"صلاح الدین ایوبی" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م درستی املا
م درستی املا بمطابق فہرست املا پڑتالگر
سطر 24:
 
== ابتدائی دور ==
سلطان صلاح الدین نسلاً [[کرد]] تھے اور 1138ء میں [[کردستان]] کے اس حصے میں پیدا ہوئے جو اب عراق میں شامل ہے۔ شروع میں وہ سلطان [[نور الدین زنگی]] کے یہاں ایک فوجی افسر تھے۔ مصر کو فتح کرنے والی فوج میں صلاح الدین بھی موجود تھے اور اس کے سپہ سالار [[شیر کوہ]] صلاح الدین کے چچا تھے۔ مصر فتح ہو جانے کے بعد صلاح الدین کو 564ھ میں [[مصر]] کا حاکم مقرر کردیا گیا۔ اسی زمانے میں 569ھ میں انہوں نے [[یمن]] بھی فتح کرلیا۔کر لیا۔ نور الدین زنگی کے انتقال کے بعد صلاح الدین حکمرانی پر قابض ہوئے۔
 
== کارنامے ==
سطر 46:
[[بیت المقدس]] پر فتح کے ساتھ [[یروشلم]] کی وہ مسیحی حکومت بھی ختم ہوگئی جو [[فلسطین]] میں [[1099ء]] سے قائم تھی۔ اس کے بعد جلد ہی سارا فلسطین مسلمانوں کے قبضے میں آگیا۔
 
[[بیت المقدس]] پر تقریباً 761 سال مسلسل مسلمانوں کا قبضہ رہا۔ تاآنکہ [[1948ء]] میں [[ریاست ہائے متحدہ امریکہ|امریکہ]] ، [[برطانیہ]] ، [[فرانس]] کی سازش سے [[فلسطین]] کے علاقہ میں [[اسرائیل|یہودی سلطنت]] قائم کی گئی اور [[بیت المقدس]] کا نصف حصہ یہودیوں کے قبضے میں چلا گیا۔ [[6 روزہ جنگ|1967ء کی عرب اسرائیل جنگ]] میں [[بیت المقدس]] پر اسرائیلیوں نے قبضہ کرلیاکر لیا ۔
 
== تیسری صلیبی جنگ ==
سطر 74:
اس کو جہاد کا اتنا شوق تھا کہ ایک مرتبہ اس کے نچلے دھڑ میں پھوڑے ہوگئے ان کی وجہ سے وہ بیٹھ کر کھانا نہیں کھا سکتا تھا لیکن اس حالت میں بھی جہاد کی سرگرمی میں فرق نہ آیا۔ صبح سے ظہر تک اور عصر سے مغرب تک برابر گھوڑے کی پیٹھ پر رہتا۔ اس کو خود تعجب ہوتا تھا اور کہا کرتا تھا کہ جب تک گھوڑے کی پیٹھ پر رہتا ہوں ساری تکلیف جاتی رہتی ہے اور اس سے اترنے پر پھر تکلیف شروع ہوجاتی ہے ۔
 
مسیحیوں سے صلح ہو جانے کے بعد صلاح الدین نے عیسائیوں کو بیت المقدس کی زیارت کی اجازت دے دی۔ اجازت ملنے پر یورپ کے زائرین جو برسوں سے انتظار کررہےکر رہے تھے اس کثرت سے ٹوٹ پڑے کہ شاہ رچرڈ کے لیے انتظام قائم رکھنا مشکل ہوگیا اور اس نے سلطان سے کہا کہ وہ اس کی تحریر اور اجازت نامے کے بغیر کسی کو بیت المقدس میں داخل نہ ہونے دے ۔ سلطان نے جواب دیا ”زائرین بڑی بڑی مسافتیں طے کرکے زیارت کے شوق میں آتے ہیں ان کو روکنا مناسب نہیں“۔
سلطان نے نہ صرف یہ کہ ان زائرین کو ہر قسم کی آزادی دی بلکہ اپنی جانب سے لاکھوں زائرین کی مدارات، راحت، آسائش اور دعوت کا انتظام بھی کیا۔