"جہاد" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
(ٹیگ: ترمیم از موبائل ترمیم از موبائل ایپ)
م صفائی بذریعہ خوب, replaced: عیسائی ← مسیحی (2)
سطر 1:
{ڈاکٹر سید بادشاہ میڈیکل سپیشلسٹ سابق امیر جماعت اسلامی ضلع مردان {نقل چسپاں|date=جون 2017}}
{{مشکوک|date=جون 2017}}
'''جہاد''' سے مراد کسی نیک کام میں انتہائی طاقت و کوشش صرف کرنا اور ہر قسم کی تکلیف اور مشقت برداشت کرنا ہے۔
 
== جہاد کا لفظی معنی ==
سطر 49:
===جرات ، شجاعت اور جوش جہاد===
کوئی فوج خواہ کتنی ہی تربیت یافتہ اور بہترین ہتھیاروں سے لیس کیوں نہ ہو اور اعداد و شمار میں ریت کے ذروں سے بھی بڑھ کر کیوں نہ ہو۔ جب تک اس کے سپاہی جرات اور شجاعت کے وصف سے متصف نہ ہوں گے کامیابی کی بہت کم امید ہے ۔ اس کے مقابلے میں گنتی میں کم اور ادنیٰ ہتھیاروں سے لیس فوج کے سپاہی اگر جری اور شجاع ہوں گے تو ان سے کامیابی اور کامرانی کی توقع کی جا سکتی ہے ۔ تجربہ یہ بتاتا ہے کہ بہادر قومیں عموما بہت ساری خوبیوں کی مالک ہوتی ہیں ۔ انہیں اپنے وعدے کا پاس ہوتا ہے۔ وہ مہمان کی قدرومنزلت کو سمجھتی ہیں ۔وہ شرافت اور نجابت کے تقاضوں کو جانتی ہیں ۔ وہ بے عزتی ، بے ؔ آبروئی اور بے غیرتی کی زندگی پر موت کو ترجیح دیتی ہیں ۔ وہ اگرچہ کینہ توز ہوتی ہیں مگر دشمنی میں بھی شرف کو ہاتھ سے جانے نہیں دیتیں اور دشمن کی مجبوریوں سے فائدہ اٹھانے کی قائل نہیں ہوتیں ۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ شجاعت اور سخاوت کا چولی دامن کا ساتھ ہوتا ہے۔ بہادر آدمی لازما سخی ہوتا ہے کیونکہ میدان جنگ میں اپنی جان پیش کر دینا بھی سخاوت ہے۔
اگر دو فوجیں برابر کی ہوں اور جنگ کا فیصلہ نہ ہوتا ہو تو اس تعطل کو ختم کرکے فیصلہ کن بات کرنے والی بات جوش کی زبان سے ادا ہوتی ہے۔ اسی طرح جب ایک فوج مسلسل لڑائی کرتے کرتے تھکن سے چور ہو جاتی ہے ۔ سپاہیوں کے بازو شل اور حوصلے پست ہو جاتے ہیں تو جوش ہی ایک ایسی چیز ہے جو تھکے ہوئے بازووں کو نئے سرے سے طاقت عطا کرتا ہے۔ افسردہ دلوں میں زندگی کی نئی لہر دوڑا دیتا ہے ۔ تھکی ہاری فوج آن کی آن میں سرگرم پیکار ہو جاتی ہے اور ایسا ایک بھر پور حملہ عام طور پر فیصلہ کن ہو تا ہے کیونکہ مخالف فوج بھی اسی طرح تھک کر چور ہو چکی ہوتی ہے ۔ بعض اوقات ایسی حالت میں ایک شخص کے جوش و خروش نے جنگ کی کایا پلٹ کر رکھ دی ہے ۔ جنگ یرموک میں ایک بار جب عیسائیمسیحی مسلمانوں کو دھکیل کر خیموں تک لے آئے تو خیمہ میں بیٹھی ہوئی مسلمان عورتوں نے خیموں کی چوبیں اکھاڑ کر دشمن پر حملہ کر دیا۔ اس واقعہ نے مسلمانوں کو اتنا متاثر کیا کہ وہ جوش و غضب میں دشمن پر ٹوٹ پڑے اور پھر کبھی ان کو اپنے خیموں کے قریب پھٹکنے نہ دیا ۔
تاریخ اسلامی جوش جہاد کی مثالوں سے بھری پڑی ہے ۔ حضرت ابوعبیدہ ابن الجراح کے سامنے ایک جنگ میں آپ کا باپ آیا مگر آپ نے پروا نہ کی اور جوش ایمانی میں اپنے باپ کو قتل کر دیا ۔ جنگ موتہ میں جب تین ہزار مسلمانوں نے اپنے آپ کو دشمن کے علاقے میں ایک لاکھ فوج کے مقابل میں دیکھا تو مجلس مشاورت قائم کی کہ آنحضور کو حالات سے آگاہ کیا جائے مگر عبداللہ ابن رواحہؓ جو ایک آّتش بیان خطیب تھے ۔ ایسی تقریر کی کہ سب مقابلے پر آمادہ ہو گئے ۔ جنگ بدر کے لیے جب آنحضرت ﷺ مجاہدوں کا انتخاب فرما رہے تھے تو ایک بچے کو دیکھا جو اپنی ایڑیاں اٹھا کر یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہا تھا کہ وہ اونچا ہے ۔ آپ ﷺنے اسے چھوٹا سمجھ کر نظر انداز کرنا چاہا مگر وہ بضد تھا ۔ لہذا آپ ﷺنے اجازت فرما دی ۔ اس کے ساتھ ایک اور لڑکا کھڑا تھا ۔ آپ ﷺنے اسے اجازت نہ دی تو وہ رونے لگا اور عرض کیا کہ مجھے اس دوسرے لڑکے سے کشتی لڑوایئے۔ جب کشتی ہوئی تو اس نے پہلے لڑکے کو پچھاڑ ڈالا اور اس طرح جہاد میں جانے کی اجازت حاصل کی ۔ یہ ہی وہ دونوں لڑکے تھے جنہوں نے ابوجہل کو قتل کیا اور خود شہید ہو گئے ۔
جنگی جوش اگر لڑائی کے وقت اگر شجاعت کی حدوں سے متجاوز ہو جائے تو اسے تہور کا نام دیا جاتا ہے ۔ اس حالت میں مجاہد کو قطعا نہ تو اپنے بچاؤ کا خیال ہوتا ہے نہ ہی زخم یا موت کا سوال ۔ وہ شدت جوش میں ؔ آگے بڑھتا ہے اور دشمن پر ہر چیز سے بے پروا ہو کر غضبناک شیرنی کی طرح ٹوٹ پڑتا ہے ۔ تہور ایک ایسی کیفیت ہے کہ بعض اوقات ان ہونی باتیں بھی ہو جاتی ہیں اور ناممکنات کا دائرہ بھی سمٹ کر ممکنات میں آ جاتا ہے ۔ صاحب تہور پر اس وقت ایک وجدانی کیفیت طاری ہوتی ہے اور وہ اس حالت میں وہ کچھ کر گزرتا ہے کہ عام حالت میں اس کا تصور بھی نہیں کیا جاتا ۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے خیبر کے جس سنگین دروازے کو تن تنہا ہاتھ ڈال کر اکھاڑا اور اپنے سر کے اوپر سے پیچھے پھینک دیااس کا وزن ایک سو بتیس من تھا اور جسے ؔ آٹھ مضبوط آدمی مل کر بھی اٹھانا تو درکنار زمین سے اچک تک نہ سکے۔ کیپٹن سرور شہید ، یونس شہید اور میجر طفیل شہید کے کارنامے تہور کے تحت آتے ہیں ۔ میجر عزیز بھٹی شہید کا کارنامہ تہور کے ساتھ استقلال اور استقامت کا ایک نادر الوجود مرقع ہے ۔ جواں سال شہید راشد منہاس کی تہور میں ڈوبی ہوئی بے مثال قربانی اسکی معصومیت کے ساتھ دلوں میں محبت کی کسک پیدا کرتی ہے ۔
سطر 74:
== نزول حکم جہاد ==
 
جہاد بالقتال کا حکم نبوت کے [[مدنی دور]] میں نازل ہوا۔ اس سلسلے میں سب سے پہلے قریش اور مسلمانوں میں [[بدر]] کے مقام پر [[غزوہ]] ہوا، جس میں مسلمانوں کو فتح نصیب ہوئی۔ كيونكہ جہاد ميں جان لی اور دی جاتی ہے اور جان لينا ہميشہ سے الہامی شريعتوں ميں ممنوع رہا ہے سب سے پہلے مسلمانوں كو جہاد كی اجازت دی گئی۔ يہ اجازت مسلمانوں كو سب سے پہلے جب دی گئی تو ساتھ اس كی وجہ يہ بيان كی كہ يہ لوگ اس لیے لڑ سكتے ہيں كہ ان پر ظلم ہوا ہے۔ قرآن ميں آيا ہے: <ref> [http://al-mawrid.org/pages/articles_urdu_detail.php?rid=278&cid=294 جہاد كا اذن] </ref>
{{اقتباس قرآن
|
سطر 89:
جہاد اس لیے کیا جاتا ہے کہ کفار کا زور ٹوٹ جائے اور وہ اسلامی ممالک پر چڑھ دوڑنے کی ہمت نہ پائیں ۔کفار خدانخواستہ اگر اسلامی ممالک پرحملہ کرکے غالب آ جائیں توجہاں مسلمانوں کے جان و مال اور عزت و آبرو کے خاک میں مل جانے کا خدشہ ہے وہاں خود اسلام کو خطرہ لاحق ہے لیکن انسانی طبیعت بالعموم آرام اور عیش کوشی کی طرف راغب رہتی ہے اور جنگ و جدل کی صعوبتوں سے کنارہ کش رہنا چاہتی ہے ۔موت کا خوف بھی دلوں میں جاگزین ہوتا ہے اور اپنی پیاری چیزیں چھوڑنے کو جی نہیں چاہتا مگر دفاع سے غفلت جہاں ایک طرف آزادی کی نعمت سے محروم کر دیتی ہے وہاں اخلاقی پاکیزگی اور علو ہمتی جیسی صفات سے بھی معرا کر دیتی ہے ، اس لیے ہر کمانڈر اور ہر حاکم کایہ فرض ہے کہ وہ عامتہ المسلمین کو جہاد کی ترغیب دیتا رہے ۔ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کو فرمایا ’’ مسلمانوں کو قتال فی سبیل اللہ پر آمادہ کرتے رہیئے۔ عجب نہیں کہ اللہ کافروں کا زور توڑ دے‘‘۔ (النساء ۸۴)
جہاں دوسرے مذاہب نے رہبانیت اور ترکِ دنیا پر زور دیا ہے وہاں اسلام کی ساری تعلیم ایک پاکباز، سپاہیانہ معاشرے میں زندگی گزارنے کے متعلق ہے ۔ اسلام کے تمام عقائید اسی روش کا مظاہرہ کرتے ہیں بلکہ خود مسلمان قوم کو ایک سرسری نظر سے دیکھنے سے ہی سپاہیانہ صفات اور سپاہیانہ اخلاق مثلا جرات، شجاعت ، سخاوت ، اولوالعزمی ، صبر و رضا ، ہمت و برداشت نظرآتے ہیں حتیٰ کہ مسلمان اپنے اس روبہ زوال دور میں بھی جہاں تک کہ ان مندرجہ بالاصفات کاتعلق ہے ،روئے زمین کی ساری قوموں کے درمیان ایک ممتاز مقام رکھتے ہیں ۔ جہاں تک جنگی تربیت کا تعلق ہے ، مسلمان کی زندگی کا ہر پہلو ایک تربیت یافتہ سپاہی کی زندگی کا مظاہرہ کرتا نظر آتا ہے ۔اسلام کے سارے ارکان اسی فوجی تربیت کے اصول پر جاری و ساری ہیں ۔ مسلمان کی روز مرہ کی زندگی اور زمانہ جنگ کی زندگی میں سرمو فرق نہیں ۔مسلمان ایک پیدائشی سپاہی ہے اور تھوڑی سی تربیت اسے دنیا کا بہترین سپاہی بنا دیتی ہے ۔
برائی کو روکنا ہر فرد مومن کا فرض ہے کیونکہ جس قسم میں برائی کو روکنے کا جذبہ مفقود ہوجاتا ہے وہ قوم تباہ ہو جاتی ہے اور وہ لوگ بھی جو نیک اس قوم میں ہوتے ہیں بدوں کے ساتھ محض اس لیے تباہی کا شکار ہو جاتے ہیں کہ انہوں نے برائی کے کام اپنی آنکھوں سے دیکھے مگر منع نہ کیا۔ بنی اسرائیل پر جن وجوہات کی بنا پر لعنت کی گئی، ان میں سے اللہ تعالیٰ نے ایک وجہ قران حکیم میں یہ بھی بتائی ہے کہ وہ برائی کوروکتے نہ تھے ۔ بدی کو روکنے کے تین طریقے ہیں جو رسول اللہ ﷺ نے بتائے یعنی ہاتھ سے روکنا، زبان سے روکنا، دل میں برا سمجھنا مگر یہ آخری درجہ ایمان کا ضعیف ترین درجہ قرار دیا ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔ ’’ اللہ عام لوگوں پر خاص لوگوں کے عمل کے باعث اسوقت تک عذاب نازل نہیں کرتا جب تک کہ ان میںیہ عیب پیدا نہ ہو جائے کہ اپنے سامنے برے اعمال ہوتے دیکھیں اور انہیں روکنے کی قدرت رکھتے ہوں مگر نہ روکیں۔ جب وہ ایسا کرنے لگتے ہیں تو پھر اللہ تعالیٰ عام او ر خاص سب پر عذاب نازل کرتا ہے‘‘ ۔ ( مسند آحمد) اسی طرح آپ ﷺ نے جابر سلطان کے سامنے حق بات کہنے کو جہاد اکبر فرمایا ۔مسلمانوں کی جنگ نظریاتی جنگ ہوتی ہے وہ نہ تو ہوس ملک گیری کے جذبے سے مغلوب ہو کر جنگ برپا کرتے ہیں نہ ہی اس میں ان کی کسی ذاتی انتقامی جذبے کو دخل ہوتا ہے۔ مسلمان کی جنگ اللہ کی جنگ ہے ۔ شیطان کے خلاف رحمان کی جنگ ہے۔ کفر و بے دینی کے خلاف دین و حق کی جنگ ہے۔ ظالم کے خلاف مظلوم کی جنگ ہے غرض کہ خدا کی زمین پر خدا کی حکومت کے قیام کی جنگ ہے ۔ جب کوئی قوم خدا کی زمین پر اس قدر فساد میں مبتلا ہو جاتی ہے کہ اس کو سبق پڑھانا ضروری ہو جاتا ہے تو ایسی قوم پر اللہ تعالیٰ مسلمان قوم کو مسلط کر دیتا ہے تاکہ مسلمان قوم ظلم کے ان اثرات کوخدا کے نور سے مٹا دے جو اس ظالم قوم نے اپنے فتنہ و فساد سے پھیلا رکھے ہوتے ہیں ۔ یہودیوں ، عیسائیوںمسیحیوں ہندووں وغیرہ پر اللہ نے مسلمانوں کو اسی نظریئے کی بنا پر مسلط کیا تھا مگر فرما دیا کہ اللہ ضرور اس کی مدد کرے گا جو اللہ کی مدد کرے گا اوروہ ایسے لوگ ہیں جن کو اگر اللہ زمین پر حکومت دے تو نماز قائم کریں ، زکوۃ دیں ،نیک کام کا حکم دیں اور بدی سے روکیں ۔
 
== جہاد کے دوران احتیاطیں ==
سطر 111:
ترجمہ : کیا تم نے اس کا دل چیر کر دیکھا تھا؟
 
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پھر اس مقتول کے ورثاء کو پوری دیت ادا کرنے کا حکم فرمایا۔
 
== جہاد کے آداب اور ذمہ داریاں ==
سطر 120:
اسلام دنیا میں آسودگی ، آسانی اور فارغ البالی دیکھنا چاہتا ہے ۔ دنیا کوتباہی اور بربادی کی حالت میں نہیں دیکھنا چاہتا۔ دنیا کی تعمیر بہر حال دنیا کی زبوں حالی سے بہتر ہے ۔ اسی اصول کے ماتحت جنگ میں بھی مال و منال اور فصل و نسل کی تباہی سے حتی الوسع گریز و اجتناب کا سبق دیاگیا ہے۔ کوئی بھی مفید چیز اس وقت تک تباہ نہ کی جائے جب تک کہ کسی دینی ، اخلاقی ، سماجی یا جنگی مصلحت کا تقاضا نہ ہو ۔ بنو نضیر کے محاصرے کے دوران بعض مسلمانوں نے کھجور کی ایک ادنی قسم کے درختوں کو اکھیڑنا شروع کیا تو بنو نضیر ( جو ایک یہودی قبیلہ تھا ) نے آنحضور ﷺ کو کہلا بھیجاکہ آپ ﷺ کا مذہب یہ اجازت دیتا ہے کہ درختوں کو کاٹا جائے تو اس پر آنحضور ﷺ اور مسلمان متفکر ہوئے مگر اللہ نے وحی کے ذریعے فرمادیا کہ جو لینہ (معمولی کھجور) کے درخت تم نے کاٹے وہ اللہ کے اذن سے تھا یعنی کاٹنے والوں کے سامنے جنگی مصلحت تھی لیکن اس کے بعد اس عمل کو ممنوع قرار دے دیا گیا ۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا ۔ ’’ اور جن اہل کتاب نے ان (کافروں) کی مدد کی تھی ۔ (اللہ نے ) انہیں ان کے قلعوں سے اتار دیا اور ان کے دلوں میں تمہارا رعب بٹھا دیا پھر بعض کو تم قتل کرنے لگے اور بعض کو قید کر لیا اور تمہیں مالک بنا دیا ۔ ان کی زمین کا اور ان کے گھروں کا اور ان کے مال کا اور اس زمین کا بھی جس پر تم نے اب تک قدم نہیں رکھا ہے اور اللہ تو ہر چیز پر قادر ہے‘‘۔ ( الاحزاب ۲۶ ۔ ۲۷ ) اہل کتاب سے مراد یہاں یہود بنی قریظہ ہیں جو حوالیء مدینہ میں اپنے بڑے بڑے اور مضبوط قلعوں اور گڑھیوں میں قلعہ بندرہا کرتے تھے اور اس وقت تک مسلمانوں سے معاہدہ کئے ہوئے ان کے حلیف تھے بعد کو عہد شکنی کرکے قتل و اسارت دونوں کے مستحق پائے۔ اللہ تعالی نے یہ جو فرمایا ہے کہ اس زمین کا بھی جس پر تم نے اب تک قدم نہیں رکھا ہے یہ ایک پیشینگوئی ہے جواللہ تعالیٰ نے فرما دی ۔ یہ اشارہ ہے قبائل یہود کی ساری زمینوں اور جائیدادوں کی طرف جو بالآخر مسلمانوں کے قبضہ میں آئے اور ان لفظوں کے مفہوم میں بڑی وسعت ہے۔قیامت تک جو علاقہ بھی مسلمانوں کے قبضہ میں آئے۔سب اس میں داخل ہے ۔
 
 
== حوالہ جات ==
{{حوالہ جات}}
 
 
 
[[زمرہ:اسلامی اصطلاحات]]