"عباس اول" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
م درستی املا بمطابق فہرست املا پڑتالگر
سطر 35:
اس کا دور خاندان صفویہ کا عہد زریں ہے۔
 
محمد خدا بندہ کے بعد جب وہ ایران کے تخت پر بیٹھا تو اس کی عمر صرف 17 سال تھی۔ ایران کے شمال مغربی حصوں پر عثمانی ترک قابض تھے اور مشرق میں خراسان ازبکوں کے قبضے میں تھا یا ان کی تاخت و تاراج کا ہدف بنا ہوا تھا۔ اندرون ملک بھی بدامنی تھی اور صوبوں کے امراء سرکشی اختیار کئے ہوئے تھے۔ عباس نے اس صورتحال کا بڑے تدبر اور ہوشیاری سے مقابلہ کیا۔ اس نے سب سے پہلے ترکوں سے معاہدہ کرلیاکر لیا اور آذربائیجان، گرجستان اور [[لورستان]] کا ایک حصہ ا{{پیش}}ن کے حوالے کردیا۔ شاہ اسماعیل کے زمانے میں ایران میں اصحاب کرام پر تبرا بھیجنے کی جو قبیح رسم چلی آرہی تھی، اس کو بھی بند کرادیا اور اس طرح عثمانی ترکوں کو ایک حد تک مطمئن کردیا۔ مغربی سرحد سے مطمئن ہونے کے بعد شاہ عباس نے خراسان کی طرف توجہ کی۔ ازبکوں کا طاقتور حکمران [[عبداللہ خان]] 1598ء میں مرچکا تھا۔ اس لیے شاہ عباس نے اسی سال آسانی سے ازبکوں کو خراسان سے نکال دیا اور صفوی سلطنت کی حدود ہرات اور مرو تک وسیع کردیں۔
 
== فتوحات ==
مشرقی سرحدوں کو مستحکم کرنے کے بعد شاہ عباس نے ترکوں سے مقابلے کی تیاریاں شروع کیں۔ اس نے ترکوں کی فوج [[ینی چری]] کے نمونے پر ایک فوج تیار کی جو "[[شاہ سورن]]" کہلاتی تھی اور [[جارجیا|گرجستان]] اور [[آرمینیا]] کے نو مسلموں پر مشتمل تھی لیکن ایرانیوں کی سب سے بڑی کمزوری توپ خانے کی عدم موجودگی تھی۔ اس وقت جبکہ ساری دنیا میں توپوں کا رواج ہوچکا تھا اور خود ایران کے مغرب میں [[سلطنت عثمانیہ|عثمانی]] ترک اور مشرقی میں [[دلی|دہلی]] کے [[مغل]] سلاطین توپیں استعمال کررہےکر رہے تھے ، ایرانی فوج ابھی تک اس اہم جنگی ہتھیار سے محروم تھی۔ مغربی قومیں [[صلیبی جنگیں|صلیبی جنگوں]] کے زمانے سے اس پالیسی پر عمل پیرا تھیں کہ [[مشرق وسطی{{ا}}]] کی طاقتور مسلمان حکومتوں کا زور توڑنے کے لیے دوسری مسلمان حکومتوں کا تعاون حاصل کریں۔ اس غرض سے انہوں نے مصر کے [[مملوک|مملوکوں]] اور ترکی کے عثمانیوں کے خلاف [[مغول|منگولوں]]، [[باطنیہ|باطنیوں]] اور [[آق قویونلو]] ترکمانوں کا تعاون حاصل کرنے کی کوشش کی اور اب وہ عثمانی ترکوں کا زور توڑنے کے لیے ایران کی صفوی حکومت کا تعاون حاصل کرنا چاہتی تھیں۔ طہماسپ کے زمانے میں [[ایلزبتھ اول|ملکہ ایلزبتھ]] اس مقصد میں ناکام ہوگئی تھی لیکن شاہ عباس کے دور میں ان کو اس مقصد کے حصول میں خاصی کامیابی ہوئی۔
 
1599ء میں دو انگریز بھائی [[انتھونی شرلے]] اور [[رابرٹ لرشے]] ترکوں کےخلاف مسیحی اتحاد کے لیے ایران سے مدد حاصل کرنے کے لیے اور ایران اور یورپ کے درمیان تجارتی تعلقات قائم کرنے کے لیے آئے۔ شاہ عباس نے ان سے کوئی معاہدہ تو نہیں کیا، لیکن ایرانی فوج کو جدید طرز پر مسلح کرنے میں ان سے مدد لی۔ ان انگریزوں نے ایران میں توپ سازی کی صنعت شروع کی اور ایرانی افواج کو توپ خانے سے مسلح کردیا۔ جب ایرانی فوج جدید آتشیں ہتھیاروں اور توپوں سے مسلح ہوگئی تو شاہ عباس نے 1602ء میں عین اس وقت جب عثمانی ترک [[آسٹریا]] سے جنگ میں مصروف تھے، حملہ کردیا اور تبریز، شیروان اور پرتگالیوں سے بندرگاہ [[آبنائے ہرمز|ہرمز]] چھین لیا اور [[خلیج فارس]] کے ساحل پر ایک نئی بندرگاہ قائم کی جو آج تک [[بندر عباس]] کہلاتی ہے۔ اسی سال شاہ عباس نے دہلی کی تیموری سلطنت سے قندھار بھی چھین لیا۔