"بندوبست دوامی" کے نسخوں کے درمیان فرق
حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
شہاب (تبادلۂ خیال | شراکتیں) کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
م درستی املا |
||
سطر 5:
[[1764ء]] میں [[بکسر کی جنگ]] میں انگریزوں کی کامیابی کے بعد [[معاہدہ الٰہ باد]] میں [[شاہ عالم دوّم]] نے [[ایسٹ انڈیا کمپنی]] کو پورے [[بنگال]] کی دیوانی عطا کی۔ اس وقت اس علاقے کا رقبہ چار لاکھ مربع کلومیٹر تھا جس میں [[بہار]]، [[اڑیسہ]]، [[مغربی بنگال]]، [[جھارکھنڈ]] اور [[اترپردیش]] بھی شامل تھے۔ یہ پورے ہندوستان کا آٹھواں حصہ بنتا تھا۔ اسکے علاوہ 50 لاکھ روپے بطور [[تاوان جنگ]] بھی انگریزوں کو ادا کیئے گئے۔ اس طرح انگریزوں کو ٹیکس اکٹھا کرنے کا قانونی اختیار مل گیا جس کے لیے انہوں نے [[محمد رضا خان]] کو مامور کیا۔ لیکن ماہر اسٹاف کی کمی کی وجہ سے انگریزوں کو ٹیکس جمع کرنے میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ 1770 کے قحط نے انتظامیہ کی دوراندیشی سے عاری حکمت عملیوں کو اجاگر کیا۔ گورنر جنرل [[وارن ہیسٹنگز]] نے ہر پانچ سال پر زمینوں کے معائینے کا پروگرام بنایا لیکن بہت سارے کمپنی کے ملازمین ٹیکس کی رقم لے کر بھاگ گئے۔ [[1786ء]] میں لارڈ [[چارلس کورنویلس]] کو جو 19 اکتوبر 1781 میں امریکہ کی جنگ آزادی میں شکست کھا کر واپس آیا تھا، گورنر جنرل بنا کر ہندوستان بھیجا گیا۔ 1790 میں اس نے دس سال کے لیے بندوبست دوامی (Permanent Settlement) کا نظام نافذ کیا جسے 1800 میں مستقل کر دیا گیا۔ اس نظام میں ہر سال نیلامی کی بجائے ایک بار نیلامی اور آئندہ ہر سال اسی بولی کو زمین کا ٹیکس مقرر کر دیا گیا۔
اس نظام میں زمینداروں کے اختیارات میں بڑا اضافہ ہو گیا۔ ٹیکس چونکہ بڑھ گیا تھا اس
اس نظام نے ایک طرف کسان طبقے کو کچل کر رکھ دیا اور دوسری طرف حکومت کے وفادار زمینداروں کی تعداد میں بڑا اضافہ کیا۔ کسانوں کو [[چاول]] اور [[گندم]] کے بجائے نقد فصلیں ([[کپاس]]، [[نیل (رنگ)|نیل]]) اگانے پر مجبور کیا گیا جس کے نتیجے میں [[قحط]] کے دوران بڑے ہولناک نتائج برامد ہوئے۔ اس نظام نے [[ہندوستان]] کی صدیوں پرانی تہذیب کو شدید متاثر کیا۔
|