"ارتقائی حیاتیات" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م درستی املا بمطابق فہرست املا پڑتالگر
م خودکار درستی+ترتیب+صفائی (9.7)
سطر 2:
'''ارتقائی حیاتیات''' {{دیگر نام|انگریزی=Evolutionary biology}} [[حیاتیات]] کی ایک ذیلی شاخ ہے جس میں ان [[نظریۂ ارتقا|ارتقائی طریقہ ہائے کار]] کے اصول و قوانین مطالعہ کیا جاتا ہے جس کے ذریعہ [[زمین]] میں [[حیاتی تنوع]] وجود پزیر ہوتا ہے۔ جو افراد اس موضوع کے ماہر ہوتے ہیں انھیں '''ماہرین ارتقائی حیاتیات''' کہا جاتا ہے۔
 
== نظریہ ارتقاء ==
یہ دونوں تصورات کہ زندگی اپنی مختلف شکلوں میں جامد ہے، تمام مخلوقات شروع سے اسی طرح وجود میں آئی ہیں اور ان میں کوئی باہمی رشتہ نہیں اور نہ ان میں کوئی ارتقاء ہے۔ دوسرا یہ ہے کہ زندگی اپنے آغاز سے لے کر اب تک پیہم ایک سلسلہ ارتقاء میں سفر کر رہی ہے اور ہر لمحہ تبدیل ہو رہی ہے اور آئندہ بھی اس طرح کی تبدیلی اور تغیر جارہی رہے گا۔ نہایت قدیم زمانے سے مفکرین اور سائنس دان کہتے رہے ہیں۔ ارتقاء کا یہ نظریہ [[چارلس ڈارون|ڈارون]] نے پہلی دفعہ پیش نہیں کیا، بلکہ اس سے بہت پہلے ارتقاء کی حقیقت کی جانب اشارات ملتے ہیں۔ مثلاً [[قدیم یونان|قدیم یونانی]] مفکر، فلسفی اور ماہر فلکیات [[ہیراقلیطس]] (Heraclitus) کا نظریہ تھا کہ دنیا کی تمام چیزیں مسلسل تغیر پزیر ہیں۔ وہ کہتا ہے کہ زیادہ تر اہل فکر [[لوگوس]] (Logos، لفظی معنی عقل، تعقل، خیال، کلام، رائے وغیرہ، مراد قانون کائنات) کو نہیں سمجھتے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ [[کائنات]] کے بارے میں غلط رائے قائم کرتے ہیں۔ اس کا خیال تھا کہ ’ قانون کائنات ‘ کے ذریعہ کائنات کی تمام چیزیں آپس میں مربوط ہیں اور اسی قانون کے تحت تمام قدرتی واقعات رونما ہوتے ہیں۔ اسی قانون کا ایک اہم مظہر یہ ہے کہ دو متعضاد چیزوں میں ایک اندرونی رشتہ پایا جاتا ہے۔ مثلاً صحت اور بیماری ایک دوسرے کا تعین کرتے ہیں۔ نیکی اور بدی سرد و گرم ایک دوسرے کے بغیر اپنا مفہوم کھو دیں گے۔ اس طرح وہ یہ بھی کہتا ہے کہ ہر چیز کے دو متعضاد پہلو ہو سکتے ہیں۔ مثلاً سمندر کا پانی نقصان دہ بھی ہے ) انسانوں کے لےے ( اور مفید بھی۔ ) مچھلیوں کے لیے ( اس کا کہنا تھا کسی کیفیت یا چیز کا ثبات و دوام ظاہری، سطحی اور عارضی ہے۔ جب کہ تغیر اصلی اور ابدی حقیقت ہے۔ ایک اور یونانی فلسفی اناکسی مینڈ جو فلکیات کا بانی سمجھا جاتا ہے، اس کا خیال تھا مٹی، ہوا، آگ اور پانی سے ہی امتزاجات اور افتراقات سے لا تعداد دنیائیں جنم لیتی ہیں اور پھر تباہ ہوجاتی ہیں اور یہ سب کچھ لامتناہی طور پر جاری رہتا ہے۔ اس یہ خیال تھا کہ انسان مچھلی سے ملتی جلتی مخلوق سے ترقی پا کر وجود میں آیا۔ اس طرح مسلمان مفکرین کی تحریروں میں بھی اس کا ذکر ملتا ہے۔ خاص کر ان مسکویہ تحریروں میں۔ لیکن ان مسکویہ اور دوسرے مفکرین انسان کا قریبی
رشتہ دار گھوڑے کو ٹہرایا ہے۔ اس طرح اس کا ذکر اخوان صفاء کی تحریروں میں ملتا ہے، لیکن بہت الجھا ہوا۔
سطر 14:
اس سے ثابت ہوتا کہ تمام جانداروں کے درمیان زبردست ارتقائی رشتہ ہے۔ سائنس کے مختلف شعبے جس کے مطالعہ سے ارتقائے حیات کا ثبوت ملتا ہے، ان میں علم الابدن ( بیا لوجی ) خاص کر اس تحقیقی شعبے (علم الانواع ) ٹیکسانومی ( علم العضا، ) اناٹومی( اور علم جنین ) ایمیبریا لوجی ( شامل ہیں۔ علم الابدان کے علاوہ ماحولیات ) ایکا لوجی ( قدیم بناتات قدیم حیوانیات ) پیل اونٹالوجی ( میں سائنسی تحیقات اور علم آثار ) متجحرات ( اور زمانہ قبل از تاریخ کی قدیم مصنوعات وغیرہ کے سائنسی مطالعہ شامل ہے ۔
 
== علم الانوع کی شہادت ==
 
علم الانوع کا دائرہ زندگی کے مختلف انواع SPECIES خصوصی مطالعہ کرنا ہے۔ ان کی تعریف، وضاحت اور درجہ بندی کرنا ہے۔ اگر انوع میں اپنی اپنی نوع کی مختلف صفات خلط ملط ہوتی ہیں تو اس علم کی شاید ضرورت نہ ہوتی اور اس کی گواہی بھی درست نہیں ہوتی، لیکن چونکہ ہر نوع کے جملہ افراد اپنی نوع کی خصوصیات لازمی طور پر رکھتے ہیں۔ اس لیے نوع کی درجہ بندی ممکن ہے اور ان کے درمیان روابط کی تلاش بھی ممکن ہے۔ مثلاً سب مرغیاں انڈے دیتی ہیں۔ لیکن کوئی مرغی انڈے اور کوئی بچے یا پھر کوئی پرندہ پر کھتا اور کسی پرندے کے بال ہوتے یا گندم کے ایک پودے پر کوئی تو گندم کا سٹہ ہوتا اور کوئی جوار کا یا باجرے کا تو علم الانوع، ارتقاء کے نظریہ میں کوئی مدد نہ کرسکتا تھا۔ لیکن علم الانوع یہ ثابت کرتا ہے کہ مختلف انواع کو مشترکہ خصوصیات کے پیش نظر چند گروہوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ اس طرح سے انواع، اقسام، خاندان، سلسلہ، جماعت، خیل اور سلطنت میں کائی سے لے کر برگد تک اور جانداروں کی سلطنت میں پوٹوزو یک خلوی، خوربینی جانوروں سے لے کرآزاد شیر داروں تک مختلف انواع میں ایک باہمی رشتہ پایا جاتا ہے، جو کسی مشترک جد پر مبنی ہونے کا ثبوت بہم پہچاتا ہے اور یوں نظریہ ارتقاء کی صداقت کی گواہی دیتا ہے۔
 
== تقابلی علم الاعضا کی شہادت ==
 
مختلف پودووں اور جانوروں کے جسمانی ڈھانچوں کا تقابلی مطالہ بھی مشترکہ اوصاف کی نشاندہی کرتا ہے اور یوں مشترکہ جد کا ایک اور ثبوت فراہم کرتا ہے۔ مثلاً مینڈک، چھپکلی، درندے اور شیر دار جانداروں کے جسموں میں ہڈیوں کے ڈھانچے بنیادی ساخت ایک جیسی ہے۔ جو ثابت کرتی ہے کہ ان سب کا جد امجد ایک ہی ہے جو کوئی ریڑھ کی ہڈی والا جاندار تھا۔ اسی طرح تمام شیر دار جانوروں کے اعظائ کا بنیادی نظام ایک جیسا ہے، خواہ یہ جانور تیرنے والے ہوں یا خشکی پر چلنے والے، رینگنے والے ہوں یا اڑنے والے ۔
 
== علم حنین کی شہادت ==
 
پیدائش سے پہلے کسی بھی جاندار کا جنین جن مراحل سے گزرتا ہے، وہ حیرت انگیز حد تک ایک جیسے ہوتے ہیں۔ چاہے جنین ماں کے پیٹ میں ہو یا انڈے میں۔ اگر مثال کے طور پر ریڑھ والے مختلف جانداروں کے جنین کی افزائش کا مطالعہ کیا جائے تو ابتدائی مراحل میں یہ سب ایک جیسے ہوتے ہیں۔ اگر مچھلی، چھپکلی اور بارہ سنگھے کے ابتدائی حنین سامنے رکھ دیئے جائیں تو ماہرین کے لیے یہ بتانا مشکل ہوگا کہ ان میں سے کون سا جنین کس جاندار کا ہے۔ یہ مماثلت اس بات کا ثبوت ہے کہ نسلی طور پر ماضی قدیم میں یہ سب ایک مشترکہ جد سے تعلق رکھتے ہیں۔
 
== ماحولیات کی شہادت ==
 
دنیا کے کونے کونے میں بکھرے ہوئے جانداروں کی نسلیں اور دیگر زندہ اجسام کی شکلیں بعض اوقات ایسے عجیب و غریب مظاہر کو سامنے لاتی ہےں، جن کا کوئی دوسرا سائنسی جواب نظریہ ارتقاء کے ممکن نہیں ہے۔ مثلاً قریب قریب واقع کئی سمندری جزیروں میں ایسے پرندے پائے جاتے ہیں جو ایک دوسرے سے مختلف ہیں، مگر اپنے قریبی براعظموں کے پرندوں سے مماثل ہیں۔ اسی طرح ایک اور عجیب بات یہ ہے کہ ایک جیسی آب و ہوا رکھنے والے دو علاقوں میں ایک جیسے جانور نہیں پائے جاتے ہیں۔ مثلاً برازیل اور افریقہ کی آب و ہوا ایک جیسی ہے۔ مگر افریقہ میں گوریلے اور ہاتھی ہیں، جب کہ برازیل میں یہ جانور نہیں ہیں۔ ان پہلیوں کا جواب صرف نظریہ ارتقاء کے پاس ہے کہ یہ جانور ان اجداد کی نسل سے ہیں، جو اس بر اعظموں میں وجود آئے ہیں اور بعد میں زیادہ ساز گار ماحول والے علاقوں کی طرف چلے گئے۔ اسی قسم کے سفر میں قدرتی رکاوٹیں آخری حد کا کام کرتی تھیں۔ پانی والے جانوروں کے لیے خشکی کا بڑا ٹکرا اور خشکی کے جانوروں کے لیے کوئی سمندر۔
سطر 32:
اس طرح ایک دلچسپ مثال گھڑیال کی ہے، اس کی دو نسلیں دنیا میں دور دراز موجود ہیں۔ ایک مشرقی ریاست ہائے متحدہ امریکہ اور دوسری عوامی جمہوریہ چین میں۔ ان کے اجداد قدیم زمانوں سے ایشیائ سے لے کر فلوریڈا تک پھیلے ہوئے تھے اور خشکی کے اس معدوم راستے پر جاتے تھے، جو کسی زمانے میں روس کو الاسکا سے ملاتا تھا۔ اس راستہ کے معدوم ہو جانے سے یہ دونوں نسلیں اپنے ماحول کے اثر سے قدرے تبدیل ہوتی گئیں۔ لیکن دو انتہائی دور دراز علاقوں میں آج بھی موجود ہیں۔ یوں نظریہ ارتقاء ان جغرافیائی پہلیوں کے تسلی بخش جواب پیش کرتا ہے۔
 
== متجحرات کی شہادت ==
 
لیکن سب سے مسکت دلیل خود ان خزانوں کی ہے۔ جو زمین نے اپنے سینے میں لاکھوں کروڑوں سالوں سے چھپا کر حفاظت سے رکھے تھے۔ یہ ان زندہ جانداروں اور نباتات کے پتھرائے ہوئے ڈھانچے ہیں، جو لاکھوں کروڑوں سال پہلے زمین پر چلتے تھے یا لہلہاتے تھے۔ یہ متجحرات مختلف زمانوں سے تعلق رکھتے ہیں اور زمانی ترتیب سے ان مطالعہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ جتنا قدیم کوئی پودا یا جاندار ہے، اس کی ساخت اتنی ہی سادہ ہے۔ جب کہ ان کی زیادہ ترقی یافتہ شکلیں یعنی زیادہ پیچیدہ اور باصلاحیت شکلیں بعد میں نمودار ہوتی گئیں۔ متجحرات کا تسلی بخش سائنسی جواب صرف نظریہ ارتقاء کے کسی کے پاس نہیں ہے۔
 
== ارتقاء کا طریقہ کار ==
 
ارتقاء کا عمل عمموماً دو قوتوں کا مرحون منت رہا ہے۔ ایک اندرونی جینیاتی تبدیلی اور دوسرا ماحول کی مواقت یا عدم مواقت کا اثر۔ جینیاتی تبدیلی کا جدید تصور یہ ہے کہ یہ اچانک ہوتی ہے۔ کیوں ہوتی ہے ؟ آیا کوئی کائناتی شعاعیں اچانک پڑنے سے، کسی نئے کیمیائی مواد کے انجدب سے یا کسی اور وجہ یا وجوہات سے ؟ اس بات کا کوئی جواب نہیں معلوم، مگر یہ حقیقت اپنی جگہ حقیقت ہے۔
سطر 44:
== بے ریڑھ کے جانوروں کا ارتقاء ==
 
تقریباًًتقریباً تین ارب اسی کروڑ سال پہلے یک خلوی خلیہ سے زندگی کی ابتدا ہوئی تھی۔ یہ زندہ مخلوق نہ نباتات میں شمار ہوتی تھی اور نہ ہی حیوانات میں۔ نباتات اور حیوانات کی علیحدگی کا آغاز آج سے تقریباًًتقریباً تین ارب سال پہلے ہوا تھا۔ نباتات اور حیوانات کی علیحدگی کا آغاز آج سے کوئی ایک ارب سال پہلے ہوا تھا۔ اس وقت تک نباتات اور حیوانات یک خلیاتی مرحلے میں تھے اور یہ دونوں پانی کے اندر تھے۔ یہ ارتقاء شروع کیسے ہوا، یہ بھی سربستہ راز ہے۔ کیوں کہ حاصل شدہ متجحرات کے دور سے پہلے کے زمانے سے تعلق رکھتا تھا۔ بہرحال یک خلیاتی جسموں میں ارتقاء کی پہلی یہ تھی کہ کثیر خلیاتی جسم پیدا ہوئے۔ اس عمل کا زمانہ ساٹھ کروڑ قبل سمجھا جاتا ہے۔ قدیم کائی اور بکٹیریا کے متجحرات جنوبی افریقہ میں ملے ہیں۔ ان کی عمر علیٰ الترتیب تین ارب دس کروڑ سال اور دو ارب ستر کروڑ سال ہے۔ اس طرح انٹاریو ) کنیڈا ( سے جو ایسے ہی متجحرات ملے ہیں وہ ایک ارب نوے کروڑ سال پرانے ہیں۔ ایسے قدیم متجحرات کی تعداد کم ہے۔ تاہم ساٹھ کروڑ سال قبل کے زمانے سے لے کر بعد کے تمام ادوار کے متجحرات وافر دستیاب ہیں۔ ان کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ابتدائی جسموں میں خلیوں کی تعداد مختصر ہوتی تھی اور خلیوں کی ترتیب دو پرتوں میں ہوتی تھی، جن میں ریشوں کا کچھ فرق ہوتا تھا، مگر اعضائ کا وجود نہیں تھا۔ ساٹھ کروڑ سال قبل کئی جاندار وجود میں آچکے تھے جو تقریباًًتقریباً سب کے سب پانی میں رہتے تھے۔
 
یک خلوی جسموں میں ارتقاء کی پہلی تبدیلی تو یہ تھی کہ کثیر الخلیاتی جسم نمودار ہوئے۔ دوسری بڑی تبدیلی یہ ہوئی کہ خلیوں کی تین پرتوں میں جسموں کا ظہور ہوا۔ جس کے باعث۔ درمیانی پرت میں پٹھوں کا ظہور ہوا۔ جس کے باعث اس میں حرکت کرنے کی صلاحیت میں اضافہ ہوا۔ جسم کے مختلف تقسیم منت ہوئی اور سر اور دم کا فرق پیدا ہوا۔
سطر 50:
تیسری تبدیلی یہ ہوئی کہ ٹکروں میں منقسم جسم وجود میں آئے۔ دوسرے ان کے اندر کچھ کھوکھلا حصہ بھی پیدا ہوا۔ ان خصوصیات کے نتیجے میں جوڑ دار کیڑے پیدا ہوئے۔ آج بھی ایسے کیڑوں کا نمائندہ کیچوا موجود ہے۔ یہ دونوں خصوصیات بعد میں زیادہ ترقی یافتہ بے ریڑھ اور ریڑھ دار جانوروں کے جسمانی نظام کی بنیاد بنے۔
 
چوتھی بڑی یہ ترقی ہوئی کہ ٹکڑوں میں منقسم کھوکھلے جسموں کے ساتھ جوڑ دار اعضائ مزید لگ گئے اور ایک نیا بے ریڑھ جانور پیدا ہوا۔ اس جانور کے لیے ایک جگہ سے دوسری جگہ حرکت کرنا انتہائی آسان ہوگیا۔ ان سے ترقی کرکے جڑے ہوئے پیروں والے جانور پیدا ہوئے اور کروڑ ہا کروڑ سال پہلے زندگی انہی شکلوں میں قدیم سمندروں موجود تھے۔ ان کی اولاد میں سے سمندری بچھو پیدا ہوئے اور پھر سانس لینے والے سمندری حشرات پیدا ہوئے۔ سب سے پہلے کیڑے تقریباًًتقریباً تقریباًًتقریباً 32 کروڑ پچاس لاکھ سال پہلے صفحہ ہستی پر نمودار ہوئے۔ تتلیاں اس زمانے میں نمودار ہوئیں جب نباتات کی دنیا میں پھولدار پودے وجود میں آئے۔ تاہم گزشتہ بارہ کروڑ سال سے بے ریڑھ جانوروں میں کوئی مزید عظیم تبدیلی نہیں ہوئی۔
 
== ریڑھ دار جانوروں کا ارتقاء ==
 
ریڑھ والے جانور دنیا کی تمام جاندار اقسام کی سب سے ترقی یافتہ قسم ہے۔ ان کا ظہور آج سے تقریباًًتقریباً پچاس کروڑ سال پہلے ہوا تھا۔ یہ جانور ۔۔۔۔۔ دنیا کا سب سے پہلا ریڑھ دار جانور جبڑے کے بغیر
مچھلیاں تھیں۔ لیکن ان کی ریڑھ کی ہڈی باقیدہ کوئی ہڈی نہیں تھی ۔بلکہ پتلے سے دھاگہ کی طرح تھی، جو گوشت کے ریشوں سے قدرے سخت تھی۔
 
رفتہ رفتہ ان میں غضروف یعنی مرمری ہڈی ( نرم ہڈی ) کا ڈھانچہ نمودار ہوا اور دنیا میں سب سے پہلے ہڈیوں والا ایسا جسم نمودار ہوا اور جس کا جبڑا بھی تھا اور دو اور دو کی تعداد میں خارجی اعضائ بھی تھے۔ یہ تھی ہڈیوں اور جبڑے والی قدیم مچھلی۔ اس کا زمانہ وجود تقریباًًتقریباً 45 کروڑ سال پرانا ہے۔ ان مچھلیوں کے کچھ پتھرائے ہوئے ڈھانچے دستیاب ہوئے ہیں۔ جو 45 کروڑ سال پرانے ہیں۔
 
آج کل کی کئی سمندری مچھلیاں مثلاً پھیپھڑے دار مچھلیاں، ریڑھ دار، پنکھ والی مچھلیاں اور گوشت دار پنکھ والی مچھلیاں اسی زمانے سے تعلق رکھتی ہیں۔ گوشت دار مچھلیوں کے ایسے اعضائ تھے جو بعد میں بازوؤں اور ٹانگوں میں تبدیل ہونے کی بنیاد بنے ۔
سطر 65:
تیسری بڑی تبدیلی یہ ہوئی کہ ان جانداروں نے زمین پر انڈے دینے شروع کردیئے۔ جس کے نتیجے میں ان کا پانی سے بنیادی رشتہ ختم ہوگیا۔ اب یہ جنگل کے رینگنے والے جانور تھے، ان کا جنم 30 کروڑ سال قبل ہوا تھا۔ آہستہ آہستہ ان کی لاتعداد قسموں نے جنم لیا اور یہ سب دنیا بھر میں پھیل گئیں۔ ان کے تیس کروڑ سال پرانے متجحرات دریافت ہوئے۔ رینگنے والے جانوروں کی ایک خرابی یہ تھی کہ ان کا خون ٹھنڈا ہوتا تھا، جیسے کہ اب بھی رینگنے والے جانوروں کا ہے۔ اس کوتاہی کا نتیجہ یہ ہوتا تھا کہ سخت سردی میں ان کا زندہ رہنا مشکل ہوجاتا تھا۔
 
سردی کے ساتھ چوتھی عظیم تبدیلی تبدیلی رونما ہوئی اور گرم خون والے جانداروں کی نئی نسل وجود میں آگئی۔ یہ مخلوق ہر قسم کے موسم میں اپنے جسم کا درجہ حرارت ایک ہی سطح پر برقرار رکھ سکتی تھی ۔ اس مرحلے پر رینگنے والے جانوروں کی نسل دو حصوں میں تقسیم ہوگئی۔ ایک تو پرندوں کی نسل نمودار ہوئی جو اپنے اجداد کی طرح انڈے دے کر بچے نکالتے تھے اور دوسرے دودھ دینے والے جانوروں کی قسمیں پیدا ہوئیں۔ دودھ دینے والے جانوروں آج سے تقریباًًتقریباً 15 کروڑ سال قبل وجود میں آئے تھے۔ یہ چونکہ یہ اپنے بچوں کی دیکھ بھال کرسکتے تھے اور کافی عرصہ ان کی خوراک اور نگہداشت کی ذمہ داری اپنے اوپر لے لیتے تھے۔ لہذا ان میں سب زیادہ ترقی اور تنوع پیدا ہوا اور یہ قسم باقی قسموں سے زیادہ کامیاب ثابت ہوئی۔ دودھ دینے والے جانوروں کی مزید ترقی کا زمانہ ’ نئی حیات کا زمانہ ‘ ) سینون زونیک ( کہلاتا ہے۔ یہ ارتقائے حیات کا عظیم انشان زمانہ تھا، جو آج سے چھ کروڑ پچاس لاکھ سال قبل شروع ہوا۔ اس زمانے کے کئی شیر دار جانوروں کے کوئی چھ کروڑ سال پرانے ڈھانچے دستیاب ہوچکے ہیں۔ اس دور میں شیر دار جانوروں کی کئی شاخیں پھوٹیں، جن میں ایک ترقی کرکے مانس Ape بنی۔ جس نے آگے چل کر انسان کو جنم دیا۔ قدیم مانس اور آج کل کے مانس اور بندر میں فرق یہ ہے کہ قدیم مانس (prosimian) کے 32 دانت تھے۔ جب کہ موجودہ بندوروں 34 دانت ہوتے ہیں۔ انسان قدیم مانس کی ترقی یافتہ شکل ہے، موجودہ بندر کی نہیں ۔
 
== ارتقاء کی رفتار ==
 
بحثیت مجموعی ارتقاء کا عمل نہایت سست رفتار ہے۔ جس کو سالوں یا صدیوں کے حوالے سے نہیں سمجھا جاسکتا۔ مختلف اجسام میں ارتقاء کی رفتار مختلف ہے۔ بعض چیزوں میں تو کروڑوں سالوں میں کوئی
سطر 77:
 
== حوالہ جات ==
{{حوالہ جات}}
# یحیٰی امجد۔ تاریخ پاکستان قدیم دور
# شاہکار اسلامی انسائیکلوپیڈیا
 
{{Commonscatزمرہ کومنز|Evolutionary biology}}
 
[[زمرہ:فلسفہ حیاتیات]]
[[زمرہ:ارتقائی حیاتیات]]
[[زمرہ:فلسفہ حیاتیات]]