"ریاست ہائے متحدہ" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م درستی املا
م درستی املا بمطابق فہرست املا پڑتالگر
سطر 196:
{{اس|دہشت کے خلاف جنگ}}
 
[[11 ستمبر]] [[2001ء]] کو القاعدہ کے انیس ارکان نے چار کمرشل ہوائی جہازوں کو اغوا کرلیا۔کر لیا۔ (بقول امریکا کے) دو جہازوں کو نیو یارک شہر میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے جڑواں ٹاوروں سے ٹکرا دیا گیا اور تیسرا جہاز پینٹاگون، واشنگٹن ڈی سی سے ٹکرا کر تباہ کیا گیا ۔ چوتھا جہاز ہائی جیکرز اور مسافروں کے درمیان جنگ کی وجہ سے شانکسول، پینسلوانیا میں تباہ ہوا ۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ چوتھا جہاز اغوا ہوجانے کے بعد امریکی جنگی طیاروں نے خود ہی کسی مزید ممکنہ حملے کے خوف سے مار گرایا ۔ نائن الیون کے حملوں کے بعد، امریکا خارجہ پالیسی دہشت گردی کی عالمی صورتحال پر مرکوز ہوگئی۔ جواب کے طور پر جارج ڈبلیو بش کی زیر صدارت، امریکی حکومت نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بہت سارے فوجی اور قانونی آپریشن شروع کئے۔ [[دہشت پر جنگ|دہشت گردی کے خلاف جنگ]] [[8 اکتوبر]] 2001ء میں شروع ہوئی جب امریکا کی سربراہی میں افغانستان میں طالبان حکومت کے خلاف فوجی کارروائی شروع ہوئی تاکہ القاعدہ کی تنظیم اور اس کے لیڈروں کو باہر نکالا جائے۔ 11 ستمبر کے واقعات نے امریکی تحفظ کے خلاف ہونے والے کسی بھی واقعے کے خلاف پیشگی حملوں کی پالیسی کو جنم دیا جسے بش ڈاکٹرائن کے نام سے جانا جاتا ہے۔
 
[[2002ء]] کو قوم سے خطاب کے دوران، صدر جارج ڈبلیو بش نے شمالی کوریا، عراق اور ایران کو برائی کا محور قرار دیا اور بتایا کہ یہ ممالک امریکا اور اس کے اتحادیوں کے خلاف بڑا خطرہ ہیں۔ اسی سال امریکا نے عراق میں حکومت کی تبدیلی کے اشارے دینا شروع کردئیے۔ اقوام متحدہ کی کئی قراردوں کی ناکامی اور صدام حسین کی طرف سے ہتھیار ڈالنے سے انکار کے بعد امریکا اور اس کے اتحادیوں نے مارچ [[2003ء]] میں عراق پر حملہ کردیا۔ اس حملے کے جواز کے طور پر امریکی حکومت نے کہا کہ عراق کے پاس وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کا ذخیرہ ہے اور یہ ایٹمی ہتھیاروں کے حصول کے لیے تگ و دو کر رہا ہے۔ جنگ کے بعد بہت کم مقدار میں غیر ایٹمی ہتھیاروں کے چند ذخیرے ملے اور اس کے بعد امریکی حکومت نے اقرار کیا کہ انہوں نے غلط جاسوسی اطلاعات پر حملہ کیا تھا۔