"صلاح الدین ایوبی" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م درستی املا بمطابق فہرست املا پڑتالگر
م صفائی بذریعہ خوب, replaced: عیسائی ← مسیحی (18)
سطر 21:
 
[[ملف:Saladin_in_War.jpeg|thumb|صلاح الدین ایوبی]]
سلطان صلاح الدین یوسف بن ایوب [[ایوبی سلطنت]] (کردی ناوندی : سەلاحەدینی ئەییووبی / کردی کرمانجی : Selahedînê Eyûbî) کے بانی تھے۔ وہ نہ صرف تاریخ اسلام بلکہ تاریخ عالم کے مشہور ترین فاتحین و حکمرانوں میں سے ایک ہیں ۔ وہ 1138ء میں موجودہ [[عراق]] کے شہر [[تکریت]] میں پیدا ہوئے۔ ان کی زیر قیادت ایوبی سلطنت نے [[مصر]]، [[سرزمین شام|شام]]، [[یمن]]، [[عراق]]، [[حجاز]] اور [[دیار بکر|دیار باکر]] پر حکومت کی۔ '''صلاح الدین ایوبی''' کو بہادری، فیاضی، حسن خلق، سخاوت اور بردباری کے باعث نہ صرف مسلمان بلکہ عیسائیمسیحی بھی عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ صلاح الدین کو فاتح [[بیت المقدس]] کہا جاتا ہے جنہوں نے 1187ء میں [[یورپ]] کی متحدہ افواج کو عبرتناک شکست دے کر بیت المقدس ان سے آزاد کروا لیا تھا۔
 
== ابتدائی دور ==
سطر 36:
== جنگ حطین ==
 
1186ء میں عیسائیوں‌کےمسیحیوں‌کے ایک ایسے ہی حملے میں رینالڈ نے یہ جسارت کی کہ بہت سے دیگر عیسائیمسیحی امرا کے ساتھ [[مدینہ منورہ|مدینہ]] منورہ پر حملہ کی غرض سے [[حجاز]] مقدس پر حملہ آور ہوا۔ صلاح الدین ایوبی نے ان کی سرگرمیوں کی روک تھام کے لیے اقدامات کیے اور فوراً رینالڈ کا تعاقب کرتے ہوئے [[حطین]] میں اسے جالیا۔ سلطان نے یہیں دشمن کے لشکر پر ایک ایسا آتش گیر مادہ ڈلوایا جس سے زمین پر آگ بھڑک اٹھی۔ چنانچہ اس آتشیں ماحول میں 1187ء کو حطین کے مقام پر تاریخ کی خوف ناک ترین جنگ کا آغاز ہوا ۔ اس جنگ کے نتیجہ میں تیس ہزار عیسائیمسیحی ہلاک ہوئے اور اتنے ہی قیدی بنا لیے گئے۔ رینالڈ گرفتار ہوا اور سلطان نے اپنے ہاتھ سے اس کا سر قلم کیا۔ اس جنگ کے بعد اسلامی افواج عیسائیمسیحی علاقوں پر چھا گئیں۔
 
== فتح بیت المقدس ==
 
حطین کی فتح کے بعد صلاح الدین نے [[بیت المقدس]] کی طرف رخ کیا ایک ہفتہ تک خونریز جنگ کے بعد عیسائیوںمسیحیوں نے ہتھیار ڈال دیے اور رحم کی درخواست کی۔ [[بیت المقدس]] پورے 88 سال بعد دوبارہ مسلمانوں کے قبضہ میں آیا اور تمام [[فلسطین]] سے مسیحی حکومت کا خاتمہ ہوگیا۔ [[بیت المقدس]] کی فتح صلاح الدین ایوبی کا عظیم الشان کارنامہ تھا۔ اس نے [[مسجد اقصٰی]] میں داخل ہوکر [[نور الدین زنگی]] کا تیار کردہ منبر اپنے ہاتھ سے مسجد میں رکھا۔ اس طرح [[نور الدین زنگی]] کی خواہش اس کے ہاتھوں پوری ہوئی۔
 
صلاح الدین نے [[بیت المقدس]] میں داخل ہوکر وہ مظالم نہیں کئے جو اس شہر پر قبضے کے وقت عیسائیمسیحی افواج نے کئے تھے ۔ صلاح الدین ایک مثالی فاتح کی حیثیت سے [[بیت المقدس]] میں داخل ہوا۔ اس نے زر فدیہ لے کر ہر عیسائیمسیحی کو امان دے دی اور جو غریب فدیہ نہیں ادا کر سکے ان کے فدیے کی رقم صلاح الدین اور اس کے بھائی [[ملک عادل]] نے خود ادا کی۔
 
[[بیت المقدس]] پر فتح کے ساتھ [[یروشلم]] کی وہ مسیحی حکومت بھی ختم ہوگئی جو [[فلسطین]] میں [[1099ء]] سے قائم تھی۔ اس کے بعد جلد ہی سارا فلسطین مسلمانوں کے قبضے میں آگیا۔
سطر 52:
جب [[بیت المقدس]] پر قبضے کی خبر [[یورپ]] پہنچی تو سارے [[یورپ]] میں کہرام مچ گیا۔ ہر طرف لڑائی کی تیاریاں ہونے لگیں۔ [[جرمنی]]، [[اطالیہ|اٹلی]]، [[فرانس]] اور [[انگلستان]] سے فوجوں پر فوجیں فلسطین روانہ ہونے لگیں۔ [[انگلستان]] کا بادشاہ [[رچرڈ شیر دل|رچرڈ]] جو اپنی بہادری کی وجہ سے شیر دل مشہور تھا اور [[فرانس]] کا بادشاہ [[فلپ ثانی|فلپ آگسٹس]] اپنی اپنی فوجیں لے کر [[فلسطین]] پہنچے ۔ یورپ کی اس متحدہ فوج کی تعداد 6 لاکھ تھی جرمنی کا بادشاہ [[فریڈرک باربروسا]] بھی اس مہم میں ان کے ساتھ تھا۔
 
عیسائیمسیحی دنیا نے اس قدر لاتعداد فوج ابھی تک فراہم نہ کی تھی۔ یہ عظیم الشان لشکر [[یورپ]] سے روانہ ہوا اور [[عکہ]] کی بندرگاہ کا محاصرہ کر لیا اگرچہ سلطان صلاح الدین نے تن تنہا عکہ کی حفاظت کے تمام انتظامات مکمل کر لیے تھے لیکن صلیبیوں کو [[یورپ]] سے مسلسل کمک پہنچ رہی تھی۔ ایک معرکے میں دس ہزار عیسائیمسیحی قتل ہوئے مگر صلیبیوں نے محاصرہ جاری رکھا لیکن چونکہ کسی اور اسلامی ملک نے سلطان کی طرف دست تعاون نہ بڑھایا اس لیے صلیبی ناکہ بندی کی وجہ سے اہل شہر اور سلطان کا تعلق ٹوٹ گیا اور سلطان باوجود پوری کوشش کے مسلمانوں کو کمک نہ پہنچا سکا۔ تنگ آکر اہل شہر نے امان کے وعدہ پر شہر کو عیسائیوںمسیحیوں کے حوالہ کر دینے پر آمادگی ظاہر کی۔ فریقین کے درمیان معاہدہ طے ہوا کہ جس کے مطابق مسلمانوں نے دو لاکھ اشرفیاں بطور تاوان جنگ ادا کرنے کا وعدہ کیا اور صلیب اعظم اور 500 عیسائیمسیحی قیدیوں کی واپسی کی شرائط طے کرتے ہوئے مسلمانوں نے ہتھیار ڈال دیے۔ مسلمانوں کو اجازت دے دی گئی ۔ وہ تمام مال اسباب لے کر شہر سے نکل جائیں لیکن [[رچرڈ شیردل|رچرڈ]] نے بدعہدی کی اور محصورین کو قتل کر دیا۔
 
عکہ کے بعد صلیبیوں نے [[فلسطین]] کی بندرگاہ [[عسقلان]] کا رخ کیا۔ [[عسقلان]] پہنچنے تک عیسائیوںمسیحیوں کا سلطان کے ساتھ گیارہ بارہ بار مقابلہ ہوا سب سے اہم [[معرکہ ارسوف]] کا تھا۔ سلطان نے جواں مردی اور بہادری کی درخشندہ مثالیں پیش کیں لیکن چونکہ کسی بھی مسلمان حکومت بالخصوص خلیفہ [[بغداد]] کی طرف سے کوئی مدد نہ پہنچی۔ لہذا سلطان کو پسپائی اختیار کرنی پڑی۔ واپسی پر سلطان نے [[عسقلان]] کا شہر خود ہی تباہ کر دیا۔ اور جب صلیبی وہاں پہنچے تو انہیں اینٹوں کے ڈھیر کے سوا کچھ بھی حاصل نہ ہوا۔ اس دوران میں سلطان نے بیت المقدس کی حفاظت کی تیاریاں مکمل کیں کیونکہ اب صلیبیوں کا نشانہ بیت المقدس تھا۔ سلطان نے اپنی مختصر سی فوج کے ساتھ اس قدر عظیم لاؤ لشکر کا بڑی جرات اور حوصلہ سے مقابلہ کیا۔ جب فتح کی کوئی امید باقی نہ رہی تو صلیبیوں نے صلح کی درخواست کی۔ فریقین میں معاہدہ صلح ہوا۔ جس کی رو سے [[تیسری صلیبی جنگ]] کا خاتمہ ہوا۔
 
اس صلیبی جنگ میں سوائے عکہ شہر کے عیسائیوںمسیحیوں کو کچھ بھی حاصل نہ ہوا اور وہ ناکام واپس ہوئے۔ [[رچرڈ شیردل]] ، سلطان کی فیاضی اور بہادری سے بہت متاثر ہوا [[جرمنی]] کا بادشاہ بھاگتے ہوئے دریا میں ڈوب کر مرگیا اور تقریباً چھ لاکھ عیسائیمسیحی ان جنگوں میں‌کام آئے۔
 
معاہدہ کے شرائط مندرجہ ذیل تھیں:
سطر 70:
== سیرت ==
 
صلاح الدین بڑے بہادر اور فیاض تھے۔ لڑائیوں میں انھوں نے عیسائیوںمسیحیوں کے ساتھ اتنا اچھا سلوک کیا کہ عیسائیمسیحی آج بھی ان کی عزت کرتے ہیں۔
 
اس کو جہاد کا اتنا شوق تھا کہ ایک مرتبہ اس کے نچلے دھڑ میں پھوڑے ہوگئے ان کی وجہ سے وہ بیٹھ کر کھانا نہیں کھا سکتا تھا لیکن اس حالت میں بھی جہاد کی سرگرمی میں فرق نہ آیا۔ صبح سے ظہر تک اور عصر سے مغرب تک برابر گھوڑے کی پیٹھ پر رہتا۔ اس کو خود تعجب ہوتا تھا اور کہا کرتا تھا کہ جب تک گھوڑے کی پیٹھ پر رہتا ہوں ساری تکلیف جاتی رہتی ہے اور اس سے اترنے پر پھر تکلیف شروع ہوجاتی ہے ۔
 
مسیحیوں سے صلح ہو جانے کے بعد صلاح الدین نے عیسائیوںمسیحیوں کو بیت المقدس کی زیارت کی اجازت دے دی۔ اجازت ملنے پر یورپ کے زائرین جو برسوں سے انتظار کر رہے تھے اس کثرت سے ٹوٹ پڑے کہ شاہ رچرڈ کے لیے انتظام قائم رکھنا مشکل ہوگیا اور اس نے سلطان سے کہا کہ وہ اس کی تحریر اور اجازت نامے کے بغیر کسی کو بیت المقدس میں داخل نہ ہونے دے ۔ سلطان نے جواب دیا ”زائرین بڑی بڑی مسافتیں طے کرکے زیارت کے شوق میں آتے ہیں ان کو روکنا مناسب نہیں“۔
سلطان نے نہ صرف یہ کہ ان زائرین کو ہر قسم کی آزادی دی بلکہ اپنی جانب سے لاکھوں زائرین کی مدارات، راحت، آسائش اور دعوت کا انتظام بھی کیا۔
 
سطر 104:
== حوالہ جات ==
{{حوالہ جات}}
 
 
[[زمرہ:کرد مسلم شخصیات]]
سطر 117 ⟵ 116:
[[زمرہ:سنی مسلم شخصیات]]
[[زمرہ:زرخیز ہلال]]
 
[[زمرہ:مسلم جوامع]]
[[زمرہ:تاریخ سوریہ]]