"ریاست ہائے متحدہ" کے نسخوں کے درمیان فرق
حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م درستی املا بمطابق فہرست املا پڑتالگر |
م درستی املا |
||
سطر 66:
== نام ==
ریاست ہائے متحدہ امریکا کے عام ناموں میں یونائیٹڈ سٹیٹس، یو ایس، یو ایس اے، دی یو ایس اے، دی یو ایس آف اے، دی سٹیٹس اور امریکا شامل ہیں۔ امریکا نام کا پہلا استعمال [[1507ء]] میں ہوا جب ایک جرمن نقشہ ساز نے گلوب بنا کر جنوبی اور شمالی امریکی براعظموں کو ظاہر کرنے کے
امریکاؤں کو [[کولمبس]] کے حوالے سے کولمبیا کے نام سے بھی جانا جاتا تھا اور [[بیسویں صدی]] کے شروع تک امریکا کے دارلحکومت کو کولمبیا بھی کہتے تھے۔ بعد ازاں اس کے استعمال کو ختم کیا گیا، لیکن ابھی بھی سیاسی طور پر کولمبیا کا نام استعمال ہوتا ہے۔ [[کولمبس]] ڈے امریکا اور دیگر ممالک میں عام تعطیل ہوتی ہے جو [[کولمبس]] کے [[1492ء]] میں امریکی سرزمین پر اترنے کے حوالے سے منایا جاتا ہے۔
سطر 72:
ریاست ہائے متحدہ امریکا کو سب سے پہلے [[4 جولائی]] [[1776ء]] میں سرکاری طور پر اعلان آزادی میں استعمال کیا گیا۔ 15 نومبر 1777 کو دوسری براعظمی کانفرنس نے کنفیڈریشن کے آرٹیکل کو قبول کیا جس میں لکھا "The Stile of this Confederacy shall be 'The United States of America.'" تھا۔ اس نام کو درحقیقت تھامس پائن نے تجویز کیا تھا۔
امریکی باشندوں کے
== جغرافیہ ==
سطر 104:
[[12 اکتوبر]] [[1492ء]] کو [[کولمبس]] [[امریکا]] کے مشرقی ساحل کے قریب بہاماز پہنچا۔ یہ مقام [[امریکا]] کے جنوب مشرقی ساحل پر [[فلوریڈا]] کے قریب واقع ہے۔ [[امریکا]] کی سرزمین پر کسی یورپی کا یہ پہلا قدم تھا۔ پھر یکے بعد دیگرے مختلف مقامات کی دریافت کا سلسلہ چل پڑا۔ [[1524ء]] ءمیں فرانسیسی مہم جو ”جیووانی ویرازانو“ (Giovanni Verra Zano) ایک مہم لے کرکیرولینا سے شمال کی طرف بڑھتا ہوا نیویارک میں داخل ہوا۔ 1579 ءمیں فرانسسزڈریک (Francies Drake) مغربی ساحل پر سان فرانسیسکو کی خلیج میں داخل ہوا اور ایک برطانوی نوآبادی کی بنیاد رکھی۔ [[1607ء]] ءمیں کیپٹن جان سمتھ تین جہازوں میں 105 سپاہی لے کر ورجینیا کے ساحل پر اترا اور جیمز ٹائون کے نام سے پہلی برطانوی نوآبادی قائم کی۔ [[1624ء]] میں البانی اور [[نیویارک]] کے علاقوں میں ولندیزی نوآبادیاں” نیو نیدرلینڈز “کے نام سے قائم ہوئیں۔
اس طرح مختلف یورپی ممالک کی نوآبادیاں بنتی چلی گئیں۔ ان نو آبادیوں میں آپس میں چپقلش اور بعض اوقات جنگ و جدل تک نوبت پہنچتی رہی۔ اس کے ساتھ ہی برطانوی حکومت نے اپنی نو آبادیوں سے واقعتا نوآبادیاتی سلوک شروع کر دیا۔ ان کا استحصال کرنے کے
* [[یکم دسمبر]] [[1660ء]] کو برطانوی پارلیمان نے جہازرانی کا قانون (Navigation Act) پاس کیا جس میں نوآبادیات کے ساتھ تجارت کو اپنے مفادات کے مطابق ضابطوں کا پابند بنایا گیا۔ [[8 ستمبر]] [[1664ء]] کو برطانوی فوجی دستوں نے نیو نیدرلینڈز پر قبضہ کر لیا۔ 1676ءمیں نیتھانیل بیکن (Nathaneil Bacon) نے برطانوی آمریت کے خلاف کسانوں کی بغاوت کی قیادت کی۔ بیکن کا انتقال ہو گیا اور بغاوت ناکام ہو گئی۔ بیکن کے 23 ساتھیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔
* [[6 اپریل]] [[1712ء]] کو نیویارک میں غلاموں نے بغاوت کر دی۔ باغیوں میں سے 21 قتل کر دیے گئے، 6 نے خودکشی کر لی، 71 کو ملک بدر کر دیا گیا۔
* [[1764ء]] میں برطانوی حکومت نے شوگر ایکٹ (Sugar Act) نافذ کرکے نوآبادیات میں مختلف خوردنی اشیاءپر ٹیکس لگا دیا۔
* [[1765ء]] میں برطانوی پارلیمینٹ نے اپنی افواج کے اخراجات پورے کرنے کے
* [[1767ء]] میں چائے اور دیگر کئی اشیاءپر ٹیکس لگا دیا گیا۔
* [[1770ء]] میں برطانوی دستوں نے بوسٹن میں مظاہرہ کرنے والے ایک ہجوم پر گولی چلا دی، پانچ آدمی ہلاک ہوئے۔ جن میں مظاہرین کا لیڈر بھی شامل تھا۔ یہ واقعہ بوسٹن کا قتل عام (Boston massacre) کہلایا۔ مئی 1773ءمیں بوسٹن، نیویارک اور فلاڈلفیا میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے چائے کے جہاز واپس کر دیے گئے۔ چائے پر لگائے جانے والے ٹیکس کے خلاف 4 اکتوبر کو چائے کے ایک جہاز کو آگ لگا دی گئی اور 16 دسمبر کو [[بوسٹن]] میں چائے کا سٹاک جہازوں سے سمندر میں پھینک دیا گیا۔ یہ واقعہ بوسٹن ٹی پارٹی (Boston tea party)کہلایا۔
سطر 122:
مارچ [[1782ء]] میں برطانوی کابینہ نے امریکا کی خودمختاری کو تسلیم کر لیا۔ [[1789ء]] میں [[جارج واشنگٹن]] [[امریکا]] کے صدر منتخب ہو گئے اور [[1796ء]] میں وہ اس عہدے سے ریٹائر ہو گئے۔ [[جارج واشنگٹن]] [[امریکا]] کے عظیم رہنما تھے ان کے بارے میں First in war, first in peace, first in the hearts of his countrymen یعنی ”جنگ میں بھی ادّل امن میں بھی اوّل اور اپنے ہم وطنوں کے دلوں میں بھی اول کا مقولہ بہت مشہور ہے۔ واشنگٹن نے عہدہ صدارت سے سبکدوش ہوتے وقت اپنی قوم کو خبردار کیا تھا کہ ”کسی غیر ملکی حکومت سے کبھی کوئی مستقل الائنس (اتحاد) نہ بنانا۔
اب ہم [[4 جولائی]] کے اعلان آزادی پر واپس آتے ہیں اور تاریخ کے اوراق میں سے اس اعلان آزادی پر دستخط کرنے والے وطن پرستوں پر برطانوی افواج کے ہاتھوں روا رکھے جانے والے انسانیت سوز وحشیانہ مظالم کا کھوج لگاتے ہیں۔ یہ نہایت دلدوز کہانی ہے اور دنیا بھر کے حریت پسندوں کے
ان عظیم لوگوں کی کل تعداد 56 تھی جنہوں نے اعلان پر دستخط کئے۔ یہ نہایت آسودہ حال اور خوش حال لوگ تھے۔ ان میں سے 14 قانون دان تھے ، 13 کا تعلق عدلیہ سے تھا یعنی جج تھے، 11 تاجر تھے، 12 زمیندار اور جنگلات کے مالک تھے ایک پادری اور تین ڈاکٹر تھے۔ دو کا تعلق دیگر معزز پیشوں سے تھا۔ ان سب انقلابیوں نے اعلان آزادی پر یہ جانتے ہوئے بھی دستخط کئے کہ اس کی سزا انہیں گرفتاری اور موت کی شکل میں ملے گی۔
سطر 136:
# یارک ٹائون کے معرکہ میں تھامس نیلسن (Thomas Nelson) نے نوٹ کیا کہ برطانوی جنرل کارنوالس نے نیلسن کے گھر پر قبضہ کر کے اسے اپنا ہیڈکوارٹر بنا لیا ہے۔ اس نے خاموشی سے انقلاب کے جنرل واشنگٹن کو مشورہ دیا کہ اس کا گھر گولہ باری سے اڑا دیا جائے۔ گھر تباہ ہو گیا اور نیلسن قلاش ہو کر مرا۔
# فرانسیس لیوس (Fracis Lewis) کا گھر تباہ کر دیا گیا اور اس کی بیوی کو جیل میں ڈال دیا گیا۔ جہاں وہ چند ماہ بعد خالق حقیقی سے جا ملی۔
# جان ہارٹ (John Hart) کو اس کی بیوی کے بستر مرگ سے جدا کر دیا گیا۔ اس کے 13 بچے اپنی جانیں بچانے کے
# رابرٹ مورس (Robert Moriss) اور فلپ لیونگ سٹون (Philip Levingstone) کو بھی اسی نوع کے حالات سے گزرنا پڑا۔
# [[22 ستمبر]] [[1776ء]] کو برطانوی افواج نے تحریک آزادی کے ایک رہنما ناتھن ھیل (Nathan Hale)کو جاسوسی کے الزام میں موت کے گھاٹ اتار دیا۔ مرنے سے پہلے اس کی زبان سے یہ تاریخی الفاظ ادا ہوئے:'''”مجھے افسوس ہے کہ وطن کو دینے کے
اسی طرح کی قربانیوں سے امریکی انقلاب کے سبھی رہنمائوں کو گزرنا پڑا۔ یہ سب لوگ خوشحال اور تعلیم یافتہ لوگ تھے۔ جرائم پیشہ، فسادی یا تخریب کار قسم کے لوگ نہیں تھے۔ یہ سب حکومت برطانیہ کے رعایا تھے اور اسی نسل سے تعلق رکھتے تھے جس سے حکمرانوں کا تعلق تھا۔ امریکا کے سبھی نوآبادکار لوگ انگلینڈ، سکاٹ لینڈ، آئرلینڈ، ویلز اور یورپ کے مختلف ممالک سے آئے تھے۔ ان کا مذہب بھی وہی تھا جو حکمرانوں کا تھا۔ یہ سب حضرت مسیح کے ماننے والے رومن کیتھولک اور پروٹسٹنٹ تھے۔ اگر یہ خاموش بیٹھے رہتے تو انہیں حکومت میں بڑے بڑے عہدے مل سکتے تھے اور یہ نہایت پرآسائش زندگی گزار سکتے تھے۔ لیکن ان عظیم انقلابی لوگوں نے امریکی عوام کو برطانوی سامراج کی لعنت سے نجات دلانے کے
'''”اس اعلان آزادی و خودمختاری کی تائید کے
اس عزم و استقلال کے نتیجے میں انقلابی قیادت کو جن مشکلات اور مصائب کا مقابلہ کرنا پڑا ان کا مختصر بیان اوپر کی سطور میں آ چکا ہے۔ لیکن ان انقلابی قائدین کے سامنے واضح منزل تھی۔ اپنے ملک کی آزادی و خودمختاری۔ وہ اس منزل کی طرف ثابت قدمی سے بڑھتے رہے اور آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ اعلان خود مختاری کے225 سال بعد ترقی و تعمیر کی تمام منزلیں طے کر کے امریکا دنیا کی سپر طاقت بن چکا ہے اور تاج برطانیہ کے کئے گئے مظالم کا بدلہ بے گناہ مسلمانوں سے لے رہا ہے۔
سطر 154:
آج تک سب سے پہلا بندہ جس نے امریکا کی سرزمین پر باہر سے آکر قدم رکھا، وہ کرسٹوفر کولمبس ہے جس نے 19 نومبر 1493 کو ریو ڈی جنیریو میں اپنے دوسرے بحری سفر کے دوران سفر کیا تھا۔ سان جوان جو امریکا کی سرزمین پر پہلی یورپی نوآبادی تھی، 8 اگست 508 میں جوان پونسی ڈی لائن نے قائم کی۔ جوان پونسی ڈی لائن تاریخ کا پہلا یورپی بندہ بنا جس نے براعظم امریکا میں فلوریڈا کے ساحل پر 2 اپریل 1513 کو پہلا قدم رکھا۔فلوریڈا ابتدائی یورپی نوآبادیوں کا مرکز بنی جن میں پنساکولا، فورٹ کیرولائن اور سینٹ آگسٹائن شامل ہیں۔ سینٹ آگسٹائن وہ واحد نو آبادی ہے جو اپنے قیام سے لے کر اب تک مسلسل آباد رہی ہے۔
فرانسیسیوں نے ملک کا شمال مشرقی حصہ، ہسپانیوں نے جنوبی اور مغربی حصہ آباد کاری کے
=== امریکی انقلاب اور ابتدائی جمہوریہ ===
1760ء سے 1770ء کے دوران امریکی نو آبادیوں اور برطاونی راج کے درمیان جاری کشیدگی نے 1775ء کی کھلی لڑائی کا روپ دھار لیا۔ جارج واشنگٹن نے جنگ انقلاب کے دوران کانٹی نینٹل فوج کی سربراہی کی کیونکہ دوسری کانٹینینٹل کانگریس نے 4 جولائی 1776 کو آزادی کے اعلان کو قبول کر لیا تھا۔ کانگریس کا قیام اس
=== مغربی توسیع ===
سطر 165:
کی وجہ سے توسیع کچھ متاثر ہوئی لیکن امریکا-میکسیکو جنگ کے بعد 1848ء میں یہ اور زیادہ تیز ہوئی۔
1830ء سے 1880ء تک چار کروڑ امریکی بھینسوں کو کھال اور گوشت کے
=== خانہ جنگی ===
سطر 180:
1920ء کے عشرے کے دوران زیادہ تر امریکا نے بہت زیادہ ترقی کے مزے لوٹے کیونکہ فارموں کی قیمتیں گریں اور صنعتی منافع جات بڑھے۔ اس کی وجہ سے 1929ء میں سٹاک مارکیٹ کریش ہوئی اور اس وجہ سے عظیم مندی دیکھنی پڑی۔ فرینکلن ڈیلانو روز ویلٹ نے 1932ء میں صدارتی انتخابات جیتنے کے بعد اس ضمن میں ایک نیا منصوبہ بنایا اور اس سے معیشت میں حکومتی مداخلت بڑھی۔
1941ء تک امریکی قوم اس عظیم مندی کے اثرات سے پوری طرح باہر نہ آسکا تھا کہ پرل ہاربر پر ہونے والے حملے کی وجہ سے امریکا کو پھر اتحادی افواج کا ساتھ دینا پڑا۔ دوسری جنگ عظیم امریکی تاریخ کی سب سے مہنگی جنگ ہے لیکن اس کی وجہ سے امریکی معیشت کو بہت سہارا ملا کیونکہ جنگی مال کی طلب کی وجہ سے نئی ملازمتیں پیدا ہوئیں اور خواتین کو بھی پہلی بار ملازمتوں میں حصہ ملا۔ جنگ کے دوران سائنسدانوں نے امریکا کی وفاقی حکومت کو دنیا کی پہلی ایٹمی طاقت بنانے کے
اس کے فورا بعد، [[2 ستمبر]] [[1945ء]] میں جاپان نے ہتھیار ڈال دئیے اور دوسری جنگ عظیم کا مکمل خاتمہ ہو گیا۔
سطر 189:
اس اندازے کی بنیاد پر کہ ریاست ہائے متحدہ خلائی ریس میں بہت پیچھے رہ گیا ہے، کی وجہ سے سکولوں کی سطح پر سائنس اور ریاضی کی مہارت میں اضافے کے سلسلے میں حکومت نے بہت سے اقدامات اٹھائے۔ صدر جان ایف کینیڈی نے 1960ء میں اعلان کیا کہ وہ چاند پر پہلا آدمی بھیجیں گے، اور 1969ء تک یہ بھی مکمل ہو گیا۔
اسی دوران امریکی معاشرہ معاشی پھیلاؤ کے متناسب دور سے گزرا۔ ساتھ ہی ساتھ عوام میں شعور بیدار ہوا اور مختلف تفریقوں کے
1991ء میں سوویت یونین کے زوال کے بعد امریکا نے دوسرے ممالک کی جنگوں جیسا کہ خلیجی جنگ، میں مداخلت جاری رکھی۔ امریکا اب دنیا کی واحد سپر پاور ہے۔
سطر 198:
[[11 ستمبر]] [[2001ء]] کو القاعدہ کے انیس ارکان نے چار کمرشل ہوائی جہازوں کو اغوا کرلیا۔ (بقول امریکا کے) دو جہازوں کو نیو یارک شہر میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے جڑواں ٹاوروں سے ٹکرا دیا گیا اور تیسرا جہاز پینٹاگون، واشنگٹن ڈی سی سے ٹکرا کر تباہ کیا گیا ۔ چوتھا جہاز ہائی جیکرز اور مسافروں کے درمیان جنگ کی وجہ سے شانکسول، پینسلوانیا میں تباہ ہوا ۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ چوتھا جہاز اغوا ہوجانے کے بعد امریکی جنگی طیاروں نے خود ہی کسی مزید ممکنہ حملے کے خوف سے مار گرایا ۔ نائن الیون کے حملوں کے بعد، امریکا خارجہ پالیسی دہشت گردی کی عالمی صورتحال پر مرکوز ہوگئی۔ جواب کے طور پر جارج ڈبلیو بش کی زیر صدارت، امریکی حکومت نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بہت سارے فوجی اور قانونی آپریشن شروع کئے۔ [[دہشت پر جنگ|دہشت گردی کے خلاف جنگ]] [[8 اکتوبر]] 2001ء میں شروع ہوئی جب امریکا کی سربراہی میں افغانستان میں طالبان حکومت کے خلاف فوجی کارروائی شروع ہوئی تاکہ القاعدہ کی تنظیم اور اس کے لیڈروں کو باہر نکالا جائے۔ 11 ستمبر کے واقعات نے امریکی تحفظ کے خلاف ہونے والے کسی بھی واقعے کے خلاف پیشگی حملوں کی پالیسی کو جنم دیا جسے بش ڈاکٹرائن کے نام سے جانا جاتا ہے۔
[[2002ء]] کو قوم سے خطاب کے دوران، صدر جارج ڈبلیو بش نے شمالی کوریا، عراق اور ایران کو برائی کا محور قرار دیا اور بتایا کہ یہ ممالک امریکا اور اس کے اتحادیوں کے خلاف بڑا خطرہ ہیں۔ اسی سال امریکا نے عراق میں حکومت کی تبدیلی کے اشارے دینا شروع کردئیے۔ اقوام متحدہ کی کئی قراردوں کی ناکامی اور صدام حسین کی طرف سے ہتھیار ڈالنے سے انکار کے بعد امریکا اور اس کے اتحادیوں نے مارچ [[2003ء]] میں عراق پر حملہ کردیا۔ اس حملے کے جواز کے طور پر امریکی حکومت نے کہا کہ عراق کے پاس وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کا ذخیرہ ہے اور یہ ایٹمی ہتھیاروں کے حصول کے
=== انسانی حقوق ===
سطر 209:
=== سیاسی نظام ===
ریاست ہائے متحدہ دنیا کی سب سے زیادہ عرصہ تک قائم رہنے والی آئینی جمہوریہ ہے جس کا آئین دنیا کا سب سے پرانا اور مکمل طور پر تحریری ہے۔ اس کی حکومت کا انحصار کانگریسی نظام کے تحت نمائندہ جمہوریت پر ہے جو آئین کے تحت اختیارات کی حامل ہوتی ہے۔ تاہم یہ کوئی عام نمائندہ جمہوریت نہیں ہے بلکہ اس میں اکثریت کو اقلیت کے حقوق کے
وفاقی حکومت تین شاخوں سے مل کر بنتی ہے جن کی تشکیل ایک دوسرے کے اختیارات پر چیک اینڈ بیلنس کی خاطر کی گئی ہے:
سطر 216:
* عدلیہ: سپریم کورٹ اور زیریں وفاقی عدالتیں جن کے ججوں کا تعین صدر سینیٹ کی منظوری سے کرتا ہے، جو قوانین کی تشریح کرتے ہیں اور آئین کے تحت ان کی معیاد مقرر کرتے ہیں اور وہ قوانین جو غیر آئینی ہو گئے ہوں، انہیں ختم بھی کرسکتے ہیں۔
امریکی کانگریس دو ایوانوں پر مشتمل مقننہ ہے۔ایوانِ نمائندگان( ہاؤس آف رپریزنٹیٹوز) کے ارکان کی تعداد 435 ہے، ہر ایک الگ ضلعے کی نمائندگی دو سال کے
ریاست ہائے متحدہ کا آئین امریکی نظام میں سب سے اعلٰی قانونی دستاویز ہے اور اسے سماجی معاہدہ بھی سمجھا جاسکتا ہے جو امریکی شہریوں اور ان کی حکومت کے مابین ہے۔ وفاقی اور ریاستی حکومت کے تمام قوانین پر نظر ثانی کی جاتی ہے جو کسی طور پر بھی آئین کے خلاف ہوں اور عدلیہ انہیں ختم بھی کرسکتی ہے۔ آئین ایک زندہ دستاویز ہے اور اس میں ترمیم کئی طریقوں سے کی جاسکتی ہے لیکن اس کی بہر طور منظوری ریاستی اکثریت ہی دیتی ہے۔اب تک آئین میں 27 بار ترمیم کی جاچکی ہے۔ آخری ترمیم 1992ء میں کی گئی۔
سطر 250:
امریکا میں 17000 سے زائد اقسام کے پودے اور درخت پائے جاتے ہیں جن میں سے 5000 صرف کیلیفورنیا میں ہیں۔ ان 5000 دنیا کے سب سے لمبے، سب سے بھاری اور سب سے پرانے درخت بھی شامل ہیں۔ امریکا کا ماحول خط استوائی ماحول سے لے کر ٹنڈرائی نوعیت کا ہے اور اس میں نباتات کی اقسام دنیا بھر کے کسی دوسرے ملک سے زائد ہیں۔ اگرچہ ہزاروں غیر ملکی نباتات کی وجہ سے اس ملک کی اپنی نباتات اور انسانوں پر منفی اثرات واقع ہوئے ہیں۔ 400 سے زائد [[ممالیا]]، 700 سے زائد پرندے، 500 ریپٹائل یعنی خزندے اور 90000 سے زائد حشرات الازض کو نوٹ کیا جا چکا ہے۔
بہت سے جانور اور پودے خاص جگہوں تک محدود ہیں اور بہت سی انواع معدوم ہونے والی ہیں۔ امریکا نے معدومیت کے خطرے سے دوچار انواع کے تحفظ کے
معدومیت کے خلاف تحفظ کے حوالے سے امریکی تاریخ بہت پرانی ہے۔ 1872 میں دنیا کا پہلا نیشنل پارک ییلو سٹون میں بنایا گیا۔ اس کے بعد اب تک 57 مزید نیشنل پارک اور سینکڑوں دیگر پارک اور جنگلات کو اس ضمن میں بنایا جا چکا ہے۔ ملک کے کچھ حصوں کو اس مقصد کے
== معیشت ==
سطر 264:
امریکا میں اوسط گھریلو آمدنی 46326 ڈالر سالانہ ہے اور 25 سے 64 سال کی عمر کے افراد کی اوسط سالانہ انفرادی آمدنی 32611 ڈالر ہے۔
معاشی سرگرمیاں ملک میں بہت زیادہ متفرق ہوتی ہیں۔ نیو یارک شہر کو ملک کی معاشی، چھپائی، نشر و اشاعت اور اشتہاراتی مرکز کی حیثیت ہے جبکہ لاس اینجلس کو فلم اور ٹیلی ویژن کے
امریکی معیشت کا زیادہ تر حصہ خدمات سے حاصل ہوتا ہے جہاں کل افراد کا تین چوتھائی حصہ کام کرتا ہے۔ صنعتی زوال کی وجہ سے 2011ء میں 22 ملین افراد حکومت کے ملازم تھے اور صناعی میں 11 ملین، جبکہ 1960ء میں صورتحال اس کے برعکس تھی۔<ref>{{cite news |title=We've Become a Nation of Takers, Not Makers:
More Americans work for the government than in manufacturing, farming, fishing, forestry, mining and utilities combined. |author=اسٹیفم موور |url=http://online.wsj.com/article/SB10001424052748704050204576219073867182108.html |newspaper= |date=[[وال سٹریٹ جورنل]]1 اپریل 2011ء |accessdate=2 April 2011}}</ref>
ملک کی معیشت کا بہت بڑا حصہ قدرتی ذرائع کی کثرت ہے جیسا کہ کوئلہ، تیل اور قیمتی دھاتیں۔ تاہم ابھی تک یہ ملک اپنی توانائی کے
امریکا میں فی کس آمدنی کا شمار دنیا کی سب سے زیادہ آمدنیوں میں سے ہوتا ہے۔ اس کی فی کس آمدنی مغربی یورپ سے زیادہ ہے۔ 1975ء سے ملکی منڈی کی حقیقی آمدنی تقریباً ساری کی ساری بیس فیصد خاندانوں میں پہنچتی ہے ۔
امریکی معاشرے میں سماجی طبقات کی تبدیلی یورپی، سکینڈے نیویا کے ممالک اور کینیڈا سے کم ہے۔ بعض ماہرین کے خیال میں اس کی وجہ تعلیمی نظام ہے۔ امریکی تعلیمی نظام میں تعلیم کا خرچہ زیادہ تر ٹیکسوں سے اور بقیہ حصہ حکومتی خزانے سے ادا کیا جاتا ہے۔ اس
== ایجادات ==
امریکا اپنی سائنسی اور ٹیکنالوجی کی ایجادات کی وجہ سے اور نئی ایجاد ہونے والی مصنوعات کی پیداوار کے
سائنسی بالخصوص فزیالوجی اور میڈیسن میں امریکیوں نے بہت زیادہ نوبل پرائز حاصل کئے ہیں۔ قومی ادارہ برائے صحت بائیو میڈیسن کے
== ذرائع نقل و حمل ==
آٹو موبائل کی صنعت اکثر ممالک کی نسبت جلدی شروع ہوئی۔ ملکی ذرائع نقل و حمل کے
عوام کے سفر کے
امریکا پرائیوٹ مسافر ریل کی پٹڑیوں کے
لمبے فاصلے کے
دنیا کی کئی بڑی بندرگاہیں امریکا میں ہیں جن میں سے تین سب سے زیادہ مصروف ،کیلیفورنیا کی لاس اینجلس بندرگاہ، لانگ بیچ کی بندرگاہ اور نیویارک اور نیو جرسی کی بندرگاہ شامل ہیں۔ امریکا کے اندر بھی آبی نقل و حمل کے
== آبادی ==
سطر 306:
=== بصری فنون لطیفہ ===
اٹھارہویں اور انیسویں صدی میں امریکی فنون لطیفہ نے یورپ سے بہت اثر لیا۔ مصوری، مجسمہ سازی اور ادب کے
=== موسیقی ===
|