"جہاد" کے نسخوں کے درمیان فرق
حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م روبالہ مساوی زمرہ جات (22): + زمرہ:اسلامی اصطلاحات |
م درستی املا |
||
سطر 10:
ترجمہ: دشمن کے مقابلہ و مدافعت میں فوراً اپنی پوری قوت و طاقت صرف کرنا جہاد کہلاتا ہے۔
===جہاد اورآزمائش===
جہاں دوسری جنگوں میں دنیا دار قوموں کے دل گوناگوں دنیاوی اور نجی اغراض و مقاصد سے لبریز ہوتے ہیں ۔ کہیں ملک گیری کی ہوس کارپرداز ہوتی ہے ، کہیں مال و دولت اکٹھا کرنے کی حرص کا غلبہ ہوتا ہے تو کہیں نام و نمود اور شہرت و نام وری کی آرزو زمزمہ پرداز ہوتی ہے وہاں مومن کا جہاد فی سبیل اللہ خالصتاَ ایک للہیٰ عمل ہے۔ مجاہد کا دل ذاتی اغراض سے پاک اور صرف رضائے الہیٰ کی تمنا
اللہ کے وجود پر یقین کرنا تو اس قدر مشکل نہیں ۔اللہ کی اس ساری کائنات کے ہوتے ہوئے کیسے ممکن ہو سکتا ہے کہ کوئی یہ باور کرلے کہ اس کا پیدا کرنے والا کوئی نہیں البتہ قیامت پر یقین پیدا کرنا ایمان ہی کی دولت سے ممکن ہو سکتا ہے اورایمان اللہ کی دین ہے جسے چاہے دے، اس میں شک نہیں کہ اس کائنات اور اس کے اصولوں کو بغور دیکھنے سے قیامت کا وجود یقینی طور پر نظر آ سکتا ہے مگر یہ علم بھی اسی کو فائدہ پہنچا سکتا ہے ، جس کا سینہ ایمان کی روشنی سے منور ہو ۔ تاہم قیامت کا یقین ہی تو ہے جو انسان کو گناہوں سے باز رکھتا ہے اور نیکی پر مائل کرتا ہے اور اسی قیامت کے یقین کے سبب ایک سپاہی شہادت کی طلب میں موت کی آغوش کو اپنی بہترین پناہ تصور کرتا ہے اور ایک دانائے راز سمجھتا ہے کہ وہ خدا جس نے اس کائنات کو عدل پر پیدا کیا ، یہ کیسے برداشت کر سکتا ہے کہ ہر انسان کو اپنے گناہوں اور اپنی نیکیوں کا بدلہ نہ دیا جائے اور یہ بدلہ موت کے بعد قیامت میں ہی دیا جا سکتا ہے، اس زندگی میں تو دکھ اور خوشی عمل کی بنا پر بعض اوقات نہیں حاصل ہوتے۔ بعض بدکردار دندناتے پھرتے ہیں اور بعض نیکوکار رنج و مصائب میں مبتلا نظر آتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے ۔ ’’ جو کوئی محنت کرتا ہے وہ اپنے ہی
،ہم ان کے گناہ ان سے دور کرکے رہیں گے اور ہم ان کو ان کے اعمال کا زیادہ اچھا بدلہ دے کر رہیں گے ۔ (العنکبوت ۷ ) تو گویا کہ نیک کام کرنے سے آدمی کے گناہ بھی دھلتے ہیں اور اللہ تعالیٰ نیکی کا بدلہ استحقاق سے بھی زیادہ دیتے ہیں۔
ساری تجارتو ں سے بہترین تجارت جہاد ہے ۔ جہاد کرنے والا جہاد کے بدلے اللہ کی مغفرت اور جنت خریدتا ہے اور اللہ تعالیٰ سے ملاقات نصیب ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ۔ ’’اے ایمان والو ! میں تم کو ایسی سوداگری بتاؤں جو تمہیں ایک دردناک عذاب سے بچائے ۔ اللہ پر اور اس کے رسول ﷺ پر ایمان لاؤ اور اللہ کی راہ میں مال اور جان سے لڑو اگر تم سمجھ رکھتے ہو تو یہ تمہارے حق میں بہتر ہے ۔ وہ تمہارے گناہ بخشے گا اور تمہیں ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں اور باغوں کے اندر ستھرے مکان ہوں گے اور یہ بہت بڑی کامیابی ہے او ر ایک اور چیز بھی جسے تم بہت چاہتے ہو اور وہ ہے اللہ کی طرف سے مدد عنقریب اور خوشی سنا دے ایمان والوں کو، اے ایمان والو ! تم اسی طرح اللہ کے مددگار ہو جاؤ ۔جس طرح کہ عیسیٰ ابن مریم نے اپنے حواریوں سے کہا کون ہے جو اللہ کی راہ میں میری مدد کرے گا تو انہوں نے کہا کہ ہم اللہ کے مددگار ہیں ۔ ( الصف ۱۰ تا ۱۴)۔
سطر 18:
== جہاد کا اصطلاحی معنی ==
[[شریعت]] اسلامی کی اصطلاح میں ’’دین اسلام کی اشاعت و ترویج، سربلندی و اعلاء اور حصول رضائے الٰہی کے
صلح اور امن و امان اگرچہ بہترین چیزیں ہیں مگر افسوس اس بات کا ہے کہ شر پسند افراد اور شر پسند قومیں صلح جو افراد اور صلح جو قوموں کو آرام سے بیٹھنے نہیں دیتے ۔ صلح کے حصول کے دو ہی طریقے ہیں ایک تو یہ کہ ایک دوسرے کے آگے جھک جائے اور اس طرح فساد کا خطرہ ٹل جائے دوسرا یہ کہ صلح جو فتنہ پسند کا مقابلہ کرے ۔ پہلی صورت میں فساد کا خطرہ ٹل جانا ایک مشکل امر ہے جیسا کہ دنیا کے طور طریقے بتا رہے ہیں دوسری صورت مقابلے کی ہے لیکن مقابلہ کرنے والوں میں بھی اگر ایک فریق ظاہرا کمزور اور دوسرا طاقت ور ہو تو جنگ کے ٹل جانے کا امکان بہت ہی کم ہے ۔ طاقت ور کمزور کی کمزوری کے پیش نظر جنگ برپا کرنے میں جری ہو گا اس
اپنے نفس کی اصلاح جہاد سے مقدم ہے اور یہ تقدیم اس
جنگ کا فیصلہ کرنے میں جن عوامل کا قطعی ہاتھ ہے مثلا ڈسپلن ، تدبیر، شجاعت ،استقامت اور جنگی مہارت۔ یہ تمام کے تمام اخلاقی قوت کا نتیجہ ہیں تعداد اور اسلحہ اگرچہ ظاہرا دو بڑے عنصر نظر آتے ہیں مگر حقیقت یہ ہے اور جنگی تاریخ گواہ ہے کہ آج تک یہ دونوں عنصر کبھی بھی فیصلہ کن عنصر ثابت نہیں ہوئے ۔ قرون اولیٰ کے مسلما نوں کو جب یہ کہہ کر ڈرایا گیا کہ غنیم ایک بہت بڑا لشکر جرار اور بے پناہ ساز و سامان اور اسلحہ لے کے آ رہا ہے تو انہوں نے نہایت اطمینان سے کہہ دیا کہ ہمیں اللہ کافی ہے اور واقعی اللہ ہی کافی ثابت ہوا ۔ مٹھی بھر مسلمان نہایت بے سروسامانی کی حالت میں جہاں بھی گئے وہاں فتح و کامیابی نے ان کے قدم چومے اور دشمن نے اپنا تمام ساز و ساما ن چھوڑ کر راہ فرار اختیار کی۔ اسلئے ہر وہ فوج جو فتح و آبرو مندی کو اپنا شعار بنانا چاہے وہ اخلاقی قوتوں کو مضبوط سے مضبوط تر بناتی جائے اور اخلاقی قوتوں کا سرچشمہ دین متین ہے جس نے اللہ کے دین کو مضبوطی سے اپنایا اس نے ایک بہت بڑے اور مضبوط قلعے میں پناہ لی ۔
سطر 50:
کوئی فوج خواہ کتنی ہی تربیت یافتہ اور بہترین ہتھیاروں سے لیس کیوں نہ ہو اور اعداد و شمار میں ریت کے ذروں سے بھی بڑھ کر کیوں نہ ہو۔ جب تک اس کے سپاہی جرات اور شجاعت کے وصف سے متصف نہ ہوں گے کامیابی کی بہت کم امید ہے ۔ اس کے مقابلے میں گنتی میں کم اور ادنیٰ ہتھیاروں سے لیس فوج کے سپاہی اگر جری اور شجاع ہوں گے تو ان سے کامیابی اور کامرانی کی توقع کی جا سکتی ہے ۔ تجربہ یہ بتاتا ہے کہ بہادر قومیں عموما بہت ساری خوبیوں کی مالک ہوتی ہیں ۔ انہیں اپنے وعدے کا پاس ہوتا ہے۔ وہ مہمان کی قدرومنزلت کو سمجھتی ہیں ۔وہ شرافت اور نجابت کے تقاضوں کو جانتی ہیں ۔ وہ بے عزتی ، بے ؔ آبروئی اور بے غیرتی کی زندگی پر موت کو ترجیح دیتی ہیں ۔ وہ اگرچہ کینہ توز ہوتی ہیں مگر دشمنی میں بھی شرف کو ہاتھ سے جانے نہیں دیتیں اور دشمن کی مجبوریوں سے فائدہ اٹھانے کی قائل نہیں ہوتیں ۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ شجاعت اور سخاوت کا چولی دامن کا ساتھ ہوتا ہے۔ بہادر آدمی لازما سخی ہوتا ہے کیونکہ میدان جنگ میں اپنی جان پیش کر دینا بھی سخاوت ہے۔
اگر دو فوجیں برابر کی ہوں اور جنگ کا فیصلہ نہ ہوتا ہو تو اس تعطل کو ختم کرکے فیصلہ کن بات کرنے والی بات جوش کی زبان سے ادا ہوتی ہے۔ اسی طرح جب ایک فوج مسلسل لڑائی کرتے کرتے تھکن سے چور ہو جاتی ہے ۔ سپاہیوں کے بازو شل اور حوصلے پست ہو جاتے ہیں تو جوش ہی ایک ایسی چیز ہے جو تھکے ہوئے بازووں کو نئے سرے سے طاقت عطا کرتا ہے۔ افسردہ دلوں میں زندگی کی نئی لہر دوڑا دیتا ہے ۔ تھکی ہاری فوج آن کی آن میں سرگرم پیکار ہو جاتی ہے اور ایسا ایک بھر پور حملہ عام طور پر فیصلہ کن ہو تا ہے کیونکہ مخالف فوج بھی اسی طرح تھک کر چور ہو چکی ہوتی ہے ۔ بعض اوقات ایسی حالت میں ایک شخص کے جوش و خروش نے جنگ کی کایا پلٹ کر رکھ دی ہے ۔ جنگ یرموک میں ایک بار جب عیسائی مسلمانوں کو دھکیل کر خیموں تک لے آئے تو خیمہ میں بیٹھی ہوئی مسلمان عورتوں نے خیموں کی چوبیں اکھاڑ کر دشمن پر حملہ کر دیا۔ اس واقعہ نے مسلمانوں کو اتنا متاثر کیا کہ وہ جوش و غضب میں دشمن پر ٹوٹ پڑے اور پھر کبھی ان کو اپنے خیموں کے قریب پھٹکنے نہ دیا ۔
تاریخ اسلامی جوش جہاد کی مثالوں سے بھری پڑی ہے ۔ حضرت ابوعبیدہ ابن الجراح کے سامنے ایک جنگ میں آپ کا باپ آیا مگر آپ نے پروا نہ کی اور جوش ایمانی میں اپنے باپ کو قتل کر دیا ۔ جنگ موتہ میں جب تین ہزار مسلمانوں نے اپنے آپ کو دشمن کے علاقے میں ایک لاکھ فوج کے مقابل میں دیکھا تو مجلس مشاورت قائم کی کہ آنحضور کو حالات سے آگاہ کیا جائے مگر عبداللہ ابن رواحہؓ جو ایک آّتش بیان خطیب تھے ۔ ایسی تقریر کی کہ سب مقابلے پر آمادہ ہو گئے ۔ جنگ بدر کے
جنگی جوش اگر لڑائی کے وقت اگر شجاعت کی حدوں سے متجاوز ہو جائے تو اسے تہور کا نام دیا جاتا ہے ۔ اس حالت میں مجاہد کو قطعا نہ تو اپنے بچاؤ کا خیال ہوتا ہے نہ ہی زخم یا موت کا سوال ۔ وہ شدت جوش میں ؔ آگے بڑھتا ہے اور دشمن پر ہر چیز سے بے پروا ہو کر غضبناک شیرنی کی طرح ٹوٹ پڑتا ہے ۔ تہور ایک ایسی کیفیت ہے کہ بعض اوقات ان ہونی باتیں بھی ہو جاتی ہیں اور ناممکنات کا دائرہ بھی سمٹ کر ممکنات میں آ جاتا ہے ۔ صاحب تہور پر اس وقت ایک وجدانی کیفیت طاری ہوتی ہے اور وہ اس حالت میں وہ کچھ کر گزرتا ہے کہ عام حالت میں اس کا تصور بھی نہیں کیا جاتا ۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے خیبر کے جس سنگین دروازے کو تن تنہا ہاتھ ڈال کر اکھاڑا اور اپنے سر کے اوپر سے پیچھے پھینک دیااس کا وزن ایک سو بتیس من تھا اور جسے ؔ آٹھ مضبوط آدمی مل کر بھی اٹھانا تو درکنار زمین سے اچک تک نہ سکے۔ کیپٹن سرور شہید ، یونس شہید اور میجر طفیل شہید کے کارنامے تہور کے تحت آتے ہیں ۔ میجر عزیز بھٹی شہید کا کارنامہ تہور کے ساتھ استقلال اور استقامت کا ایک نادر الوجود مرقع ہے ۔ جواں سال شہید راشد منہاس کی تہور میں ڈوبی ہوئی بے مثال قربانی اسکی معصومیت کے ساتھ دلوں میں محبت کی کسک پیدا کرتی ہے ۔
تہور کے معنے سخت جوش کے ہیں حتیٰ کہ آدمی ایسی کیفیت میں ہر انجام سے بے خبر ہو جاتا ہے ۔ تاریخ اسلامی ایسی مثالوں سے پر ہے لیکن حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا تہور خیبر کے روز مشہور ہے ۔ جب حضرت علیؓ قلعے کی طرف بڑھے تو آپؓ نے قلعہ کے دروازے کو ہاتھ ڈالے اور اسے اکھاڑ کر اپنے سر کے اوپر سے پیچھے اچھال دیا ۔ اس دروازے کا وزن ایک سو بتیس من تھا ۔ آٹھ قوی آدمی اسے زمین سے اچک نہ سکتے تھے ۔ پھر خیبر کا مشہور پہلوان مرحب یہ رجز پڑھتا ہوا آپؓ کے مقابل ہوا:۔
سطر 74:
== نزول حکم جہاد ==
جہاد بالقتال کا حکم نبوت کے [[مدنی دور]] میں نازل ہوا۔ اس سلسلے میں سب سے پہلے قریش اور مسلمانوں میں [[بدر]] کے مقام پر [[غزوہ]] ہوا، جس میں مسلمانوں کو فتح نصیب ہوئی۔ كيونكہ جہاد ميں جان لی اور دی جاتی ہے اور جان لينا ہميشہ سے الہامی شريعتوں ميں ممنوع رہا ہے سب سے پہلے مسلمانوں كو جہاد كی اجازت دی گئی۔ يہ اجازت مسلمانوں كو سب سے پہلے جب دی گئی تو ساتھ اس كی وجہ يہ بيان كی كہ يہ لوگ اس
{{اقتباس قرآن
|
سطر 82:
|40
}}
جہاد بالقتال کے
جہاد اسلامی ریاست کی ذمہ داری ہے۔ عوام الناس کو فردا فردا، جتھوں، یا تنظیمیوں کی صورت میں جہاد کرنے کی ہرگز اجازت نہیں ہے۔
==جہاد کی تلقین==
اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو جہاد کی سخت تلقین فرمائی ہے ۔ کافروں اور منافقوں کے خلاف جہاد کرنے کے
جہاد اس
جہاں دوسرے مذاہب نے رہبانیت اور ترکِ دنیا پر زور دیا ہے وہاں اسلام کی ساری تعلیم ایک پاکباز، سپاہیانہ معاشرے میں زندگی گزارنے کے متعلق ہے ۔ اسلام کے تمام عقائید اسی روش کا مظاہرہ کرتے ہیں بلکہ خود مسلمان قوم کو ایک سرسری نظر سے دیکھنے سے ہی سپاہیانہ صفات اور سپاہیانہ اخلاق مثلا جرات، شجاعت ، سخاوت ، اولوالعزمی ، صبر و رضا ، ہمت و برداشت نظرآتے ہیں حتیٰ کہ مسلمان اپنے اس روبہ زوال دور میں بھی جہاں تک کہ ان مندرجہ بالاصفات کاتعلق ہے ،روئے زمین کی ساری قوموں کے درمیان ایک ممتاز مقام رکھتے ہیں ۔ جہاں تک جنگی تربیت کا تعلق ہے ، مسلمان کی زندگی کا ہر پہلو ایک تربیت یافتہ سپاہی کی زندگی کا مظاہرہ کرتا نظر آتا ہے ۔اسلام کے سارے ارکان اسی فوجی تربیت کے اصول پر جاری و ساری ہیں ۔ مسلمان کی روز مرہ کی زندگی اور زمانہ جنگ کی زندگی میں سرمو فرق نہیں ۔مسلمان ایک پیدائشی سپاہی ہے اور تھوڑی سی تربیت اسے دنیا کا بہترین سپاہی بنا دیتی ہے ۔
برائی کو روکنا ہر فرد مومن کا فرض ہے کیونکہ جس قسم میں برائی کو روکنے کا جذبہ مفقود ہوجاتا ہے وہ قوم تباہ ہو جاتی ہے اور وہ لوگ بھی جو نیک اس قوم میں ہوتے ہیں بدوں کے ساتھ محض اس
== جہاد کے دوران احتیاطیں ==
جہاد میں مقابلے کے وقت مجاہدین کو قرانی ہدایات کے بارے میں اللہ تعالیٰ قران حکیم میں فرماتے ہیں ۔
’’ اے ایمان والو ! جب تمہارا مقابلہ کسی جماعت سے ہو جائے تو ثابت قدم رہو اور اللہ کو کثرت سے یاد کرو تاکہ فلاح پاؤ اور اللہ اور اس کے رسول ﷺکی اطاعت کرتے رہو اور آپس میں جھگڑا مت کرو ورنہ کم ہمت ہو جاؤ گے اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی اور صبر کرتے رہو، بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے اور ان لوگوں کی مثل نہ ہو جاؤ جواپنے گھروں سے اتراتے ہوئے اور دکھلاوے کے
’’ان اللہ یحب الذین یقاتلون فی سبیلہ صفا کانھم بنیان مرصوص‘‘اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ ’’ اللہ تو ایسے لوگوں کو پسند کرتا ہے جو اس کی راہ میں اسی طرح مل کر لڑتے ہیں کہ گویا وہ ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں ۔( الصف ۳ ) ۔ اللہ تعالیٰ نے اس تشبیہ میں بہت سی باتوں کو یکجا کر دیا ہے ۔ سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح لڑنے والے سپاہی جن باتوں کا مظاہرہ کر رہے ہوں گے وہ فقط بہادری نہیں بلکہ ڈسپلن ، باہمی محبت و موافقت، ایمان اور کئی ایک اور اچھی باتوں کا مظاہرہ بھی کر رہے ہوں گے ۔ترکوں کے متعلق مشہور ہے کہ جب ۱۹۱۴ ء کی جنگ عظیم میں انہوں نے انگریزی فوج کو کوت العمارہ کے میدان میں گھیرے میں لیا تو انہوں نے لمبی لمبی زنجیروں سے قطار در قطار اپنے آپ کو جکڑ لیا ۔چھ ماہ کے مسلسل محاصرے کے بعد انگریز جرنیل نے ہتھیار ڈال دیئے ۔روداد اس محاصرے کی بڑی خوفناک ہے۔
’’ہاتھ تلوار پربھروسہ اللہ پر‘‘ ۔ یہ ایک باریک بات ہے مگر اللہ جسے چاہے سمجھا دے ،ہاتھ تلوار پراور بھروسا اللہ پر کے معنی یہ ہیں کہ اللہ پر بھروسا کرنے کے
رسول اللہ ﷺکے زمانے میں خندق کھودتے تھے ۔آج کل مورچے کھودتے ہیں ۔ اصولا خندق اور مورچے میں کوئی فرق نہیں۔ دونوں حفاظت کے
* عورتوں، بچوں اور بوڑھوں پر وار نہیں کیا جائے گا۔
سطر 105:
اگر کوئی [[کافر]] جنگ کے دوران موت کے خوف کی وجہ سے کلمہ پڑھ لے تو اس کا حکم یہ ہے کہ اسے قتل نہ کیا جائے کیونکہ اسلام جنگ و جدل کا نہیں بلکہ امن و اصلاح کا دین ہے۔ احادیث میں تو یہاں تک تاکید ملتی ہے کہ اگر کوئی کافر سر پر لٹکتی تلوار دیکھ کر اسلام قبول کر لے تو اس کے قتل سے ہاتھ روک لینا ضروری ہے۔
ایک مرتبہ ایک [[صحابی]] ایک کافر کو قتل کرنے ہی والے تھے کہ اس نے کلمہ طیبہ پڑھ لیا، مگر صحابی نے اس کے کلمے کی پروا نہ کی اور اسے قتل کر دیا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جب اس واقعہ کا علم ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سخت الفاظ میں اس قتل کی مذمت کی اور صحابی کے اس قول پر کہ اس کافر نے محض جان بچانے کے
{{عربی متن | أفَلاَ شَقَقْتَ عَنْ قَلْبِهِ؟ (مسلم، الصحيح، کتاب الايمان، باب تحريم قتل الکافر بعد أن قال لا إله إلا اﷲ، 1 : 96، رقم : 96)}}
سطر 114:
== جہاد کے آداب اور ذمہ داریاں ==
دشمن پر پینترے بدل بدل کر وار کرتے رہو اور اسے سنبھلنے کی مہلت نہ دو اور اگر کبھی خدانخواستہ تمہیں چشم زخم بھی لگ جائے تو ہمت نہ ہارو اور بد دل نہ ہو جاؤ ۔ کیونکہ دشمن نے بھی اس مقابلے میں کافی نقصان اٹھایا ہو گا اور اس کا بھی جوڑ جوڑ درد کر رہا ہو گا ۔ دشمن پر اس شدت سے بوجھ ڈالو اور اتنا بھر پور حملہ کرو اور اس طرح پئے در پئے حملے کرو کہ حوصلہ چھوڑ دے اور بوکھلا جائے ۔ مسلمانوں کے شکست کھا کر دوبارہ جنگ پر آمادگی ظاہر کرنے کو اللہ تعالیٰ نے بہت پسند کیا ہے چنانچہ فرمایا ہے کہ جن لوگوں نے اللہ اور رسول ﷺ کے کہنے کو مان لیا بعد اس کے کہ ان کو چشم زخم لگ چکا تھا ان میں سے جو نیک اور متقی ہیں ان کے
حتی الوسع اور بغیر شدید جنگی ضرورت کے دشمن کی املاک کو نقصان پہنچانے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے کیونکہ تعمیر بہر حال تخریب سے اچھی ہے ۔ ہاں البتہ اگر وہ املاک دشمن کے
جنگ خیبر میں صلح ہو جانے کے بعد جب اسلامی فوج کے بعض نئے رنگروٹ بے قابو ہو گئے اور انہوں نے غارت گری شروع کر دی تو یہودیوں کا سردار رسول اللہ ﷺ کے پاس حاضر ہوا اور کرخت لہجہ میں آپ ﷺ کو مخاطب کرکے بولا ۔ اے محمد ؑ ! کیا تم کو زیبا ہے کہ ہمارے گدھوں کو ذبح کرو ہمارے پھل کھا جاؤ اور ہماری عورتوں کو مارو ؟ اس پر رسول اللہ ﷺ نے فورا ابن عوفؓ کوحکم دیا کہ لشکر میں اجتمعو اللصلوۃ کی منادی کریں ۔ جب تمام اہل لشکر جمع ہو گئے تو حضور ﷺ کھڑ ے ہوئے اور فرمایا ۔ ’’ کیا تم میں سے کوئی شخص تخت غرور پر بیٹھا یہ سمجھ رہا ہے کہ اللہ نے سوائے ان چیزوں کے جو قران حکیم میں حرام کی گئی ہیں کوئی اور چیز حرام نہیں کی۔ خدا کی قسم !میں جو کچھ تم کو نصیحت کرتا ہوں اور جو امر و نہی کے احکا م دیتا ہوں وہ بھی قران کی طرح یا اس سے زیادہ ہیں ۔ اللہ نے تمہارے
فوجوں کی پیش قدمی کے وقت فصلوں کو خراب کرنا ، کھیتوں کو تباہ کرنا ، بستیوں میں قتل عام کرنا اور آتش زنی کرنا، جنگ کے معمولات میں سے ہے مگر اسلام کی رو سے یہ سب کچھ فساد میں شامل ہے اور سختی کے ساتھ اسے ناجائز قرار دیتا ہے ۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ ’’ جب وہ حاکم بنتا ہے تو کوشش کرتا ہے کہ زمین میں فساد پھیلائے اور فصلوں اور نسلوں کو تباہ کرے مگراللہ فساد کو پسند نہیں کرتا ‘‘ ( البقرۃ ۲۵ ) بلکہ اللہ کے رسول ﷺ نے تو یہاں تک فرما دیا ہے کہ’’ راستے میں دودھ دینے والے جانور مل جائیں تو ان کا دودھ دوہ کر پینا بھی جائز نہیں تاوقتیکہ ان کے مالکوں سے اجازت نہ لی جائے ‘‘۔ البتہ ضرورت کے وقت اس قدر اجازت دی گئی ہے کہ با آواز بلند تین مرتبہ پکارو تاکہ اگر کوئی مالک ہو تو آ جائے اور جب کوئی نہ آئے تو پی لو ۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے شام و عراق کی جانب فوجیں بھیجتے ہوئے جو ہدایات دی تھیں ان میں ایک یہ بھی تھی کہ بستیوں کو ویران نہ کرنا اور فصلوں کو خراب نہ کرنا ۔
اسلام دنیا میں آسودگی ، آسانی اور فارغ البالی دیکھنا چاہتا ہے ۔ دنیا کوتباہی اور بربادی کی حالت میں نہیں دیکھنا چاہتا۔ دنیا کی تعمیر بہر حال دنیا کی زبوں حالی سے بہتر ہے ۔ اسی اصول کے ماتحت جنگ میں بھی مال و منال اور فصل و نسل کی تباہی سے حتی الوسع گریز و اجتناب کا سبق دیاگیا ہے۔ کوئی بھی مفید چیز اس وقت تک تباہ نہ کی جائے جب تک کہ کسی دینی ، اخلاقی ، سماجی یا جنگی مصلحت کا تقاضا نہ ہو ۔ بنو نضیر کے محاصرے کے دوران بعض مسلمانوں نے کھجور کی ایک ادنی قسم کے درختوں کو اکھیڑنا شروع کیا تو بنو نضیر ( جو ایک یہودی قبیلہ تھا ) نے آنحضور ﷺ کو کہلا بھیجاکہ آپ ﷺ کا مذہب یہ اجازت دیتا ہے کہ درختوں کو کاٹا جائے تو اس پر آنحضور ﷺ اور مسلمان متفکر ہوئے مگر اللہ نے وحی کے ذریعے فرمادیا کہ جو لینہ (معمولی کھجور) کے درخت تم نے کاٹے وہ اللہ کے اذن سے تھا یعنی کاٹنے والوں کے سامنے جنگی مصلحت تھی لیکن اس کے بعد اس عمل کو ممنوع قرار دے دیا گیا ۔
|