوتاؤں کی با قاعدہ نسل چلتی تھی۔ کوئی دیوی بے شوہر نہ تھی اور کوئی دیوتا بے زوجہ نہ تھا۔ ان کو کھانے پینے کی ضرورت بھی لاحق ہوتی تھی اور ان کے پرستار ان کے لئےلیے اس کا انتظام کرتے تھے۔ مشرکین کی ایک بڑی تعداد اس بات کی قائل تھی کہ خدا انسانی شکل میں ظہور کرتا ہے اور کچھ لوگ اس کے اوتار ہوتے ہیں۔ عیسائی اگرچہ ایک خدا کو ماننے کے مدعی تھے مگر ان کا خدا بھی کم از کم ایک بیٹا تو رکھتا ہی تھا اور باپ بیٹے کے ساتھ خدائی میں روح القدس کو بھی حصے دار ہونے کا شرف حاصل تھا۔ حتیٰ کہ خدا کی ماں بھی ہوتی تھی اور اس کی ساس بھی۔ یہودی بھی ایک خدا کو ماننے کا دعویٰ کرتے تھے مگر ان کا خدا بھی مادیت اور جسمانیت اور دوسری انسانی صفات سے خالی نہ تھا۔ وہ ٹہلتا تھا، انسانی شکل میں نمودار ہوتا تھا۔ اپنے کسی بندے سے کشتی بھی لڑ لیتا تھا اور ایک عدد بیٹے (عزیر) کا باپ بھی تھا۔ ان مذہبی گروہوں کے علاوہ مجوسی آتش پرست تھے اور صابئی ستارہ پرست۔ اس حالت میں جب اللہ وحدہٗ لا شریک کو ماننے کی دعوت لوگوں کو دی گئی تو ان کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہونا ایک لازمی امر تھا کہ وہ رب ہے کس قسم کا؟ جسے تمام ارباب اور معبودوں کو چھوڑ کر تنہا ایک ہی رب اور معبود تسلیم کرنے کی دعوت دی جا رہی ہے۔ قرآن مجید کا یہ اعجاز ہے کہ اس نے ان سوالات کا جواب چند الفاظ میں دے کر اللہ کی ہستی کا ایسا واضح تصور پیش کر دیا جو تمام مشرکانہ تصورات کا قلع قمع کر دیتا ہے اور اس کی ذات کے ساتھ مخلوقات کی صفات میں سے کسی صفت کی آلودگی کے لئےلیے کوئئ گنجائش باقی نہیں رہنے دیتا۔
 
==فضیلت اور اہمیت==
 
یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ و علیہ و سلم کی نگاہ میں اس سورت کی بڑی عظمت تھی اور آپؐ مختلف طریقوں سے مسلمانوں کو اس کی اہمیت محسوس کراتے تھے تا کہ وہ کثرت سے اس کو پڑھیں اور عوام الناس اسے پھیلائیں کیوں کہ یہ اسلام کے اولین بنیادی عقیدے (توحید) کو چار ایسے مختصر فقروں میں بیان کر دیتی ہے جو فوراً انسان کے ذہن نشین ہو جاتے ہیں اور آسانی سے زبانوں پر چڑھ جاتے ہیں۔
احادیث میں کثرت سے یہ روایت بیان ہوئی ہے کہ حضور صلی اللہ و علیہ و سلم نے مختلف مواقع پر مختلف طریقوں سے بتایا کہ یہ سورت ایک تہائی قرآن کے برابر ہے۔ بخاری، مسلم، ابو داؤد، نسائی، ترمذی، ابن ماجہ، مسند احمد، طبرانی وغیرہ میں اس مضمون کی متعدد احادیث ابو سعید خدریؓ، ابو ہریرہؓ، ابو ایوب انصاریؓ، ابو درداءؓ، معاذؓ بن جبل، جابرؓ بن عبد اللہ، اُبَی بن کعبؓ، ام کلثوم بنت عقبہ بن ابی معیط، ابن عمرؓ، ابن مسعودؓ، قتادہؓ بن النعمان، انسؓ بن مالک اور ابو مسعودؓ سے منقول ہوئی ہیں۔ مفسرین نے حضور صلی اللہ و علیہ و سلم کے اس ارشاد کی بہت سی توجیہات بیان کی ہیں۔مگر ہمارے نزدیک سیدھی اور صاف بات یہ ہے کہ قرآن مجید جس دین کو پیش کرتا ہے، اس کی بنیاد تین عقیدے ہیں۔ ایک توحید، دوسرے رسالت، تیسرے آخرت۔ یہ سورہ چونکہ خالص توحید کو بیان کرتی ہے، اس لئےلیے رسول اللہ صلی اللہ و علیہ و سلم نے اس کو ایک تہائی قرآن کے برابر قرار دیا۔
حضرت عائشہؓ کی یہ روایت بخاری و مسلم اور بعض دوسری کتب حدیث میں نقل ہوئی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ و علیہ و سلم نے ایک صاحب کو ایک مہم پر سردار بنا کر بھیجا، اور اس پورے سفر کے دوران میں ان کا مستقل طریقہ یہ رہا کہ ہر نماز میں وہ قل ہو اللہ احد پر قرات ختم کرتے تھے۔ واپسی پر ان کے ساتھیوں نے حضور صلی اللہ و علیہ و سلم سے اس کا ذکر کیا۔ آپؐ نے فرمایا، ’ان سے پوچھو کہ وہ ایسا کیوں کرتے تھے؟‘۔ ان سے پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ اس میں رحمٰن کی صفت بیان کی گئی ہے، اس کا پڑھنا مجھے بہت محبوب ہے۔ حضور صلی اللہ و علیہ و سلم نے یہ بات سنی تو لوگوں سے فرمایا ’’اخبروہ ان اللہ تعالٰیٰ محبُہٗ۔ ’ان کو خبر دے دو کہ اللہ تعالٰیٰ ان کو محبوب رکھتا ہے‘‘۔
اسی سے ملتا جلتا واقعہ بخاری میں حضرت انسؓ سے مروی ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ انصار میں سے ایک صاحب مسجد قُبا میں نماز پڑھاتے تھے اور ان کا طریقہ یہ تھا کہ ہر رکعت میں پہلے قل ہوا اللہ پڑھتے پھر اور کوئی سورت تلاوت کرتے۔ لوگوں نے اس پر اعتراض کیا اور ان سے کہا کہ یہ تم کیا کرتے ہو کہ قل ہو اللہ پڑھنے کے اسے کافی نہ سمجھ کر اور کوئی سورت بھی اس کے ساتھ ملا لیتے ہو، یہ ٹھیک نہیں ہے۔ یا تو صرف اسی کو پڑھو، اور یا اسے چھوڑ کر کوئی اور سورت پڑھو‘۔ انہوں نے کہا۔ ‘میں اسے نہیں چھوڑ سکتا، تم چاہو تو میں تمہیں نماز پڑھاؤں ورنہ میں امامت چھوڑ دوں‘۔ لیکن لوگ ان کی جگہ کسی اور کو امام بنانا بھی پسند نہیں کرتے تھے۔ آخرکار معاملہ حضور صلی اللہ و علیہ و سلم کے سامنے پیش کیا گیا۔ آپؐ نے ان سے پوچھا کہ ’تمہارے ساتھی جو کچھ چاہتے ہیں، اسے قبول کرنے میں تم کو کیا امر مانع ہے؟ تمہیں ہر رکعت میں یہ سورت پڑھنے پر کس چیز نے آمادہ کیا؟‘ انہوں نے عرض کیا۔ ‘مجھے اس سے بہت محبت ہے۔‘ آپؐ نے فرمایا، ’حبکِ ایاَ ہا ادخلک الجنۃ۔ اس سورت سے تمہاری محبت نے تمہیں جنت میں داخل کر دیا ۔‘