"سنوسی تحریک" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
گروہ زمرہ بندی: حذف از زمرہ:تاریخ اسلام
م درستی املا بمطابق فہرست املا پڑتالگر
سطر 24:
انیسویں صدی کے آخر میں جب [[فرانس]] نے مغربی افریقہ پر قبضہ کرنا چاہا تو سنوسیوں سے اس کا تصادم ہوگیا۔ سیدمہدی کے انتقال کے بعد ان کے صاحبزادے [[محمد ادریس]] کی عمر صرف 12 سال تھی۔ اس لیے تحریک کی قیادت ان کے چچا زاد بھائی [[سید احمد شریف]] (1873ء تا 1933ء) نے سنبھالی۔ فرانس نے سنوسیوں کے خلاف 1902ء میں فوجی کارروائی شروع کی۔ سید احمد شریف دس سال کا فرانس کا مقابلہ کرتے رہے لیکن اس جنگ میں سنوسی تحریک کو نقصان پہنچا اور صحرائے اعظم کے جنوبی علاقوں میں اس تحریک کا زور ٹوٹ گیا۔
 
فرانس سے جنگ کا ابھی خاتمہ ہی نہیں ہوا تھا کہ سنوسیوں کا تصادم [[اطالیہ|اٹلی]] سے ہوگیا۔ یہ حملہ شمال کی سمت سے لیبیا پر ہوا تھا۔ سنوسی اگرچہ لیبیا کی صحرائی زندگی پر چھائے ہوئے تھے لیکن لیبیا انتظامی لحاظ سے [[سلطنت عثمانیہ|عثمانی سلطنت]] کا ایک حصہ تھا اور ساحلی علاقوں اور شہروں میں ترکی حکومت مستحکم تھی۔ اطالوی باشندے کچھ سے ساحلی علاقوں میں آباد ہونا شروع ہوگئے تھے اور انہوں نے کاروباری دنیا پر غلبہ حاصل کرلیاکر لیا تھا۔ اٹلی نے اپنے سیاسی عزائم کو پورا کرنے کے لیے انہی اطالوی باشندوں کی جان و مال کی حفاظت کے بہانے سے لیبیا میں مداخلت شروع کردی۔ یہ وہی طریقہ تھا جس پر برطانوی حکومت مصر میں اور فرانسیسی حکومت شمالی افریقہ میں عمل کرچکی تھی۔ اٹلی نے [[26 ستمبر]] 1911ء کو ترکوں کے خلاف اعلان جنگ کردیا اور [[5 اکتوبر]] کو طرابلس پر قبضہ کرلیا۔کر لیا۔
 
ترکوں کے لیے لیبیا سے جنگ جاری رکھنا بہت مشکل تھا کیونکہ [[بلقان]] کی صورتحال نازک تھی اور بحری راستے سے کمک بھی نہیں بھیجی جاسکتی تھی۔ اس لیے ترکوں نے اکتوبر 1912ء میں اطالویوں سے صلح کرلی اور لیبیا سے تمام فوجیں واپس بلانے کا وعدہ لیا۔ اس دوران سید احمد شریف کفرہ سے جغبوب آئے اور وہاں ترک رہنما [[اسماعیل انور پاشا|انور پاشا]] سے ملاقات کی جو بھیس بدل کے مصر کے راستے لیبیا پہنچے تھے۔ اٹلی کو امید تھی کہ عربوں اور ترکوں کی نسلی کشمکش کی وجہ سے لیبیا کے عرب اطالویوں کا خیرمقدم کریں گے لیکن لیبیا کے حالات [[شام]]، [[عراق]] اور [[حجاز]] سے مختلف تھے، یہاں سنوسی تحریک نے اسلامی اخوت کا رشتہ اتنا مضبوط کردیا تھا کہ نسلی اور علاقائی مفادات اور تعصبات اس کو نہیں توڑ سکتے تھے۔ لیبیا کے باشندوں سے سنوسی قیادت میں ترکوں کی بھرپور مدد کی اور قدم قدم پر اٹلی کا مقابلہ کیا۔
سطر 30:
1914ء کے شروع تک بیشتر ترک فوجیں لیبیا سے واپس چلی گئیں اس لیے اٹلی سے جنگ کا سارا بوجھ سنوسیوں کے کاندھوں پر آپڑا۔ اس جنگ میں جو اب لیبیا کی آزادی کی جنگ بن چکی تھی، سید احمد شریف کی قیادت میں سنوسیوں نے 1912ء سے 1918ء تک اٹلی سے جنگ کی۔ 1915ء میں اٹلی اتحادیوں کی طرف سے [[جنگ عظیم]] میں شامل ہوگیا جس کی وجہ سے سنوسی مجاہدوں کا برطانیہ سے بھی ٹکراؤ ہوگیا اور فروری 1916ء میں برطانوی افواج نے حریت پسندوں کو شکست دے دی۔ سید احمد شریف اب لیبیا سے نکل کر نخلستان{{زیر}} داخلہ (مصر) میں پناہ لینے پر مجبور ہوگئے جہاں سے ستمبر 1918ء میں وہ [[ترکی]] چلے گئے۔ یہ وہی سید احمد سنوسی ہیں جو عرب قوم پرستوں کے مقابلے میں برابر ترکی خلافت کی تائید کرتے رہے۔
 
اب سنوسی تحریک کی قیادت سید محمد ادریس کے ہاتھ آگئی۔ اٹلی اور محمد ادریس کے درمیان صلح کے مذاکرات شروع ہوئے۔ ان مذاکرات کے نتیجے میں اٹلی نے محمد ادریس کو صحرائی علاقوں میں سنوسی تحریک کا امیر تسلیم کرلیاکر لیا لیکن اٹلی نے اس معاہدے کی خلاف ورزی کی۔ جس کی وجہ سے پھر لڑائی شروع ہوگئی اور محمد ادریس سنوسی کو دسمبر 1922ء میں مصر میں پناہ حاصل کرنی پڑی جہاں سے وہ سنوسیوں کی تحریک مزاحمت کی رہنمائی کرتے رہے۔
 
محمد ادریس کے مصر چلے جانے کے بعد مارچ 1923ء میں اٹلی نے لیبیا پر مکمل تسلط حاصل کرنے کی غرض سے ایک نئی مہم شروع کی۔ سنوسیوں نے حسب سابق ان جارحانہ کارروائیوں کا نہایت دلیری سے مقابلہ کیا۔ جنگ کا یہ سلسلہ 1933ء تک جاری رہا۔ اس جنگ میں سنوسی حریت پسندوں کی قیادت ایک اور سنوسی شیخ [[عمر مختار]] نے کی۔ اس جنگ میں اٹلی کی فوجوں سے سخت ظلم و ستم اور بربریت کا مظاہرہ کیا۔ سنوسی زاویے ڈھا دیے گئے، کنوؤں کو پاٹ دیا گیا، تاکہ مجاہد صحرا میں پیاس سے مرجائیں، جائیدادیں ضبط کرلی گئیں اور عمر مختار اور دیگر رہنماؤں کو گرفتار کرنے کے بعد پھانسی دے دی گئی۔ عمر مختار کی شہادت کے ساتھ سنوسی تحریک کی مسلح مزاحمت کا خاتمہ ہوگیا۔ آج [[طرابلس]] کی سب سے بڑی شاہراہ اسی مرد مجاہد کے نام پر شارع عمر مختار کہلاتی ہے۔