"سقوط بغداد 1258ء" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م درستی املا
سطر 32:
 
== فوج کی تشکیل ==
1257 میں منگول حکمران مونكو خان نے عباسى خلافت پر غالب آنے کا فیصلہ کیا یہ جان کر کہ بغدادکا علاقہ ایک بڑا اور مرکزی علاقہ تھا اس نے اپنی فوج کے لئےلیے اپنے ملک میں سے ہر دس لڑاکوں میں سے ایک کو بھرتی کیا. ایک مضبوط تخمینے سے یہ فوج شاید منگولوں کی طرف سے سب سے بڑی فوج تھی. جس کے جنگجوؤں کی تعداد لگ بھگ ایک لاکھ پچاس ہزار تھی۔ نومبر 1257 میں ہلاكو خان اور چینی کمانڈر کان گوا کی کمان میں ، انہوں نے بغداد کی طرف کوچ کیا جس میں مختلف عیسائی افواج کا ایک بڑا دستہ بھی شامل تھا، ان میں سے ایک بڑا حصہ جورجيين تھا، جو اپنے دار الحکومت، تفليس کی شكست کا بدلہ لینے کے بے چین تھے جو جلال الدین خوارزم شاہ کی طرف سے دہائیوں پہلے فتح کیا گیا تھا دوسرے حصہ لینے والے عیسائی افواج میں آرمینیا کی فوج، اپنے بادشاہ کی قیادت میں تھى اور سلطنت انتاکیا سے کچھ فرانسیسی دستے تھے ۔ عصر حاضر کا فارسی مبصر علاءالدين عطا الملك جويني ہمیں بتاتا ہے کہ محاصرے کے شرکاء تقریباً 1،000 چینی آرٹلری کے ماہرین تھے، اور وہاں ارمینیائی ، جورجيين ، فارسی اور ترک بھی تھے.
 
== محاصرہ ==
 
بغداد کے محاصرہ سے پہلے، ہلاكو خان نے بآسانی لر کے شہركو تباہ کر ڈالا اور اس کی دہشت سےتو حشّاشين‎ اتنا گھبرا گئے کہ انہوں نے 1256 میں ایک لڑائی کے بغیراپنے ناقابل تسخیرگڑھ '''قلعة ألموت''' میں ہتھیار ڈال دئے . پھر وہ بغداد چلا گیا. مونكو خان نے اپنے بھائی کو حکم دیا کہ وہ خلافت کو چھوڑ دیں اگر وہ منگولوں كى فرمانبرداری قبول کرتے ہیں. بغداد کے قریب ، ہلاكو خان نے ہتھیار ڈالنے کا مطالبہ کیا، لیکن خلیفہ، معتصم، نے انکار کر دیا. کئی وجوہات کی بنا پر، خلیفہ، معتصم حملے کے لئےلیے تیاری کرنے میں ناکام رہا تھا؛ اس نے نہ لشکر جمع کئے اور نہ ہی شہر کی دیواروں کو مضبوط کیا اس سے بھی زیادہ بدتر اس نے ہلاكو خان کو اپنی دھمکی سے بہت زیادہ ناراض كر دیا اور اس طرح اپنے بربادی کو یقینى بنا ليا ہلاكو نے دجلة کے دونوں کناروں پر لشکر کو تعینات کیا ، خلیفہ کی فوج نے مغرب سے حملہ آور افواج میں سے کچھ کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کیا، لیکن اگلی جنگ میں ہار گئے. حملہ آور منگولوں نے کچھ حفاظتى بندوں کو توڑ دیا جس کی وجہ سے وہاں فوج کے پیچھے ایک سیلاب آ گیا اور وہ پھنس گئے اس طرح بہت سے فوجیوں کو ذبح کر دیا یا غرق کر دیا گیا. چینی دستےنے 29 جنوری کو شہر کا محاصرہ شروع کیا یہ جنگ محاصرہ کے معیار کے مطابق بہت تیز تھی :5 فروری کو منگولوں نے دیوار کا کنٹرول لے لیا. معتصم نے گفت و شنید كى کی کوشش کی ، لیکن اس سے انکار کر دیا گیا. 10 فروری، بغداد نے ہتھیار ڈال دئے منگولوں نے 13 فروری کو شہر میں بھاری کامیابی حاصل کی اور قتل عام اور تباہی کا ہفتہ شروع کر دیا.
 
== تباہی ==
بيت الحكمہ، جو بے شمار قیمتی تاریخی دستاویزات اور طب سے لیکر علم فلکیات تک کے موضوعات پرلكھی گئی کتب كا گھر تھا کو تباہ کر ڈالا گیا۔ زندہ بچ جانے والوں نے کہا کہ دریائے دجلہ کا پانی ان کتب كی سیاہی کے ساتھ سیاہ پڑ گیا جو بہت زیادہ تعداد میں دریا میں پھینک دى گئی تھیں۔ نہ صرف یہ مگر کئی دنوں تک اس کا پانی سائنسدانوں اور فلسفیوں کے خون سے سرخ رہا۔ شہریوں نے فرار کی کوشش کی مگر منگول سپاہیوں نے کسی کو نہیں چھوڑا۔ مارٹن سكر لکھتا ہے کہ مرنے والوں کی تعداد نوے ہزار ہو سکتی ہے (Sicker 2000, p. 111) دیگر تخمینے کافی زیادہ ہیں۔ وصّافِ کا دعوی ہے کہ انسانی زندگی کا نقصان کئی لاکھ تھا۔ ایان فريزر (دی نیویارکر سے) کا کہنا ہے کہ مرنے والوں کی تعداد کا تخمینہ 200،000 سے دس لاکھ ہے۔ منگولوں نے لوٹ مارکی اور پھر مساجد، محلات، لائبریریوں، اور ہسپتالوں کو تباہ کر ڈالا۔ شاہی عمارات کو جلا دیا گیا۔ خلیفہ کو گرفتار کر لیا گیا اور اس کے اپنے شہریوں کا قتل عام اور اپنے خزانے كی لوٹ مار دیکھنے کے لئےلیے مجبور کر دیا گیا۔ منگولوں نے ایک قالین میں خلیفہ کو لپیٹ کر اپنے گھوڑوں کے نیچے کچل دیا
 
== متعلقہ مضامین ==