"غزوہ ذات الرقاع" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
گروہ زمرہ بندی: حذف از زمرہ:محمد بن عبد اللہ
م درستی املا
سطر 14:
 
==[[وجہ تسمیہ]]==
رقاع کپڑے کے چیتھڑے کو کہتے ہیں اور ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اس غزوہ میں چلتے چلتے ہمارے پاؤں پھٹ گئے اور ہم نے ان پر کپڑوں کے چیتھڑے لپیٹ لیے اسی لیے اس غزوے کا نام ذات الرقاع پڑ گیا-<ref>صحیح بخاری، کتاب مغازی، باب غزوہ ذات الرقاع، حدیث 4128</ref> بعض مؤرخین نے کہا کہ چونکہ وہاں کی زمین کے پتھر سفید و سیاہ رنگ کے تھے اور زمین ایسی نظر آتی تھی گویا سفید اور کالے پیوند ایک دوسرے سے جوڑے ہوئے ہیں،لہٰذا اس غزوہ کو ''غزوہ ذات الرقاع'' کہا جانے لگااور بعض کا قول ہے کہ یہاں پر ایک درخت کا نام ''ذات الرقاع'' تھااس لئےلیے لوگ اس کو غزوہ ذات الرقاع کہنے لگے،ہو سکتا ہے کہ یہ ساری باتیں ہوں۔ <ref>زرقانی جلد2 ص88</ref>
 
==وجوہات==
ایک شخص تجارت کیلئے مدینہ آیا اس نے بتایا کہ قبائل ''انمار و ثعلبہ'' نے مدینہ پر چڑھائی کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں جب حضور ﷺ کو اِس کی اطلاع ملی توآپ ﷺ نے چارسوصحابہ کرام کالشکراپنے ساتھ لیا۔عثمان بن عفان کو مدینہ میں نائب مقرر کیا
==واقعات==
10محرم 5ھ کو مدینہ سے روانہ ہو کر مقامِ ''ذات الرقاع'' تک تشریف لے گئے لیکن آپ ﷺ کی آمد کا حال سن کر یہ کفار پہاڑوں میں بھاگ کر چھپ گئے اس لئےلیے کوئی جنگ نہیں ہوئی۔ مشرکین کی چند عورتیں ملیں جن کو صحابہ کرام نے گرفتارکرلیا۔اس وقت مسلمان بہت ہی مفلس اور تنگ دستی کی حالت میں تھے۔ چنانچہ ابو موسیٰ اشعری کا بیان ہے کہ سواریوں کی اتنی کمی تھی کہ چھ چھ آدمیوں کی سواری کے لئےلیے ایک ایک اونٹ تھا جس پر ہم لوگ باری باری سوار ہو کر سفر کرتے تھے پہاڑی زمین میں پیدل چلنے سے ہمارے قدم زخمی اور پاؤں کے ناخن جھڑ گئے تھے اس لئےلیے ہم لوگوں نے اپنے پاؤں پر کپڑوں کے چیتھڑے لپیٹ لئےلیے تھے یہی وجہ ہے کہ اس غزوہ کا نام ''غزوہ ذات الرقاع'' (پیوندوں والا غزوہ) ہو گیا۔
==نتائج==
مشہور امام سیرت ابن سعد کا قول ہے کہ سب سے پہلے اس غزوہ میں حضور ﷺنے '' صلوٰۃ الخوف'' پڑھی۔<ref>زُرقانی ج2ص90</ref>