"امراؤ جان ادا" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م درستی املا
م خودکار درستی+ترتیب+صفائی (9.7)
سطر 26:
== فنی جائزہ ==
 
=== کردار نگاری ===
فنی لحاظ سے ناول امراؤ جان ادا میں بہت زیادہ کردار ہیں۔ ناول کا مطالعہ کرتے ہوئے احسا س ہونے لگتا ہے کہ اس ناول میں قدم قدم پر نئے نئے کردار رونما ہوتے ہیں یہی وجہ ہے کہ کرداروں کے نام ان گنت ہو کر رہ گئے ہیں۔ اتنے زیادہ کردار شائد ہی اردو کے کسی ناول میں ہوں۔ لیکن اتنے زیادہ کردار ہونے کے باجود کرداروں کے ساتھ انصاف کرتے ہوئے ہر لحاظ سے مکمل نبھاہ کیا گیاہے۔ رسوائکے ہاں اس ناول میں بڑا کردار ہویا چھوٹا کردار ، ناول نگار نے اسے اپنے تمام تر نفسیات و جذبات عادات و اطوار خاندانی پس منظر اور موجودہ حیثیت و عمر کے ساتھ پیش کر دیاہے۔
 
=== امراؤ جان ادا ===
 
ناول کا سب سے بڑا کردار امراؤ کا ہے ۔ اس کی اہمیت مسلم ہے۔ وہ قصے کی ہیروئن ہے۔ اس لیے پور ے قصے پر چھائی ہوئی ہے۔ بقول ڈاکٹر میمونہ انصاری:
سطر 70:
ناول میں قدم قدم پر بلا کی سنسنی خیزی پائی جاتی ہے۔ اغوا کے دوران میں بات بات پر امراؤ جان کو دلاور خان کی طرف سے ذبح کرنے کی کوشش کرنا ۔ ہمارے دل و دماغ پر ہےجان اور پریشانی کے نقوش ثبت کر دیتا ہے۔ ہم ہر موقع پر سوچنے لگتے ہیں کہ ا بھی دلاور خان چھری چلاتے ہوئے امراؤ جان کا سر تن سے جدا کر ڈالے گا۔ اسی طرح خانم کے کوٹھے پر مختلف لڑکیوں کا بکنا، ان کے گاہکو ں کے درمیان بحث و تکرار اور لڑائی جھگڑا ۔ مثلاًنواب سلطان کا خانصاحب کو گولی مارنا ۔ نواب چھبن کا کوٹھے پر سے چلے جانا اور نہاتے ہوئے پانی سے نہ نکلنا یہ تاثر دیتا ہے کہ نواب چھبن ڈوب کر مرگیا ہوگا ۔ اسی طرح فیضو ڈاکو کے آدمیوں کانواب سلطان کے گھر پر ڈاکہ ڈالنا۔ جنگ آزادی کے حالا ت و واقعات کا ذکر ۔ بھائی کا امرا ءجان پر چھر ی اٹھانا ۔ ایسے حالات و واقعات ہیں جو ہر وقت ناول کی فضاءمیں تجسّس و جستجو اور سنسنی خیزی کا بارود بھرتے رہتے ہیں۔ اور قاری ہمیشہ تجسّس و جستجو کا شکار رہتا ہے۔ یہ اس ناول کی ایک بہت بڑی خصوصیت ہے۔
 
== فکری جائزہ ==
{{وکی اقتباسات|امراؤ جان ادا}}
فکری طورپر دیکھا جائے تو امراؤ جان ادا بیک وقت سماجی ، معاشرتی ، نفسیاتی اور تاریخی ناول ہے۔ ناول نگار نے اس ناول میں انتہائی فکر انگیز حالات و واقعات پیش کئے ہیں ۔ یہ ایسے حالات ہیں جن کے اندر ہمیں سماجی و معاشرتی حقائق کے ساتھ ساتھ معاشرے و سماج میں رہنے والے لوگوں کی نفسیات اور جذبات بھی نظرآرہے ہیں۔ اس ناول میں جہاں بہت سے ناگفتہ بہ حالات و واقعات پیش کئے گئے ہیں ۔ وہیں یہ حالات و واقعات جن لوگوں کو درپیش آئے ان کے دھڑکتے دل ، سوچیں ، آتی جاتی اور ٹوٹتی سانسیں ، خدشات ، تجربات اپنے اپنے احساسات و جذبات کے ساتھ ساتھ انتہائی موثر انداز میں پیش کر دیے گئے ہیں۔ یہ ایک سچا اور حقیقی ناول ہے جو اپنے وقت کے معاشرے کی ایک مکمل تصویر کی حیثیت رکھتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ناول نگار نے کہانی کے انداز میں معاشرے اور سماج کی عکاسی کرتے ہوئے طوائفوں کے کوٹھے کو مرکز بنا کر پڑھنے والوں کو بھی وہیں بٹھا کر پورے لکھنؤ کے درو دیوار ، بازار اور گلی کوچے دکھائے ہیں۔ طوائفوں کا یہ بالاخانہ ایسا مقام ہے جہاں سے ہم پورے معاشرے کا نظارہ کر سکتے ہیں۔
سطر 82:
مجموعی طور پر دیکھا جائے تو فکری لحاظ سے ناول امراؤ جان ادا لکھنؤ ی معاشر ت کے زوال کی داستان ہے لیکن اگر ہم اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھیں تو اس ناول میں ہمیں الفاظ کے ہیر پھیر کے ساتھ اپنی معاشرت اور سماج کی زوال پذیری بھی دکھائی دینے لگتی ہے۔ عظیم ادب وہی ہوتا ہے جو نہ صرف اپنے عہد بلکہ آنے والے ادوار کی بھی ترجمانی کرتا ہے۔ کےا آج ہمارے ہاں بردہ فروشی کا گھنائونا کاروبار نہیں ؟ کیا آج ہمارے ہاں ہیرا منڈیاں ، شاہی محلوں ، نائٹ کلبو ں ، بیوٹی پالروں اور فلمی دنیا کی صورت میں طوائفوں کے بالاخانے موجود نہیں ؟ رسوا کے عہد کی طوائف اور ہمار ے عہد کی ماڈل گرل اور اداکارہ میں کیا فرق ہے کوئی فرق نہیں چنانچہ
 
جب کوئی دیکھوں اداکارہ یقیں ہوتا ہے<br/>
حسن سو بارلٹے پھر بھی حسیں ہو تا ہے
 
جس طرح لکھنؤ میں گناہ کی دلدل میں دھکیل دی جانے والی لڑکیاں باہر نہیں نکل سکتی تھیں تو آج بھی جو معصوم پھول بازاروں میں بک جاتے ہیں وہ لوٹ کر گلزاروں میں نہیں جاسکتے۔
 
بک گئے حیف جو سب شہر کے بازاروں میں<br/>
پھول پھر آنہ سکے لوٹ کے گلزاروں میں
 
لیکن رسوا نے اصلاحی اندا ز میں یہ تاثر دیا ہے کہ گناہ کی زندگی ایک لعنت ہے ہر عورت کو چاہیے کہ وہ ازدواجی زندگی اختیار کرتے ہوئے گھر کی چار دیواری کے اندر عصمت اور پاکیزی کا تقدس برقرار رکھے۔ یہی سب سے بڑی دولت ہے ۔ سکوں کی جھنکار جوانی تک ہے ۔ اس کے بعد دین و دنیا کی رسوائی ہے اور پچھتاوا ہے۔ پشیمانی ہے ، نفسیاتی توڑ پھوڑ ہے۔ رسوا نے اصلاحی پیغام بڑے دلدو ز انداز سے دیا ہے۔مگر افسوس اس کا کیا کیا جائے کہ آج بھی صورت حال کچھ ایسی ہے کہ:
شور ہوتا رہا مے خانوں میں<br/>
حسن لٹتا رہا ایوانوں میں<br/>
رات ڈھل جانے کو تھی جب فقری<br/>
سسکیاں مل گئیں آذانوں میں
 
== ابلاغ میں ==
* بھارت - 1981 میں [[مظفر علی]] نے [[امراؤ جان (1981 فلم)]] بنائی، جس میں [[ریکھا]] نے امراؤ کا کردار ادا کیا۔
 
[[زمرہ:ہندوستانی طوائفیں]]
[[زمرہ:1899ء کے ناول]]
 
[[زمرہ:اردو ناول]]
[[زمرہ:ہندوستانی طوائفیں]]