"عبد اللہ بن ابی" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م BukhariSaeed نے رجوع مکرر ہٹا کر صفحہ عبداللہ بن ابی کو عبد اللہ بن ابی کی جانب منتقل کیا: فاصلہ
م درستی املا بمطابق فہرست املا پڑتالگر
سطر 1:
'''عبد اللہ بن ابی''' کا مکمل نام اپنی [[ماں]] کی نسبت سے، عبداللہ بن ابی بن سلول، بتایا جاتا ہے۔ [[تاریخ اسلام|اسلامی تاریخ]] کے مطابق [[محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم]] کی آمد سے قبل اہل [[مدینہ منورہ|مدینہ]] میں اسکی حیثیت اثر اور مرتبہ سب سے ممتاز تھا اور ہجرت سے کچھ روز قبل اہل مدینہ کے تمام قبائل نے اسے متفقہ طور پر اپنا سردار مقرر کرلیاکر لیا تھا اور اسکی باقاعدہ رسم تاج پوشی کے لیے دن اور بھی تیہ کر لی گئی تھی۔ لیکن عین اسی وقت محمد [[محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم]] نے [[مکہ]] مکرمہ سے ہجرت کرکے بے تاج بادشاہ کے طور پر مدینہ منورہ تشریف لائے تو اہل مدینہ نے اپنا پہلا منصوبہ ترک کرکے اپنے تمام معاملات کو محمد {{درود}} کے سپرد کردیا۔ اس صورت حال کی وجہ سے عبداللہ بن ابی کے سینے میں آپ {{درود}} سے ذاتی بغض اور عناد پیدا ہوگیا اور وہ دل ہی دل میں آپ {{درود}} سے جلنے کڑھنے لگا۔ کیونکہ اہل مدینہ کے تمام قبائل کی ہمدردیاں شمع رسالت کے ساتھ تھیں اس لیے وہ انکی کھلم کھلا مخالفت نہیں کرسکتا تھا چنانچہ اس نے منافقت کی راہ اپنائی۔
 
عبداللہ بن ابی نے بظاہر اسلام قبول کرلیاکر لیا اور ظاہری اعتبار سے اللہ اور اسکے رسول {{درود}} کے تمام احکامات کی پاپندی شروع کردی لیکن اندر ہی اندر وہ محمد {{درود}} سے بغض اور عناد کی عاد میں جل رہا تھا۔ وہ جب تک زندہ رہا اس نے اسلام کی جڑ کاٹنے کے لیے یہودیوں اور مشرکین مکہ سے رابطے استوار رکھے اور غزوہ بدر اور احد میں نہ خود حصہ نہیں لیا بلکہ اندر ہی اندر صحابہ کو بھی جہاد پہ جانے سے روکتا رہا۔ یہی منافق شخص آپ {{درود}} کی بیوی [[عائشہ بنت ابی بکر]] پر تہمت لگانے میں بھی پیش پیش رہا۔
 
اسلامی تاریخ اور بطور خاص [[مسلمانوں میں تفرقات]] پیدا ہونے کے ابتدائی ماحول اور محرکات کے سلسلے میں عبداللہ بن ابی کا نام اولین شخصیات میں لیا جاتا ہے<ref>William Montgomery Watt, "`Abd Allah b. Ubayy"، Encyclopaedia of Islam. [http://www.brill.nl/m_catalogue_sub6_id7560.htm Brill publisher]۔</ref>۔ اسی وجہ سے اسلام میں اس کو رئیس المنافقین کہا گيا۔ اس کی [[موت|وفات]] پر [[عمر ابن الخطاب|عمر فاروق]] نے اس کا واضح طور پر اظہار بھی کیا تھا کہ یہ شخص منافق تھا اور آپ {{درود}} اسکی نماز جنازہ نہ پڑھائیں۔ <ref>Saif-ur-Rahman al-Mubarakpuri, Ar-Raheeq Al-Makhtum (2002)، p. 285.</ref><ref>Sayed Ali Asgher Razwy, [http://www.al-islam.org/restatement/57.htm Restatement of History of Islam]۔</ref>، لیکن اس کے باوجود [[محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم]] نے اسکے مسلمان بیٹے کی دلجوئی کے لیے کمال رحم اور عفو در گزر سے کام لیتے ہوئے اس کی نماز جنازہ میں شرکت کے لیے گئے اور کفنانے کے لیے اپنا کرتا عنایت فرمایا، مگر عین وقت پر اللہ تعالٰی نے بذریعہ وحی نماز جنازہ پڑھنے سے روک دیا۔