"امراؤ جان ادا" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
سطر 41:
 
جہاں تک پلاٹ کا ، قصے یا کہانی کا تعلق ہے تو صاف ظاہر ہے کے ناول کا پلاٹ ، انتہائی رواں دواں سیدھا سادہ اور ہرقسم کی پیچیدگی سے مبرا ہے۔ کہانی کے سبھی حالات و واقعات ایک خاص تسلسل کے ساتھ یکے بعد دیگرے ظہور پذیر ہوتے چلے جاتے ہیں ۔ اور قاری کے ذہن پر مختلف نقوش ثبت کرتے رہتے ہیں۔ ناول کے پلاٹ میں سے گزرتے ہوئے ہماری آنکھوں کے سامنے مختلف حالات و واقعات مختلف اوقات میں وقوع پذیر ہوتے رہتے ہیں۔ مختلف مناظر اور نظارے پل بھر کے لئے بہار دکھاتے ہوئے گذر جاتے ہیں مختلف زندگیاں مختلف کردار کی صورت میں اپنی اپنی بولی بول کر اوجھل ہو جاتی ہیں اور پڑھنے والا سوچوں کی اتھاہ گہرائیوں میں چھوڑ جاتی ہیں۔ ناول کے پلاٹ میں ایک ہی قصے کے باوجود بہت سے چھوٹے چھوٹے واقعات ہیں جو باہم مربو ط ہو کر ایک بڑی کہانی تشکیل دیتے ہیں۔امراؤ جان کے اغوا سے لے کر آخر تک تمام واقعات فنکارانہ مہارت و چابکدستی سے باہم منسلک کر دئیے گئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ناول میں خرابی یا جھول محسوس نہیں ہوتا۔
 
==تصویر کشی==
 
ناول نگار نے ناول کی دلچسپی برقر ار رکھنے کی خاطر گاہے گاہے تصویر کشی سے بھی کام لیا ہے تاکہ پڑھنے والا طوائفوں کے کوٹھوں اور تاریک کمروں سےاکتاجائے تو ذرا کھلی فضا میں سانس لے سکے۔ اگر وہ کسی ذہنی بو جھ کا شکار ہو گیا ہے تو دوبارہ سے تر و تازہ ہو جائے۔ اس موقع پر مرزا ہادی رسوا نے ایسی کامیاب او ر جیتی جاگتی منظر کشی پیش کی ہے کہ ہماری آنکھوں کے سامنے ہو بہو مناظر پھر جاتے ہیں اور ہم اپنے آپ کو بازاری آلودگیوں سے دور آغوش فطرت میں محسوس کرنے لگتے ہیں۔ یہی فطرت ہے جو انسان کو ماں کاخلوص اور پیار دیتی ہے۔ مثال کے طور پر<br>
” سامنے گنجان درخت تھے سورج انہی گنجان درختوں کی آڑ میں ڈوب رہاتھا۔ سبزے پہ سنہری کرنوں کے پڑنے سے عجیب کیفیت دکھائی دے رہی تھی۔ جابجا جنگلی پھول کھلے تھے۔ چڑیاں سبزے کی تلاش میں ادھر ادھر پھر رہی تھیں سامنے جھیل کے پانی پر آفتاب کی شعاعوں سے وہ عالم نظرآتا تھا جیسے پگھلا ہو ا سونا تھلک رہا ہو۔“
 
==اسلوب==