"ایمان (اسلامی تصور)" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م درستی املا
م خودکار درستی+ترتیب+صفائی (9.7)
سطر 6:
کسی پر ایمان لانے سے مراد اس کی تصدیق کرنا اور اس پر یقین رکھنا ہے۔ گویا لفظ ایمان اپنے اصل معنی اور مفہوم کے اعتبار سے امن، امانت اور بھروسے پر دلالت کرتا ہے۔ شرعی معنوں میں دل سے یقین، زبان سے اظہار، جسمانی طور پر عمل کا نام ایمان ہے جبکہ اطاعت سے ایمان میں اضافہ اور نافرفانی سے کمی واقع ہوتی ہے۔<ref>تفسیر الجزءالاخیر من القرآن لکریم، دائمی فتوی کمیٹی، سعودی عرب۔ صفحہ-61</ref>
 
== ارکان ایمان ==
{{ایمان}}
 
سطر 18:
# * [[ایمان بالقدر]]، اچھی اور بری [[تقدیر]] پر ایمان
 
=== ایمان باللہ ===
ایمان باﷲ، یعنی اللہ تعالیٰ کے واحد و یکتا ہونے، اس کے خالق و مالک ہونے، اس کے پروردگار اور حاجت روا ہونے، اس کے تنہا معبود برحق ہونے کا زبان سے اقرار اور دل کی اتھاہ گہرائیوں سے اس کی تصدیق کی جائے نیز اس کے مطابق اپنے عمل وکردار کو بنایا جائے تو اس اقرار و تصدیق اور عمل کے مجموعے کا نام ایمان باﷲ ہے، جو اسلام کے بنیادی عقائد میں شامل ہے۔
=== ایمان بالملائکہ ===
=== ایمان بالکتب ===
=== ایمان بالرسالت ===
=== ایمان بالآخرۃ ===
=== ایمان بالقدر ===
=== ایمان بعث بعد الموت ===
 
== حقیقت ایمان ==
سطر 36:
 
ایمانیات و عقائد کے اصول و ذرائع قرآن وسنت ہیں، اس باب میں قیاس اور اندازوں کی گنجائش نہیں ہوتی، کسی بھی بات کو ایمانیات و عقائد کا حصہ بنانے کےلئے ضروری ہے کہ وہ بات اللہ اور اس کے رسول سے منقول ہو، اور قرآن و سنت میں مذکور ہو، اس طرح سے کہ قرآن و سنت نے اس کو ماننے کا مطالبہ کیا ہے، یا قرآن و سنت نے اس کو ماننے کی نسبت اللہ کی جانب کی ہے، یا قرآن و سنت نے اس بات کے ماننے کی نسبت انبیا٫ و رسل اور ان کے پیرکاروں کی جانب کی ہے۔
وأسماء الله عز و جل تؤخذ توقيفا ولا يجوز أخذها قياسا۔ <ref>اصول الدین:۱1/۱۰۸108</ref>
 
وَكَيْفَ تُعْلَمُ أُصُولُ دِينِ الْإِسْلَامِ مِنْ غَيْرِ كِتَابِ اللَّهِ وَسُنَّةِ رَسُولِهِ ؟ وَكَيْفَ يُفَسَّرُ كِتَابُ اللَّهِ بِغَيْرِ مَا فَسَّرَهُ بِهِ رَسُولُهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابُ رَسُولِهِ، الَّذِينَ نَزَلَ الْقُرْآنُ بِلُغَتِهِمْ ؟ وَقَدْ قَالَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ قَالَ فِي الْقُرْآنِ بِرَأْيِهِ فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ». وَفِي رِوَايَةٍ: «مَنْ قَالَ فِي الْقُرْآنِ بِغَيْرِ عِلْمٍ فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ». وَسُئِلَ أَبُو بَكْرٍ الصِّدِّيقُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ قَوْلِهِ تَعَالَى: {وَفَاكِهَةً وَأَبًّاوَأَبًا}
* مَا الْأَبُّ ؟ فَقَالَ: أَيُّ سَمَاءٍ تُظِلُّنِي، وَأَيُّ أَرْضٍ تُقِلُّنِي، إِذَا قُلْتُ فِي كِتَابِ اللَّهِ مَا لَا أَعْلَمُ ؟<ref>شرح العقیدۃ الطحاویۃ لإبن أبی العز:۱1/۱۱۴114</ref>
 
* مَا الْأَبُّ ؟ فَقَالَ: أَيُّ سَمَاءٍ تُظِلُّنِي، وَأَيُّ أَرْضٍ تُقِلُّنِي، إِذَا قُلْتُ فِي كِتَابِ اللَّهِ مَا لَا أَعْلَمُ ؟<ref>شرح العقیدۃ الطحاویۃ لإبن أبی العز:۱/۱۱۴</ref>
 
<!-- :* قطعی دلائل:
سطر 46 ⟵ 45:
دلائل ؛قطعی اور یقینی اور غیر قطعی اور غیر یقینی دونوں طرح کے ہوتے ہیں، اصطلاح دین میں قرآن کی آیاتِ محکمات اور سنتِ متواترہ محکمہ اور اجماع کو قطعی دلیل کہتے ہیں، ان میں کسی تاویل کی گنجائش نہیں ہوتی، ان سے ثابت امور کو ماننا دین میں ضروری اور لازمی ہے، عقائد، فرائض اور محرمات کا ثبوت اسی درجہ کے دلائل سے ہوتا ہے۔
الأدلة الشرعية منها ما هو قطعي، ومنها ما هو ظني:فالدليل القطعي: ما كان قطعي السند والثبوت، وقطعي الدلالة أيضًا.وحكم هذا النوع من الأدلة وجوب اعتقاد موجبه علمًا وعملاً، وأنه لا يسوغ فيه الاختلاف.
(معالم اصول الفقه عند اهل السنة و الجماعة:۱1/۸۱81)
 
أما ما كان نص كتاب بين، أو سنة مجتمع عليها، فالعذر فيها مقطوع، ولا يسع الشك في واحد منها، ومن امتنع من قبوله اسُتتيب.
( الرسالة للامام الشافعى:ص۴۶ص46)
 
وَقَدْ دَخَلَ فِيمَا ذَكَرْنَاهُ مِنْ الْإِيمَانِ بِاَللَّهِ : الْإِيمَانُ بِمَا أَخْبَرَ اللَّهُ بِهِ فِي كِتَابِهِ وَتَوَاتَرَ عَنْ رَسُولِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَجْمَعَ عَلَيْهِ سَلَفُ الْأُمَّةِ.
سطر 55 ⟵ 54:
 
إجماع الصحابة حجة بلا خلاف
(إرشاد الفحول إلي تحقيق الحق من علم الأصول.: محمد بن علي بن محمد الشوكاني ۱1/۲۱۷217)
 
اسی میں روایت کی ایک قسم ’’ مشہور ‘‘ جو فنی اعتبار سے تو خبر واحد ہوتی ہے، لیکن تواتر کے درجہ سے کم اور حقیقی خبر واحد سے بلند تر ہوتی ہے اس سے ثابت امور بھی عقائد ضروریہ میں شامل ہوسکتے ہیں جن کا منکر کافر شمار ہوگا۔
الثالث ما يكفر به على الأصح وهو المشهور المنصوص عليه الذي لم يبلغ رتبة الضرورة.
(الاشباه و النظائر۱النظائر1/۴۸۸488)
 
قطعی عقائد:
قطعی دلائل میں جو امور مذکور ہوتے ہیں وہ قطعی عقائد ہوتے ہیں، جن کا انکار انسان کو کافر بنادیتا ہے، مثلاً : اللہ کو ایک ماننا، اس کی ذات ،صفات و حقوق میں کسی کو شریک نہ کرنا، رسولوں کو ماننا، محمد ﷺ کی رسالت کو ماننا، آپ ﷺ کو خاتم النبیین ماننا، آخرت کو ماننا، جنت و جہنم کو ماننا وغیرہ جیسے جو بھی عقائد قطعی دلائل میں مذکور ہیں سب قطعی عقائد ہیں، ان سب کو ماننا ضروری ہے،عقائد میں اکثر مسائل اسی درجہ کے ہیں۔ قطعی عقائد میں سے کسی ایک عقیدہ کا انکار انسان کو کافر بنادیتا ہے۔ثبوت و دلالت کے اعتبار سے قطعی دلائل میں تاویل بھی کفر مانی جاتی ہے۔
ما ثبت بدليل قطعي الثبوت وقطعي الدلالة حيث لا شبهة فيه ويكفر جاحده ويعذب تاركه.
(قواعد الفقه۱الفقه1/۴۱۰410)
 
يجب تكفير من يغير الظاهر بغير برهان قاطع. و قال ايضا: كل ما لم يحتمل التأويل في نفسه وتواتر نقله ولم يتصور ان يقوم على خلافه برهان فمخالفته تكذيب محض.
(إعلام الموقعین۴الموقعین4/۲۴۷247)
 
إن الإيمان تصديق بأمور مخصوصة عُلِم كونُها من الدين ضرورة.
(فیض الباری:ج۱ج1 ص ۶۰60)
 
* غیر قطعی دلائل:
 
بعض دلائل غیر قطعی ہوتے ہیں، جن سے علم ضروری حاصل نہیں ہوتا، اصطلاح دین میں مثلاً دلالت کے اعتبار سے وہ آیات جن میں تاویل کی گنجائش ہوتی ہے، یا ثبوت کے اعتبار سے خبر واحد یہ غیر قطعی دلائل ہیں، غیر قطعی دلائل میں بھی ایمانیات سے متعلق امور مذکور ہو تے ہیں۔
إن ما يقصد به الاعتقاد لا يكفي فيه الظن وفيه نظر لأنهم ذكروا في العقائد ما لا مطمع فيه للقطع فتدبر.
(تیسیر التحریر۳التحریر3/۴۲۳423)
 
أن العقائد تثبت بالأدلة الظنية۔
(معالم اصول الفقه عند اهل السنة و الجماعة۱الجماعة1/۸۲82)
 
غیر قطعی عقائدکا حکم:
غیر قطعی دلائل میں ایمانیات سے متعلق جو امور ہیں ان کو ماننا بھی واجب ہے، یعنی خبر واحد میں اگر کوئی ایمان سے متعلق بات منقول ہو تو اس پر ایمان لانا بھی واجب ہے۔ لیکن اس کا منکر کافر نہیں ہوگا، کیونکہ وہ ایک ایسی بات کا انکار کررہا ہے جو نبی ﷺ سے قطعی طور پر ثابت نہیں ہے، اور اسی یعنی ثبوت میں عدم قطعیت کی وجہ سے اس کے انکار پر کفر کا انتہائی سخت حکم لگانے سے گریز کیا جاتا ہے، البتہ دلیل کے درجہ کے پیش نظر غیر قطعی دلیل جو صحت کے ساتھ منقول ہے اس کا منکر بھی فاسق و گمراہ ضرور ہوگا۔
وَمَا وَصَفَ الرَّسُولُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِهِ رَبَّهُ عَزَّ وَجَلَّ مِنْ الْأَحَادِيثِالصِّحَاحِ الَّتِي تَلَقَّاهَا أَهْلُ الْمَعْرِفَةِ بِالْقَبُولِ وَجَبَ الْإِيمَانُ بِهَا كَذَلِكَ.(العقیدة الواسطیة للامام ابن تيمية) والواجب ما ثبت بدليل قطعي الدلالة وظني الدلالة وقطعي الثبوت۔
(قواعد الفقه۱الفقه1/۴۱۰410)
 
خبرِ واحد جس کو امت میں تلقی بالقبول حاصل ہو:
وہ خبر واحد جس کو امت میں قبولیت عامہ کا درجہ حاصل رہا ہے وہ تواتر کے درجہ میں ہے، اور اس سے ثابت حکم/یا عقیدہ کا درجہ مطلق خبر واحد سے ثابت حکم / یا عقیدہ سے بڑھا ہوا ہے۔ ایسے مسائل میں قبر کا عذاب و نعمت، فرشتوں کا سوال کرنا، قیامت کی نشانیاں، کبائر کے مرتکبین کے لیے شفاعت، میزان، صراط، حوض کی ’’تفصیلات‘‘ شامل ہیں۔ تفصیلات کا لفظ ہم نے اس لیے ذکر کیا ہے کہ ان عقائد کی مطلق بنیاد قطعی دلائل سے ثابت ہے، جن کو ہم ان کی جگہوں پر ذکر کریں گے، البتہ ان کی بعض تفصیلات ان اخبار احاد میں آئی ہیں جن کو امت میں تلقی بالقبول کا درجہ حاصل رہا ہے، اور ایسی اخبار احاد سے ثابت امور کی حیثیت بھی بہت اونچی ہے۔
فقد احتجُّوا بخبر الواحد المتلقى بالقبول في مسائل الصفات والقدر ، وعذاب القبر ونعيمِه ، وسؤال الملكين ، وأشراط الساعة ، والشفاعة لأهل الكبائر ، والميزان ، والصراط ، والحوض ، وكثير من المُعجزات ، وما جاء في صفة القيامة والحشر والنشر ، والجزم بعدم خلود أهل الكبائر في النار۔
(مجمل اعتقاد ائمۃ السلف:۱1/۱۴۶146) -->
 
== مزید دیکھیے ==
سطر 95 ⟵ 93:
 
== حوالہ جات ==
{{حوالہ جات|2}}
 
[[زمرہ:اسلامی اصطلاحات]]
[[زمرہ:اسلامی اخلاقیات]]
[[زمرہ:اسلامی عقائد اور اصولاصطلاحات]]
[[زمرہ:اسلامی الٰہیات]]
[[زمرہ:اسلامی اصطلاحاتعقائد اور اصول]]