"علی ہجویری" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
(ٹیگ: ترمیم از موبائل موبائل ویب ترمیم)
سطر 39:
ابو سعید فضل اللہ بن محمد مہینی کے ذکر میں لکھتے ہیں کہ آپ طریقت کے جمال اور وقت کے صاحب دبدبہ بادشاہ تھے، اور تمام اہل زمانہ آپ کے گرویدہ تھے۔ تعلیم ابتداء میں ابو علی زاہد سے سرخس میں حاصل کی۔ ایک دن میں تین دن کا سبق لیتے اور تین دن اللہ تعالٰیٰ کی عبادت میں مشغول رہتے۔ آپ نے مسلسل ریاضت اور مجاہدہ کیا۔ یہاں تک کہ اللہ نے آپ کو اعلیٰ مرتبہ پر پہنچایا۔ بہت شاہانہ زندگی بسر کرتے تھے۔ شیخ ابو مسلم فارسی نے مجھے بتایا کہ میری گودڑی بہت میلی کچیلی تھی۔ آپ کے پاس پہنچا، تو آپ بہت شاہانہ لباس میں تخت پر دراز تھے اور اوپر مصری دیبا کی چادر اوڑھے ہوئے تھے۔ میں نے یہ دیکھ کر دل میں خیال کیا کہ اس ٹھاٹھ کے ساتھ فقر کا دعویٰ بھی عجیب بات ہے۔ مجھے دیکھو کہ میں اس گودڑی میں فقر کا دعویٰ کرتا ہوں۔ لیکن میرے کوئی بات زبان پر لائے بغیر آپ نے فرمایا کہ تم نے یہ باتیں کس دیوان میں لکھی پائی ہیں؟ میں اس پر اپنے دل میں بہت شرمندہ ہوا۔ آپ نے فرمایا کہ؛ اَلَتّصَوَّفُ قَیَامُ القَلبِ مَعَ اللہِ، یعنی تصوف تو اللہ سے دل لگانے کا نام ہے۔<br />
ایک دفعہ آپ نیشا پور سے طوس کو جارہے تھے۔ راستے میں سرد گھاٹی پڑتی ہے۔ آپ اپنے پاؤں میں سردی محسوس کر رہے تھے۔ ساتھ جو درویش تھا وہ بیان کرتا ہے کہ میرے دل میں خیال آیا کہ اپنے رومال کے دو ٹکڑے کر کے آپ کے پاؤں پر لپیٹ دو۔ لیکن پھر خیال آیا کہ میرا رومال بہت اچھا ہے اسے ضائع کیوں کروں۔ لیکن میں نے کچھ کہا نہیں۔ طوس پہنچ کر ہم مجلس میں بیٹھے تھے کہ میں نے آپ سے سوال کیا۔ اے شیخ حقّانی! الہام اور وسوسہ میں کیا فرق ہے؟ آپ نے فرمایا کہ الہام تو وہ ہے جس نے تیرے دل میں یہ خیال پیدا کیا کہ اپنے رومال کر ابو سعید کے پاؤں کے گرد لپیٹ دوں تاکہ اس کے پاؤں کو سردی نہ لگے اور شیطانی وسوسہ وہ تھا کہ جس نے تجھے ایسا کرنے سے روکا۔
 
=== ابو احمد مظفر بن احمد بن حمدان ===
ابو احمد مظفر بن احمد بن حمدان کے حالات میں لکھتے ہیں کہ آپ اولیاء کے رئیس اور صوفیوں کے ناصح تھے۔ اللہ تعالٰی نے ریاست ہی کے مسند پر آپ پر بھید کھولا اور کرامت کا تاج آپ کے سر پر رکھا۔ میں نے خود ان سے سنا کہ دوسرے لوگوں نے جو کچھ بیابانوں اور جنگلوں کی منزلیں قطع کر کے پایا مجھے اللہ تعالٰیٰ نے وہ چیزیں مسند اور بالا نشینی میں عطا فرمائی۔ فنا اور بقاء میں آپ کا کلام بہت اچھا ہے۔ میں ایک روز کرمان سے آپ کے پاس آیا۔ میرے کپڑے راستے کی گرد سے اَٹے ہوئے تھے۔ آپ نے مجھ سے کہا، کہو ابوالحسن کیا ارادہ ہے؟ میں نے کہا کہ میرا دل سماع کو چاہتا ہے۔ آپ نے اسی وقت انتظام کر دیا اور قوالوں کو بلایا، لڑکپن کا زمانہ تھا۔ پہلے ہی کلمات کے سماع سے بے قرار ہو گیا۔ کچھ وقفہ کے بعد جب میرا غلبہ اور جوش کچھ کم ہوا تو پوچھا، کہو، اس سماع سے کیا گزری؟ میں نے عرض کیا۔ اے شیخ! میں بہت خوش ہوا ہوں۔ فرمایا کہ ایک وقت تجھ پر ایسا آئے گا کہ یہ سماع اور کوے کی آواز تیرے لیے یکساں ہو جائے گی۔ سماع میں قوت اسی وقت تک ہے جب تک مشاہدہ حاصل نہیں ہوتا۔ دیکھو، کہیں اس کی عادت نہ کر لینا کہ تیری طبیعت کا جز بن جائے۔ اگر ایسا ہوا تو تو یہیں رہ جائے گا۔