"ریاست ہائے متحدہ" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م درستی املا بمطابق فہرست املا پڑتالگر
م درستی املا
سطر 66:
== نام ==
 
ریاست ہائے متحدہ امریکا کے عام ناموں میں یونائیٹڈ سٹیٹس، یو ایس، یو ایس اے، دی یو ایس اے، دی یو ایس آف اے، دی سٹیٹس اور امریکا شامل ہیں۔ امریکا نام کا پہلا استعمال [[1507ء]] میں ہوا جب ایک جرمن نقشہ ساز نے گلوب بنا کر جنوبی اور شمالی امریکی براعظموں کو ظاہر کرنے کے لئےلیے لفظ امریکا چنا۔
 
امریکاؤں کو [[کولمبس]] کے حوالے سے کولمبیا کے نام سے بھی جانا جاتا تھا اور [[بیسویں صدی]] کے شروع تک امریکا کے دارلحکومت کو کولمبیا بھی کہتے تھے۔ بعد ازاں اس کے استعمال کو ختم کیا گیا، لیکن ابھی بھی سیاسی طور پر کولمبیا کا نام استعمال ہوتا ہے۔ [[کولمبس]] ڈے امریکا اور دیگر ممالک میں عام تعطیل ہوتی ہے جو [[کولمبس]] کے [[1492ء]] میں امریکی سرزمین پر اترنے کے حوالے سے منایا جاتا ہے۔
سطر 72:
ریاست ہائے متحدہ امریکا کو سب سے پہلے [[4 جولائی]] [[1776ء]] میں سرکاری طور پر اعلان آزادی میں استعمال کیا گیا۔ 15 نومبر 1777 کو دوسری براعظمی کانفرنس نے کنفیڈریشن کے آرٹیکل کو قبول کیا جس میں لکھا "The Stile of this Confederacy shall be 'The United States of America.'" تھا۔ اس نام کو درحقیقت تھامس پائن نے تجویز کیا تھا۔
 
امریکی باشندوں کے لئےلیے امریکی یا امیرکن کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے چاہے وہ شمالی امریکا سے ہوں یاجنوبی امریکا سے۔
 
== جغرافیہ ==
سطر 104:
[[12 اکتوبر]] [[1492ء]] کو [[کولمبس]] [[امریکا]] کے مشرقی ساحل کے قریب بہاماز پہنچا۔ یہ مقام [[امریکا]] کے جنوب مشرقی ساحل پر [[فلوریڈا]] کے قریب واقع ہے۔ [[امریکا]] کی سرزمین پر کسی یورپی کا یہ پہلا قدم تھا۔ پھر یکے بعد دیگرے مختلف مقامات کی دریافت کا سلسلہ چل پڑا۔ [[1524ء]] ءمیں فرانسیسی مہم جو ”جیووانی ویرازانو“ (Giovanni Verra Zano) ایک مہم لے کرکیرولینا سے شمال کی طرف بڑھتا ہوا نیویارک میں داخل ہوا۔ 1579 ءمیں فرانسسزڈریک (Francies Drake) مغربی ساحل پر سان فرانسیسکو کی خلیج میں داخل ہوا اور ایک برطانوی نوآبادی کی بنیاد رکھی۔ [[1607ء]] ءمیں کیپٹن جان سمتھ تین جہازوں میں 105 سپاہی لے کر ورجینیا کے ساحل پر اترا اور جیمز ٹائون کے نام سے پہلی برطانوی نوآبادی قائم کی۔ [[1624ء]] میں البانی اور [[نیویارک]] کے علاقوں میں ولندیزی نوآبادیاں” نیو نیدرلینڈز “کے نام سے قائم ہوئیں۔
 
اس طرح مختلف یورپی ممالک کی نوآبادیاں بنتی چلی گئیں۔ ان نو آبادیوں میں آپس میں چپقلش اور بعض اوقات جنگ و جدل تک نوبت پہنچتی رہی۔ اس کے ساتھ ہی برطانوی حکومت نے اپنی نو آبادیوں سے واقعتا نوآبادیاتی سلوک شروع کر دیا۔ ان کا استحصال کرنے کے لئےلیے آئے دن نت نئے ٹیکس عائد ہونے لگے۔ جس کی وجہ سے ان میں بے چینی اور بغاوت کے آثار پیدا ہونے لگے جو آخرکار تحریک آزادی کی شکل اختیار کر گئے۔ ہم یہاں مختصر طور پر چند مثالیں پیش کر کے اپنی بات کو واضح کریں گے۔
 
* [[یکم دسمبر]] [[1660ء]] کو برطانوی پارلیمان نے جہازرانی کا قانون (Navigation Act) پاس کیا جس میں نوآبادیات کے ساتھ تجارت کو اپنے مفادات کے مطابق ضابطوں کا پابند بنایا گیا۔ [[8 ستمبر]] [[1664ء]] کو برطانوی فوجی دستوں نے نیو نیدرلینڈز پر قبضہ کر لیا۔ 1676ءمیں نیتھانیل بیکن (Nathaneil Bacon) نے برطانوی آمریت کے خلاف کسانوں کی بغاوت کی قیادت کی۔ بیکن کا انتقال ہو گیا اور بغاوت ناکام ہو گئی۔ بیکن کے 23 ساتھیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔
* [[6 اپریل]] [[1712ء]] کو نیویارک میں غلاموں نے بغاوت کر دی۔ باغیوں میں سے 21 قتل کر دیے گئے، 6 نے خودکشی کر لی، 71 کو ملک بدر کر دیا گیا۔
* [[1764ء]] میں برطانوی حکومت نے شوگر ایکٹ (Sugar Act) نافذ کرکے نوآبادیات میں مختلف خوردنی اشیاءپر ٹیکس لگا دیا۔
* [[1765ء]] میں برطانوی پارلیمینٹ نے اپنی افواج کے اخراجات پورے کرنے کے لئےلیے سٹمپ ایکٹ (Stamp Act) پاس کیا۔ ا سی سال 7 اکتوبر کو نوآبادیوں نے نیویارک میں ایک کانگریس بلا کر عوامی حقوق کا اعلامیہ (Declaration of rights) جاری کیا۔
* [[1767ء]] میں چائے اور دیگر کئی اشیاءپر ٹیکس لگا دیا گیا۔
* [[1770ء]] میں برطانوی دستوں نے بوسٹن میں مظاہرہ کرنے والے ایک ہجوم پر گولی چلا دی، پانچ آدمی ہلاک ہوئے۔ جن میں مظاہرین کا لیڈر بھی شامل تھا۔ یہ واقعہ بوسٹن کا قتل عام (Boston massacre) کہلایا۔ مئی 1773ءمیں بوسٹن، نیویارک اور فلاڈلفیا میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے چائے کے جہاز واپس کر دیے گئے۔ چائے پر لگائے جانے والے ٹیکس کے خلاف 4 اکتوبر کو چائے کے ایک جہاز کو آگ لگا دی گئی اور 16 دسمبر کو [[بوسٹن]] میں چائے کا سٹاک جہازوں سے سمندر میں پھینک دیا گیا۔ یہ واقعہ بوسٹن ٹی پارٹی (Boston tea party)کہلایا۔
سطر 122:
مارچ [[1782ء]] میں برطانوی کابینہ نے امریکا کی خودمختاری کو تسلیم کر لیا۔ [[1789ء]] میں [[جارج واشنگٹن]] [[امریکا]] کے صدر منتخب ہو گئے اور [[1796ء]] میں وہ اس عہدے سے ریٹائر ہو گئے۔ [[جارج واشنگٹن]] [[امریکا]] کے عظیم رہنما تھے ان کے بارے میں First in war, first in peace, first in the hearts of his countrymen یعنی ”جنگ میں بھی ادّل امن میں بھی اوّل اور اپنے ہم وطنوں کے دلوں میں بھی اول کا مقولہ بہت مشہور ہے۔ واشنگٹن نے عہدہ صدارت سے سبکدوش ہوتے وقت اپنی قوم کو خبردار کیا تھا کہ ”کسی غیر ملکی حکومت سے کبھی کوئی مستقل الائنس (اتحاد) نہ بنانا۔
 
اب ہم [[4 جولائی]] کے اعلان آزادی پر واپس آتے ہیں اور تاریخ کے اوراق میں سے اس اعلان آزادی پر دستخط کرنے والے وطن پرستوں پر برطانوی افواج کے ہاتھوں روا رکھے جانے والے انسانیت سوز وحشیانہ مظالم کا کھوج لگاتے ہیں۔ یہ نہایت دلدوز کہانی ہے اور دنیا بھر کے حریت پسندوں کے لئےلیے سبق آموز ہے۔
 
ان عظیم لوگوں کی کل تعداد 56 تھی جنہوں نے اعلان پر دستخط کئے۔ یہ نہایت آسودہ حال اور خوش حال لوگ تھے۔ ان میں سے 14 قانون دان تھے ، 13 کا تعلق عدلیہ سے تھا یعنی جج تھے، 11 تاجر تھے، 12 زمیندار اور جنگلات کے مالک تھے ایک پادری اور تین ڈاکٹر تھے۔ دو کا تعلق دیگر معزز پیشوں سے تھا۔ ان سب انقلابیوں نے اعلان آزادی پر یہ جانتے ہوئے بھی دستخط کئے کہ اس کی سزا انہیں گرفتاری اور موت کی شکل میں ملے گی۔
سطر 136:
# یارک ٹائون کے معرکہ میں تھامس نیلسن (Thomas Nelson) نے نوٹ کیا کہ برطانوی جنرل کارنوالس نے نیلسن کے گھر پر قبضہ کر کے اسے اپنا ہیڈکوارٹر بنا لیا ہے۔ اس نے خاموشی سے انقلاب کے جنرل واشنگٹن کو مشورہ دیا کہ اس کا گھر گولہ باری سے اڑا دیا جائے۔ گھر تباہ ہو گیا اور نیلسن قلاش ہو کر مرا۔
# فرانسیس لیوس (Fracis Lewis) کا گھر تباہ کر دیا گیا اور اس کی بیوی کو جیل میں ڈال دیا گیا۔ جہاں وہ چند ماہ بعد خالق حقیقی سے جا ملی۔
# جان ہارٹ (John Hart) کو اس کی بیوی کے بستر مرگ سے جدا کر دیا گیا۔ اس کے 13 بچے اپنی جانیں بچانے کے لئےلیے بھاگ گئے۔ جان ہارٹ کے کھیت اور اس کی آٹا پیسنے کی مل تباہ و برباد کر دی گئی۔ ایک سال تک وہ جنگلوں اور غاروں میں چھپا پھرتا رہا اور جب وہ گھر واپس آیا تو اس کی بیوی مرچکی تھی اور بچے نہ معلوم کہاں چلے گئے تھے۔ اس کے کچھ عرصہ بعد وہ خود بھی نہایت دل شکستگی کے عالم میں فوت ہو گیا۔
# رابرٹ مورس (Robert Moriss) اور فلپ لیونگ سٹون (Philip Levingstone) کو بھی اسی نوع کے حالات سے گزرنا پڑا۔
# [[22 ستمبر]] [[1776ء]] کو برطانوی افواج نے تحریک آزادی کے ایک رہنما ناتھن ھیل (Nathan Hale)کو جاسوسی کے الزام میں موت کے گھاٹ اتار دیا۔ مرنے سے پہلے اس کی زبان سے یہ تاریخی الفاظ ادا ہوئے:'''”مجھے افسوس ہے کہ وطن کو دینے کے لئےلیے میرے پاس صرف ایک زندگی ہے۔“'''
 
اسی طرح کی قربانیوں سے امریکی انقلاب کے سبھی رہنمائوں کو گزرنا پڑا۔ یہ سب لوگ خوشحال اور تعلیم یافتہ لوگ تھے۔ جرائم پیشہ، فسادی یا تخریب کار قسم کے لوگ نہیں تھے۔ یہ سب حکومت برطانیہ کے رعایا تھے اور اسی نسل سے تعلق رکھتے تھے جس سے حکمرانوں کا تعلق تھا۔ امریکا کے سبھی نوآبادکار لوگ انگلینڈ، سکاٹ لینڈ، آئرلینڈ، ویلز اور یورپ کے مختلف ممالک سے آئے تھے۔ ان کا مذہب بھی وہی تھا جو حکمرانوں کا تھا۔ یہ سب حضرت مسیح کے ماننے والے رومن کیتھولک اور پروٹسٹنٹ تھے۔ اگر یہ خاموش بیٹھے رہتے تو انہیں حکومت میں بڑے بڑے عہدے مل سکتے تھے اور یہ نہایت پرآسائش زندگی گزار سکتے تھے۔ لیکن ان عظیم انقلابی لوگوں نے امریکی عوام کو برطانوی سامراج کی لعنت سے نجات دلانے کے لئےلیے [[4 جولائی]] [[1776ء]] کو ملک کے کونے کونے سے فلاڈلفیا کے مقام پر جمع ہو کر کانگریس کے آئینی کنونشن میں شامل ہوکر اعلان خود مختاری پر دستخط کئے۔ انہوں نے اپنے آرام و آسائش پر آزادی کو ترجیح دی اور یہ عہد کیا کہ
 
'''”اس اعلان آزادی و خودمختاری کی تائید کے لئےلیے پروردگار عالم کی قوت حاکمہ کی حفاظت اور مدد پر پورا بھروسا کرتے ہوئے ہم آپس میں یہ عہد کرتے ہیں کہ ہم اپنے حصول مقصد کے لئےلیے اپنی جانوں، اپنی جائیدادوں اور اپنی عزت و ناموس کے ساتھ اس کا تحفظ اور اس کی تائید کریں گے۔“'''
 
اس عزم و استقلال کے نتیجے میں انقلابی قیادت کو جن مشکلات اور مصائب کا مقابلہ کرنا پڑا ان کا مختصر بیان اوپر کی سطور میں آ چکا ہے۔ لیکن ان انقلابی قائدین کے سامنے واضح منزل تھی۔ اپنے ملک کی آزادی و خودمختاری۔ وہ اس منزل کی طرف ثابت قدمی سے بڑھتے رہے اور آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ اعلان خود مختاری کے225 سال بعد ترقی و تعمیر کی تمام منزلیں طے کر کے امریکا دنیا کی سپر طاقت بن چکا ہے اور تاج برطانیہ کے کئے گئے مظالم کا بدلہ بے گناہ مسلمانوں سے لے رہا ہے۔
سطر 154:
آج تک سب سے پہلا بندہ جس نے امریکا کی سرزمین پر باہر سے آکر قدم رکھا، وہ کرسٹوفر کولمبس ہے جس نے 19 نومبر 1493 کو ریو ڈی جنیریو میں اپنے دوسرے بحری سفر کے دوران سفر کیا تھا۔ سان جوان جو امریکا کی سرزمین پر پہلی یورپی نوآبادی تھی، 8 اگست 508 میں جوان پونسی ڈی لائن نے قائم کی۔ جوان پونسی ڈی لائن تاریخ کا پہلا یورپی بندہ بنا جس نے براعظم امریکا میں فلوریڈا کے ساحل پر 2 اپریل 1513 کو پہلا قدم رکھا۔فلوریڈا ابتدائی یورپی نوآبادیوں کا مرکز بنی جن میں پنساکولا، فورٹ کیرولائن اور سینٹ آگسٹائن شامل ہیں۔ سینٹ آگسٹائن وہ واحد نو آبادی ہے جو اپنے قیام سے لے کر اب تک مسلسل آباد رہی ہے۔
 
فرانسیسیوں نے ملک کا شمال مشرقی حصہ، ہسپانیوں نے جنوبی اور مغربی حصہ آباد کاری کے لئےلیے چنا۔ پہلی کامیاب انگریزی آبادکاری جیمز ٹاؤن، ورجینیا میں 1607ء میں قائم ہوئی۔ اس کے فورا بعد 1620ء میں پلے ماؤتھ، میسا چوسٹس میں بھی آباد کاری ہوئی۔ 1609ء اور 1617ء میں ولندیزی آبادکار موجودہ نیو یارک اور نیو جرسی کے علاقوں میں آباد ہوئے۔ 17ویں اور 18ویں صدی کے اوائل میں انگلینڈ (جو بعد ازاں عظیم برطانیہ بنا) نے ولندیزی کالونیوں پر قبضہ کرکے یا تو انہیں ختم کرکے یا تقسیم کرکے نئی نوآبادیاں بنائیں۔ 1729ء میں کیرولینا کی تقسیم کے بعد اور 1732ء میں جارجیا کی آبادکاری کے بعد برطانوی کالونیاں شمالی امریکا (موجودہ کینیڈا کے علاوہ) تک پھیل گئیں اور مشرقی اور مغربی فلوریڈا کی شاہی کالونیوں کو تیرہواں نمبر دیا گیا۔ بیشتر اصلی امریکی مار دیے گئے یا پھر دوسرے علاقوں کو چلے گئے۔
 
=== امریکی انقلاب اور ابتدائی جمہوریہ ===
 
1760ء سے 1770ء کے دوران امریکی نو آبادیوں اور برطاونی راج کے درمیان جاری کشیدگی نے 1775ء کی کھلی لڑائی کا روپ دھار لیا۔ جارج واشنگٹن نے جنگ انقلاب کے دوران کانٹی نینٹل فوج کی سربراہی کی کیونکہ دوسری کانٹینینٹل کانگریس نے 4 جولائی 1776 کو آزادی کے اعلان کو قبول کر لیا تھا۔ کانگریس کا قیام اس لئےلیے عمل میں آیا تھا تاکہ برطانوی اقدام کی مخالفت کی جاسکے لیکن اس کانگریس کو ٹیکسوں کے نفاذ کا اختیار حاصل نہیں تھا۔ 1777ء میں کانگریس نے آرٹیکل آف کنفیڈریشن کو تسلیم کیا جس کے تحت تمام ریاستیں ایک لچکدار وفاقی حکومت کے تحت اکٹھی ہو گئیں۔ یہ آرٹیکل 1781ء سے لے کر 1788ء تک نافذ العمل رہا۔ قومی حکومت کی کمزوری کی وجہ سے 1787ء کا آئین بنانا پڑا۔ جون 1788ء میں اکثر ریاستوں نے نئی حکومت کے قیام کے لئےلیے ریاست ہائے متحدہ کو قبول کر لیا۔ آئین کے باعث اس اتحاد کو مضبوطی ملی اور وفاقی حکومت کو یہاں کی سب سے بڑی حکومت اور مقننہ تسلیم کر لیا گیا۔
 
=== مغربی توسیع ===
سطر 165:
کی وجہ سے توسیع کچھ متاثر ہوئی لیکن امریکا-میکسیکو جنگ کے بعد 1848ء میں یہ اور زیادہ تیز ہوئی۔
 
1830ء سے 1880ء تک چار کروڑ امریکی بھینسوں کو کھال اور گوشت کے لئےلیے اور ریلوے کی توسیع کے لئےلیے قتل کیا گیا۔ ریلوے کے توسیع سے لوگوں اور اشیا کی نقل و حمل آسان اور جلدی ہونے لگ گئی اور اس سے مغرب کی طرف توسیع آسان ہوئی لیکن انڈین لوگوں سے جھڑپیں تیز ہوتی گئیں جس کی وجہ سے مقامی ثقافت اور مقامی افراد کی بقا خطرے میں پڑتی گئی۔
 
=== خانہ جنگی ===
سطر 180:
1920ء کے عشرے کے دوران زیادہ تر امریکا نے بہت زیادہ ترقی کے مزے لوٹے کیونکہ فارموں کی قیمتیں گریں اور صنعتی منافع جات بڑھے۔ اس کی وجہ سے 1929ء میں سٹاک مارکیٹ کریش ہوئی اور اس وجہ سے عظیم مندی دیکھنی پڑی۔ فرینکلن ڈیلانو روز ویلٹ نے 1932ء میں صدارتی انتخابات جیتنے کے بعد اس ضمن میں ایک نیا منصوبہ بنایا اور اس سے معیشت میں حکومتی مداخلت بڑھی۔
 
1941ء تک امریکی قوم اس عظیم مندی کے اثرات سے پوری طرح باہر نہ آسکا تھا کہ پرل ہاربر پر ہونے والے حملے کی وجہ سے امریکا کو پھر اتحادی افواج کا ساتھ دینا پڑا۔ دوسری جنگ عظیم امریکی تاریخ کی سب سے مہنگی جنگ ہے لیکن اس کی وجہ سے امریکی معیشت کو بہت سہارا ملا کیونکہ جنگی مال کی طلب کی وجہ سے نئی ملازمتیں پیدا ہوئیں اور خواتین کو بھی پہلی بار ملازمتوں میں حصہ ملا۔ جنگ کے دوران سائنسدانوں نے امریکا کی وفاقی حکومت کو دنیا کی پہلی ایٹمی طاقت بنانے کے لئےلیے شب و روز کام کیا۔ یورپ میں اس جنگ کے خاتمے کے بعد، امریکا نے جاپان کے دو شہروں ہیرو شیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم گرائے تاکہ بقول امریکی انتظامیہ اور ذرائع ابلاغ کے، "جنگ کو مکمل طور پر ختم کیا جاسکے"۔ ہیرو شیما اور ناگاساکی پر گرائے جانے والے ایٹم بم، دنیا کے دوسرے اور تیسرے ایٹم بم تھے اور تاحال یہ کسی حکومت کی طرف سے جنگ میں استعمال کئے جانے کی واحد مثالیں ہیں۔ <ref>[http://www.bbc.co.uk/urdu/regional/story/2007/08/070806_hiroshima_bomb.shtmlبی بی سی ڈاٹ کام، 6 اگست 2007ء،] "1945:امریکا نے ہیروشیما پر ایٹم بم گرا دیا"</ref>
 
اس کے فورا بعد، [[2 ستمبر]] [[1945ء]] میں جاپان نے ہتھیار ڈال دئیے اور دوسری جنگ عظیم کا مکمل خاتمہ ہو گیا۔
سطر 189:
اس اندازے کی بنیاد پر کہ ریاست ہائے متحدہ خلائی ریس میں بہت پیچھے رہ گیا ہے، کی وجہ سے سکولوں کی سطح پر سائنس اور ریاضی کی مہارت میں اضافے کے سلسلے میں حکومت نے بہت سے اقدامات اٹھائے۔ صدر جان ایف کینیڈی نے 1960ء میں اعلان کیا کہ وہ چاند پر پہلا آدمی بھیجیں گے، اور 1969ء تک یہ بھی مکمل ہو گیا۔
 
اسی دوران امریکی معاشرہ معاشی پھیلاؤ کے متناسب دور سے گزرا۔ ساتھ ہی ساتھ عوام میں شعور بیدار ہوا اور مختلف تفریقوں کے لئےلیے افریقی امریکی مثلا مارٹن لوتھر کنگ جونیئر نمایاں ہیں۔ اس کے نتیجے میں جم کرو قوانین کو جنوبی ریاستوں میں ختم کردیا گیا۔
 
1991ء میں سوویت یونین کے زوال کے بعد امریکا نے دوسرے ممالک کی جنگوں جیسا کہ خلیجی جنگ، میں مداخلت جاری رکھی۔ امریکا اب دنیا کی واحد سپر پاور ہے۔
سطر 198:
[[11 ستمبر]] [[2001ء]] کو القاعدہ کے انیس ارکان نے چار کمرشل ہوائی جہازوں کو اغوا کرلیا۔ (بقول امریکا کے) دو جہازوں کو نیو یارک شہر میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے جڑواں ٹاوروں سے ٹکرا دیا گیا اور تیسرا جہاز پینٹاگون، واشنگٹن ڈی سی سے ٹکرا کر تباہ کیا گیا ۔ چوتھا جہاز ہائی جیکرز اور مسافروں کے درمیان جنگ کی وجہ سے شانکسول، پینسلوانیا میں تباہ ہوا ۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ چوتھا جہاز اغوا ہوجانے کے بعد امریکی جنگی طیاروں نے خود ہی کسی مزید ممکنہ حملے کے خوف سے مار گرایا ۔ نائن الیون کے حملوں کے بعد، امریکا خارجہ پالیسی دہشت گردی کی عالمی صورتحال پر مرکوز ہوگئی۔ جواب کے طور پر جارج ڈبلیو بش کی زیر صدارت، امریکی حکومت نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بہت سارے فوجی اور قانونی آپریشن شروع کئے۔ [[دہشت پر جنگ|دہشت گردی کے خلاف جنگ]] [[8 اکتوبر]] 2001ء میں شروع ہوئی جب امریکا کی سربراہی میں افغانستان میں طالبان حکومت کے خلاف فوجی کارروائی شروع ہوئی تاکہ القاعدہ کی تنظیم اور اس کے لیڈروں کو باہر نکالا جائے۔ 11 ستمبر کے واقعات نے امریکی تحفظ کے خلاف ہونے والے کسی بھی واقعے کے خلاف پیشگی حملوں کی پالیسی کو جنم دیا جسے بش ڈاکٹرائن کے نام سے جانا جاتا ہے۔
 
[[2002ء]] کو قوم سے خطاب کے دوران، صدر جارج ڈبلیو بش نے شمالی کوریا، عراق اور ایران کو برائی کا محور قرار دیا اور بتایا کہ یہ ممالک امریکا اور اس کے اتحادیوں کے خلاف بڑا خطرہ ہیں۔ اسی سال امریکا نے عراق میں حکومت کی تبدیلی کے اشارے دینا شروع کردئیے۔ اقوام متحدہ کی کئی قراردوں کی ناکامی اور صدام حسین کی طرف سے ہتھیار ڈالنے سے انکار کے بعد امریکا اور اس کے اتحادیوں نے مارچ [[2003ء]] میں عراق پر حملہ کردیا۔ اس حملے کے جواز کے طور پر امریکی حکومت نے کہا کہ عراق کے پاس وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کا ذخیرہ ہے اور یہ ایٹمی ہتھیاروں کے حصول کے لئےلیے تگ و دو کر رہا ہے۔ جنگ کے بعد بہت کم مقدار میں غیر ایٹمی ہتھیاروں کے چند ذخیرے ملے اور اس کے بعد امریکی حکومت نے اقرار کیا کہ انہوں نے غلط جاسوسی اطلاعات پر حملہ کیا تھا۔
 
=== انسانی حقوق ===
سطر 209:
=== سیاسی نظام ===
 
ریاست ہائے متحدہ دنیا کی سب سے زیادہ عرصہ تک قائم رہنے والی آئینی جمہوریہ ہے جس کا آئین دنیا کا سب سے پرانا اور مکمل طور پر تحریری ہے۔ اس کی حکومت کا انحصار کانگریسی نظام کے تحت نمائندہ جمہوریت پر ہے جو آئین کے تحت اختیارات کی حامل ہوتی ہے۔ تاہم یہ کوئی عام نمائندہ جمہوریت نہیں ہے بلکہ اس میں اکثریت کو اقلیت کے حقوق کے لئےلیے آئینی طور پر پابند کیا گیا ہے۔ حکومت تین سطحی ہے، وفاقی، ریاستی اور مقامی۔ ان تینوں سطحوں کے اراکین کا انتخاب یا تو رائے دہندگان کے خفیہ ووٹ سے یا پھر دوسرے منتخب اراکین کی طرف سے نامزدگی کی مدد سے ہوتا ہے۔ ایگزیکٹو اور قانون ساز دفاتر کا فیصلہ شہریوں کی طرف سے ان کے متعلقہ حلقوں میں اجتماعی ووٹ سے کیا جاتا ہے، عدلیہ اور کابینہ کی سطح کے دفاتر کو ایگزیکٹو برانچ نامزد کرتی ہے اور مقننہ انہیں منظور کرتی ہے۔ کچھ ریاستوں میں عدلیہ کی نشستیں عام انتخابات سے پر کی جاتی ہیں۔
 
وفاقی حکومت تین شاخوں سے مل کر بنتی ہے جن کی تشکیل ایک دوسرے کے اختیارات پر چیک اینڈ بیلنس کی خاطر کی گئی ہے:
سطر 216:
* عدلیہ: سپریم کورٹ اور زیریں وفاقی عدالتیں جن کے ججوں کا تعین صدر سینیٹ کی منظوری سے کرتا ہے، جو قوانین کی تشریح کرتے ہیں اور آئین کے تحت ان کی معیاد مقرر کرتے ہیں اور وہ قوانین جو غیر آئینی ہو گئے ہوں، انہیں ختم بھی کرسکتے ہیں۔
 
امریکی کانگریس دو ایوانوں پر مشتمل مقننہ ہے۔ایوانِ نمائندگان( ہاؤس آف رپریزنٹیٹوز) کے ارکان کی تعداد 435 ہے، ہر ایک الگ ضلعے کی نمائندگی دو سال کے لئےلیے کرتا ہے۔ ہر ریاست کو اس کی آبادی کی شرح سے سیٹوں کی تعداد ملتی ہے۔ آبادی کا تعین ہر دس سال بعد از سر نوء کیا جاتا ہے۔ہر ریاست کو کم از کم ایک نمائندے کی اجازت ہوتی ہے: سات ریاستوں کے ایک ایک نمائندے ہیں، کیلیفورنیا کے نمائندگان کی تعداد سب سے زیادہ 53 ہے۔ ہر ریاست کے دو سینیٹر ہوتے ہیں جو ریاستی سطح پر چھ سال کے لئےلیے منتخب ہوتے ہیںْ۔ ایک تہائی سینیٹ کے انتخابات ہر دوسرے سال منعقد ہوتے ہیں۔
 
ریاست ہائے متحدہ کا آئین امریکی نظام میں سب سے اعلٰی قانونی دستاویز ہے اور اسے سماجی معاہدہ بھی سمجھا جاسکتا ہے جو امریکی شہریوں اور ان کی حکومت کے مابین ہے۔ وفاقی اور ریاستی حکومت کے تمام قوانین پر نظر ثانی کی جاتی ہے جو کسی طور پر بھی آئین کے خلاف ہوں اور عدلیہ انہیں ختم بھی کرسکتی ہے۔ آئین ایک زندہ دستاویز ہے اور اس میں ترمیم کئی طریقوں سے کی جاسکتی ہے لیکن اس کی بہر طور منظوری ریاستی اکثریت ہی دیتی ہے۔اب تک آئین میں 27 بار ترمیم کی جاچکی ہے۔ آخری ترمیم 1992ء میں کی گئی۔
سطر 250:
امریکا میں 17000 سے زائد اقسام کے پودے اور درخت پائے جاتے ہیں جن میں سے 5000 صرف کیلیفورنیا میں ہیں۔ ان 5000 دنیا کے سب سے لمبے، سب سے بھاری اور سب سے پرانے درخت بھی شامل ہیں۔ امریکا کا ماحول خط استوائی ماحول سے لے کر ٹنڈرائی نوعیت کا ہے اور اس میں نباتات کی اقسام دنیا بھر کے کسی دوسرے ملک سے زائد ہیں۔ اگرچہ ہزاروں غیر ملکی نباتات کی وجہ سے اس ملک کی اپنی نباتات اور انسانوں پر منفی اثرات واقع ہوئے ہیں۔ 400 سے زائد [[ممالیا]]، 700 سے زائد پرندے، 500 ریپٹائل یعنی خزندے اور 90000 سے زائد حشرات الازض کو نوٹ کیا جا چکا ہے۔
 
بہت سے جانور اور پودے خاص جگہوں تک محدود ہیں اور بہت سی انواع معدوم ہونے والی ہیں۔ امریکا نے معدومیت کے خطرے سے دوچار انواع کے تحفظ کے لئےلیے 1973 میں قانون بنایا گیاہے کہ ان انواع کو ان کے قدرتی ماحول میں تحفظ دیا جائے۔
 
معدومیت کے خلاف تحفظ کے حوالے سے امریکی تاریخ بہت پرانی ہے۔ 1872 میں دنیا کا پہلا نیشنل پارک ییلو سٹون میں بنایا گیا۔ اس کے بعد اب تک 57 مزید نیشنل پارک اور سینکڑوں دیگر پارک اور جنگلات کو اس ضمن میں بنایا جا چکا ہے۔ ملک کے کچھ حصوں کو اس مقصد کے لئےلیے مخصوص کردیا ہے کہ ادھر کوئی تبدیلی واقع نہیں کی جا سکتی۔ امریکی ماہی پروری اور جنگلی حیات کے محکمے نے خطرے میں اور معدوم ہونے کے قریب موجود نسلوں کو ان کے قدرتی ماحول میں بچا کر الگ کر دیا ہے۔ اس کے ساتھ امریکا کی حکومت 1020779 مربع میل کا علاقہ چلا رہی ہے جو کل رقبے کا 28 % ہے۔ اس زمین کو پارکوں اور جنگلات کے لئےلیے مختص کیا گیا ہے لیکن اس کا کچھ حصہ تیل اور گیس کی دریافت، کان کنی اور مویشیوں کے فارمز کے لئےلیے بھی استعمال ہوتا ہے۔
 
== معیشت ==
سطر 264:
امریکا میں اوسط گھریلو آمدنی 46326 ڈالر سالانہ ہے اور 25 سے 64 سال کی عمر کے افراد کی اوسط سالانہ انفرادی آمدنی 32611 ڈالر ہے۔
 
معاشی سرگرمیاں ملک میں بہت زیادہ متفرق ہوتی ہیں۔ نیو یارک شہر کو ملک کی معاشی، چھپائی، نشر و اشاعت اور اشتہاراتی مرکز کی حیثیت ہے جبکہ لاس اینجلس کو فلم اور ٹیلی ویژن کے لئےلیے مشہور مانا جاتا ہے۔ سان فرانسسکو کی خلیج ٹیکنالوجی کے لئےلیے بہت اہم ہے۔ وسطی مغربی علاقہ اپنی بھاری صنعتوں کے لئےلیے مشہور ہے، ڈیٹرائیٹ امریکی موٹر گاڑیوں کی صنعت کے لئےلیے تاریخی اہمیت کا حامل ہے اور شکاگو اپنے علاقے میں تجارتی اور معاشی حوالے سے بہت اہم ہے۔ جنوب مشرق میں زراعت، سیاحت اور درختوں کی صنعت کے لئےلیے مشہور ہے کیونکہ یہاں معاوضے ملک کے دیگر حصوں سے نسبتا کم ہوتے ہیں۔
 
امریکی معیشت کا زیادہ تر حصہ خدمات سے حاصل ہوتا ہے جہاں کل افراد کا تین چوتھائی حصہ کام کرتا ہے۔ صنعتی زوال کی وجہ سے 2011ء میں 22 ملین افراد حکومت کے ملازم تھے اور صناعی میں 11 ملین، جبکہ 1960ء میں صورتحال اس کے برعکس تھی۔<ref>{{cite news |title=We've Become a Nation of Takers, Not Makers:
More Americans work for the government than in manufacturing, farming, fishing, forestry, mining and utilities combined. |author=اسٹیفم موور |url=http://online.wsj.com/article/SB10001424052748704050204576219073867182108.html |newspaper= |date=[[وال سٹریٹ جورنل]]1 اپریل 2011ء |accessdate=2 April 2011}}</ref>
 
ملک کی معیشت کا بہت بڑا حصہ قدرتی ذرائع کی کثرت ہے جیسا کہ کوئلہ، تیل اور قیمتی دھاتیں۔ تاہم ابھی تک یہ ملک اپنی توانائی کے لئےلیے زیادہ تر دیگر ممالک پر انحصار کرتا ہے۔ زراعت میں مکئی، سورج مکھی، چاول اور گندم کی پیداوار کے لئےلیے یہ ملک پہلے نمبر پر ہے۔ امریکا میں سیاحت کی کافی وسیع صنعت موجود ہے اور یہ دنیا میں تیسری نمبر پر آتی ہے۔ اس کے علاوہ ہوائی جہازوں، سٹیل، ہتھیاروں اور الیکٹرانکس کی مصنوعات کی برآمد کے لئےلیے امریکا کا بہت بڑا حصہ ہے۔ کینیڈا امریکا کی بیرونی تجارت میں انیس فیصد کے ساتھ پہلے نمبر پے اور اس کے بعد چین، میکسیکو اور جاپان کے نمبر آتے ہیں۔
 
امریکا میں فی کس آمدنی کا شمار دنیا کی سب سے زیادہ آمدنیوں میں سے ہوتا ہے۔ اس کی فی کس آمدنی مغربی یورپ سے زیادہ ہے۔ 1975ء سے ملکی منڈی کی حقیقی آمدنی تقریباً ساری کی ساری بیس فیصد خاندانوں میں پہنچتی ہے ۔
 
امریکی معاشرے میں سماجی طبقات کی تبدیلی یورپی، سکینڈے نیویا کے ممالک اور کینیڈا سے کم ہے۔ بعض ماہرین کے خیال میں اس کی وجہ تعلیمی نظام ہے۔ امریکی تعلیمی نظام میں تعلیم کا خرچہ زیادہ تر ٹیکسوں سے اور بقیہ حصہ حکومتی خزانے سے ادا کیا جاتا ہے۔ اس لئےلیے امیر علاقوں اور غریب علاقوں کی تعلیم میں زمین آسمان کا فرق پیدا ہو جاتا ہے۔ ایک سابقہ فیڈرل ریزرو بورڈ کے چئیرمین ایلن گرین سپین کے مطابق یہ آمدنیوں کا یہ فرق اور لوگوں کا معاشی ترقی کرنے کی کم ہوتی ہوئی رفتار بالآخر اس پورے نظام کو زمین بوس کردے گی۔
 
== ایجادات ==
 
امریکا اپنی سائنسی اور ٹیکنالوجی کی ایجادات کی وجہ سے اور نئی ایجاد ہونے والی مصنوعات کی پیداوار کے لئےلیے بہت مشہور ہے۔ تحقیق و ترویج کے لئےلیے فنڈز کا 69% حصہ پرائیوٹ سیکٹر سے ملتا ہے۔ دوسری جنگ عظیم میں امریکا نے ایٹم بم کی ایجاد کے کام کی سربراہی کی اور نئے ایٹمی دور کی بنیاد قائم کی۔ سرد جنگ کے آغاز میں امریکا نے خلائی سائنس اور ٹیکنالوجی میں بہت کامیابیاں حاصل کیں اور خلائی دوڑ کا آغاز بھی کیا۔ اس دوران امریکا نے راکٹ، ہتھیاروں، مادی سائنسوں، کمپیوٹروں اور دیگر شعبوں میں ترقی کی۔ ٹیکنالوجی میں ترقی کی معراج تب دکھائی دی جب نیل آرم سٹرانگ نے پہلی بار جولائی 1969ء میں اپالو 11 کی مدد سے چاند پر قدم رکھا۔ اسی طرح امریکا نے انٹرنیٹ اور اس سے پہلے آرپا نیٹ کو بھی بنایا۔ امریکا اپنے زیادہ تر انفراسٹرکچر کو خود ہی کنٹرول کرتا ہے۔
 
سائنسی بالخصوص فزیالوجی اور میڈیسن میں امریکیوں نے بہت زیادہ نوبل پرائز حاصل کئے ہیں۔ قومی ادارہ برائے صحت بائیو میڈیسن کے لئےلیے امریکا کا مرکز ہے اور پرائیوٹ فنڈ سے چلنے والا ادارہ سیلیرا جی نومکس نے انسانی جینیاتی پروجیکٹ کی تکمیل میں بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔ ہوابازی اور خلا کے لئےلیے ناسا کا کردار بہت اہم ہے۔ بوئنگ اور لاک ہیڈ مارٹن بھی بہت اہم ہیں۔
 
== ذرائع نقل و حمل ==
 
آٹو موبائل کی صنعت اکثر ممالک کی نسبت جلدی شروع ہوئی۔ ملکی ذرائع نقل و حمل کے لئےلیے ریڑھ کی ہڈی کا کردار ہائی ویز ادا کرتے ہیں جن میں بہت بڑی تعداد میں مسافر گاڑیاں اور مال برداری کے ٹرک روزانہ گزرتے ہیں۔ 2004ء میں لئےلیے گئے ڈیٹا کے مطابق امریکا میں 3982521 میل یعنی 6407637 کلو میٹر لمبی سڑکیں موجود ہیں جو دنیا بھر میں سب سے زیادہ ہیں۔
 
عوام کے سفر کے لئےلیے نظام بڑے شہروں میں موجود ہیں جیسا کہ نیو یارک میں دنیا کا بہت مصروف سب وے سسٹم موجود ہے۔ چند شہروں کے سوا، اکثر امریکی شہر نسبتا کم گنجان آباد ہیں اور اس کی وجہ سے اکثر خاندانوں کے پاس ذاتی گاڑیاں لازمی چیز بن گئی ہیں۔
 
امریکا پرائیوٹ مسافر ریل کی پٹڑیوں کے لئےلیے بھی منفرد حیثیت رکھتا ہے۔ 1970ء کے دوران حکومت نے مداخلت کرکے انہیں باقاعدہ کیا اور تمام پیسنجر سروسوں کو حکومتی ماتحت ایمٹریک کارپوریشن کے ماتحت کردیا۔ امریکا کا ریلوے کا نظام دنیا میں سب سے بڑا نظام ہے۔
 
لمبے فاصلے کے لئےلیے مسافر ہوائی سفر کو ترجیح دیتے ہیں۔ مسافروں کی تعداد کے لحاظ سے 2004ء میں دنیا کے تیس مصروف ترین ایئرپورٹس میں سے سترہ امریکی شمار ہوتے تھے۔ مسافروں کے لحاظ سے دنیا کا سب سے مصروف ائیر پورٹ ہارٹس فیلڈ جیکسن اٹلانٹا انٹرنیشنل ایئر پورٹ امریکا میں ہی ہے۔ اسی طرح سامان کی منتقلی کے لئےلیے دنیا کے تیس مصروف ترین ائیر پورٹوں میں سے بارہ امریکا میں ہیں۔ سامان کی منتقلی کے لئےلیے دنیا کا سب سے مصروف ایئر پورٹ ممفس انٹرنیشنل ائیر پورٹ ہے۔
 
دنیا کی کئی بڑی بندرگاہیں امریکا میں ہیں جن میں سے تین سب سے زیادہ مصروف ،کیلیفورنیا کی لاس اینجلس بندرگاہ، لانگ بیچ کی بندرگاہ اور نیویارک اور نیو جرسی کی بندرگاہ شامل ہیں۔ امریکا کے اندر بھی آبی نقل و حمل کے لئےلیے [[سینٹ لارنس بحری گزرگاہ|سینٹ لارنس کی بحری گزرگاہ]] اور دریائے مسی سیپی بہت مشہور ہیں اٹلانٹک اور گریٹ لیک کے درمیان بننے والی پہلی نہر ایری کینال نے زراعت اور صنعت کو وسط مغربی امریکا میں بہت ترقی دی اور نیویارک شہر کو ملک کا معاشی مرکز بنا دیا۔
 
== آبادی ==
سطر 306:
 
=== بصری فنون لطیفہ ===
اٹھارہویں اور انیسویں صدی میں امریکی فنون لطیفہ نے یورپ سے بہت اثر لیا۔ مصوری، مجسمہ سازی اور ادب کے لئےلیے یورپ کی تقلید کی گئی اور پورپ سے اس کی قبولیت کو معیار بنایا گیا۔ امریکی خانہ جنگی کے اختتام تک امریکی ادب کی تخلیق شروع ہو گئی تھی۔ مارک ٹوئین، ایمائیلی ڈکنسن اور والٹ وہائٹ مین نے سب کچھ امریکی انداز میں پیش کرنا شروع کیا۔ بصری فنون میں امریکی اثرات بہت آہستہ روی سے مرتب ہوئے۔ 1913ء میں نیویارک میں ہونے والے آرمری شو کے دوران ایک نمائش منعقد ہوئی جس میں یورپی جدت پسند فنکاروں کا امریکا کے لئےلیے کیا جانے والا کام سامنے لایا گیا اور اس نے نہ صرف عوام کو جھنجھوڑا بلکہ بیسوی صدی کے بقیہ حصے میں اپنے اثرات مرتب کئے۔ اس نمائش کے دو سطحی اثرات واقع ہوئے جس میں انہوں نے امریکی فنکاروں کو یہ دکھایا کہ فنون لطیفہ اپنے خیالات کا اظہار ہے اور یہ کوئی ادبی یا حقیقت پسندی کو ظاہر نہیں کرتی اور اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی دکھایا کہ یورپ فنکاروں کے کام پر تنقید کے لئےلیے اپنے قدیم خیالات کو چھوڑ چکا ہے جن میں فنکاروں کو سختی کے ساتھ اصولوں کی پاسداری کرنی پڑتی تھی۔ اس سے امریکی فنکاروں کو اپنی شناخت کا موقع ملا اور ایک جدت پسندی کی مہم چلی اور امریکی تہذیب ابھر کر سامنے آئی۔ ایلفرڈ سٹی گلیٹز (1864ء سے 1946ء) فوٹو گرافر، چارلس ڈی متھ (1883ء سے 1935ء) اور مارسڈین ہارٹلے (1877ء سے 1943ء)، دونوں مصوروں نے فنون لطیفہ کے حوالے سے امریکا کا مقام بنایا۔ ماڈرن آرٹ کے عجائب گھر، جو نیو یارک میں 1929ء میں بنایا گیا، امریکی اور بین الاقوامی فنون لطیفہ کا شوکیس بن گیا۔ دوسری جنگ عظیم کے فیصلے کے بعد دنیا کے فنون لطیفہ کا مرکز پیرس سے منتقل ہو کر امریکا میں منتقل ہو گیا۔
 
=== موسیقی ===