"بنوں" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م درستی املا
م خودکار درستی+ترتیب+صفائی (9.7)
سطر 1:
[[Imageفائل:Khyber Pakhtunkhwa Districts Bannu.svg|300px|thumbتصغیر|leftبائیں|صوبہ خیبر پختونخوا میں ضلع بنوں کا محل وقوع]]
صوبہ [[خیبر پختونخوا]] کے جنوب میں ضلع '''بنوں''' ایک اہم ترین خوبصورت شہر ہے۔جوکہ وزیرستان کے ساتھ واقع ہے۔ اس شہر کی بنیاد 1848میں ایڈروڈ نے ڈالی۔ برطانوی راج میں بنوں شہر کو ایک اہم سرحدی شہر کی حیثیت حاصل تھی۔بنوں ایک سرسبز شہر ہے عام لوگوں کا پیشہ کاشتکاری اور بھیژ، بکریاں چرانا ہے۔ اس کے علاوہ صنعتوں میں کپڑے اور گنے کے کارخانے بھی یہاں موجود ہے۔ علاقے کی مشہور سوغات نسوار اور مسالا جات اور مہندی ہے جو پوری دنیا میں مشہور ہے۔ یہاں کی مشہور شخصیات میں صوبہ خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ [[اکرم خان درانی]] اور سابق صدر [[غلام اسحاق خان]] شامل ہے۔ یہاں ایک یونیورسٹی چار ڈگری کالج ایک پولیٹکنیک کالج ، ایک کامرس کالج ، ایک ایلمنٹری کالج اور دس سے زیادہ ہائی سکولز ہیں۔اس کے علاوہ [[کرم گڑھی]] میں دو پانی کے بجلی گھر اور ایک پانی کا ڈیم [[باران ڈیم]] یہاں تعمیر کیے گئے ہیں۔
 
[[Imageفائل:Bannu1.JPG|framepx|thumbتصغیر|leftبائیں|نہر کچکوٹ]]بنوں جغرفیائی و تاریخی اورسیاسی لحاظ سے اہم مقام پر واقع ہے. بنوں ایک طرف [[افغانستان]] سے اور دوسری طرف [[پنجاب]] کے ساتھ ملا ہوا ہے۔اس لیے ماضی میں بیرونی فاتحین کی گزرگاہ رہا۔ یہ انڈیا تک رسائی کا مختصر مگر مشکل ترین راستہ تھا۔ بیرونی فاتحین مغربی دروں سے نیچے اتر کر بنوں سے ہوتے ہوئے آگے پنجاب پھر ہندوستان کا رخ کرتے ۔ ان فاتحین کے لیے بنوں معمول کاراستہ ہوتا تھا اور اکثر بیشتر بنوں فاتحین کا نشانہ بنتا ہر فاتح اسے زیر و زبر کرتا اور کافی نقصان پہنچاتا۔
 
ماضی میں بنوں افغانستان کا ایک صوبہ ہوا کرتا تھا مگر مرکز سے کٹا ہوا بہت دور واقع تھا۔ بنوں افغانستان اور ہندوستان کے سنگم پر واقع تھا یہ افغانستان کے انتہائی مشرقی کونے پر اور ہندوستان کے انتہائی مغربی کونے پر تھا گویا ہر دور میں بنوں مرکز سے کافی دور رہا اس لیے لحاظ سے بنوں ایک دورافتادہ وادی سمجھا جاتا تھا چونکہ یہ بیرونی فوجوں کی گزرگاہ کی زد میں رہا ہر دور میں تباہ برباد اور تخت وتاراج ہوتا رہا۔ تہذیب و تمدن اورتجارتی ترقی سے دور رہا ہمیشہ آزاد رہا۔ یا نیم آزاد رہا سو اپنے رسم و رواج کے مطابق یہاں کے لوگ زندگی بسر کرتے رہے۔ تاج برطانیہ کے قلمرو میں آنے سے پہلے باختر یعنی افغانستان کا ایک صوبہ تھا جس میں پنچاب کا بھی کچھ حصہ شامل ہوتا تھا۔ بنوں واحد ضلع ہے جہاں مغرب کی طرف کوئی شاہراہ نہیں ہے جیسے خیبر کی شاہراہ۔ لیکن اب اکرم خان درانی صاحب کی کوششوں سے غلام خون پھاٹک تک شاہراہ کی تعمیر پر کام ہو رہا ہے۔ اس شاہراہ کی تعمیر سے کابل تک فاصلہ خیبر کے مقابلے میں کئی سو کلو میٹر کم ہو جائے گا۔
سطر 17:
کُل قابِل کاشت رقبہ 74130 ہيکٹيرزھے
 
== نام کی وجہ تسمیہ ==
[[Imageفائل:Bannu2.JPG|framepx|thumbتصغیر|leftبائیں|آکرہ]]بعض کتابوں میں بنوں کے نام کی [[وجہ تسمیہ]] یہ بیان کی گئی ہے کہ بنوں والوں ( بنویوں ) کے جد امجد شاہ فرید (شیتک) جن کی تین بیویاں تھیں ان تینوں میں سے ایک کا نام بانو بتایا جاتا ہے۔ جب کہ باقی دو کے نام معلوم نہیں۔ بعض مورخین نے بنوں کے نام کی وجہ تسمیہ اسی بانو نامی خاتون کو گردانا ہے۔ جو بالکل غلط ہے کیوں کہ افغان معاشرہ خاتون کے نام کی تشہیر کبھی گوار نہیں کرتا اور اسے ہمیشہ صیغہ راز میں رکھتا ہے۔اور کسی کو اُس کی ماں یا بیوی سے منسوب کیا جائے تو وہ بہت برا تصور کیا جاتا ہے۔ اور اگر دیکھا جائے تو شیتک یہاں پر جب قبضہ کرنے کے لیے آئے تو یہاں پر پہلے سے منگل اور ہنی قبائل آباد تھے۔ اور وہ اپنے ساتھ قبیلے کے اور لوگ بھی لای۔ اس لیے یہ کہنا کہ سارے بانو وال صرف ایک ہی عورت یعنی بانو کی اولاد ہیں بالکل غلط ہے۔<br/>
تاریخ گواہ ہے کہ بنوں میں اولاد شیتک کی آمد سے قبل بنوں نام کا قلمرو یہاں موجود تھا۔ جس کا تاریخی نام بانا بنہ تھا۔ جو بعد میں بنوں پڑ گیا۔ اب بھی بنوں والوں سے پوچھا جائے تو بنوں کو اپنے لہجہ کے مطابق ہمیشہ بانا ہی پکارتے ہیں۔
 
آج سے تقریبا ڈیڑھ ہزار سال قبل ایک چینی سیاح ہیون سانگ نے اس کو بانا ہی لکھا ہے۔ فتوح البلاوان کے مصنف البلازڑی نے 44ھ میں بنوں کا ذکر کیا ہے۔ شہر آکرہ کے کھنڈر سے دریافت ہونے والے سکے گواہی دینے کے لیے کافی ہیں۔ کہ بنوں شیتکوں کی آمد سے پہلے بہت اہم تاریخی مقام تھا۔ اس کا اپنا ایک نام تھا۔ اور یہ کوئی بے نام جگہ نہیں تھی۔ تزک بابری میں 1005ء میں بنوں کو بنہ لکھا گیا ہے۔ اور مغربی مصنفین بنوں کو ہنہ( سرحد) کے نام سے یاد کرتے ہیں وجہ صاف ظاہر ہے ۔ ایک زمانے میں ہنہ باختری (کابل) کا ایک صوبہ رہا ہے۔ 1723ئ تک افغانستان کی قلمرو میں شامل تھا۔ گویہ یہ علاقہ افغانستان اور ہندوستان کے سنگم پر واقع تھا اس لیے جغرافیائی محل وقوع کے باعث اس علاقے کو بنوں کہا گیا۔
 
ایک اوربات کا امکان ہے کہ بنوں کی وجہ تسمیہ جنگلات کی بہتات ہو۔ کیونکہ بنوں (بن) کی جمع ہے۔ ایڈروڈ لکھتے ہیں پورے ہندوستان کے مقابلے میں بنوں میں کثرت سے بارشیں ہوتی ہیں اور یہاں شیشم اور توت کے گھنے جنگلات ہیں۔ بنوں سنسکرت کا لفظ ہے جس کے معنی جنگل کے ہیں۔ بنوں کی قدیم آبادی ہندووں پر مشتمل ہوتی تھی۔ بنوں کے بعض دیہات کے نام بھی سنسکرت سے ماخوذ ہیں جیسے ککی اور بھرت وغیرہ ہوسکتا ہے کہ پرانے باشندوں نے اس کا نام کثرت جنگلات کی وجہ سے بنوں رکھا ہو۔<br/>
بنوں میں رہنے کی وجہ سے یہاں کے رہنے والوں کو بنوچی کہا جاتا ہے۔ لیکن اس نام میں تحقیر کا پہلو پایا جاتا ہے۔ اگر اس نام کو بنوی پکارا اور اپنے نام کے ساتھ لکھا جائے تو بہتر ہے۔
 
== زبان ==
بنوں میں 100 فیصد پشتون آباد ہیں۔ جس کی وجہ سے بنوں میں پشتو بولی اور سمجھی جاتی ہے۔بنوں کی پشتو [[خوست]] اور [[قندہار]] کی پشتو سے بہت ملتی جلتی ہے۔
بنوں کے لوگ پشتو زبان سے انتھائی عقیدت اور محبت رکھتے ہیں۔اور پشتو کے لیے اپنی جانوں کی بھی پروا نہیں کرتے۔
 
== تہذیب و ثقافت ==
 
=== مسجد ===
 
[[Imageفائل:Bannu3.JPG|framepx|thumbتصغیر|leftبائیں|بنوں کا گاؤں چھ گڑھی ممش خیل]]مسجد مسلمانوں کا ثقافتی ورثہ ہے جب حضور نے مکہ معظمہ سے مدینہ منورہ ہجر ت فرمائی تو سب سے پہلے مسجد نبوی کی تعمیر عمل میں لائی گئی چنانچہ مسجد کی اہمیت مسلم ہے جہاں مسلمان نہ صرف پجگانہ نماز ادا کرتے ہیں ۔ بلکہ مسجد قومی و ملی یکجہتی کا بہترین ذریعہ ہوتا ہے۔<br/>
ماضی میں بنوں کی ہر بستی بلند و بالا حصار میں محصور ہوتی تھی جو دفاعی اغراض کے لیے ضروری بھی تھا مگر نقصان یہ ہوا کہ ہر بستی کی اپنی مسجد اور اپنا قبلہ ہوا کرتا تھا اور صرف اس مسجد سے متعلقہ بستی کے بالغ مسلمان افراد ہی نماز ادا کرنے کے روادار ہوتے تھے جس سے قومی یک جہتی پر کاری ضرب لگی۔ <br/>
طویل غلامی کے باعث ضمیر اور مزاج اتنا بدل چکا ہے کہ اب توہر بستی میں کئی ایک مساجد ہوا کرتے ہیں اور قومی یک جہتی اور اتحاد کا شیرازہ بری طرح سے بکھر چکا ہے اورقوم منتشر ہو چکی ہے ۔ اب ہم آزاد ہیں تو چاہیے کہ ہمارے رویوں میں انقلابی تبدیلی آجائے اور اپنی اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجدوں کو ایک ہی وحدت میں ضم کر لیں اور کم از کم ایک بستی میں ایک ہی مسجد اور ایک ہی امام ہو۔
 
سطر 56:
بارکزئی اور منگل قبائل نے پہلی صورت قبول کر لی اور اس طرح براستہ ٹل سے ہوتے ہوئے پاڑہ چنار اور پھر خوست کی سرحد پر آباد ہوئے۔ کچھ کو اولادِ شیتک نے قتل کیا اور کچھ ہندوستان کی طرف چلے گئے۔ کچھ کو یہان پر رہنے دیا گیا۔ جو اب بھی بنوں میں کہیں کہیں آباد ہیں۔باغبان ایک دلیر،بہادر،مہمان نوازاورملک محبت کرنے والی قوم آبادہے.
 
== اب دورحاظر بنوں میں ==
* [[محسود]]
 
* [[محسودوزیر]]
* [[وزیرداوڑ]]
* [[داوڑمروت]]
* [[مروتبھیٹانی]]
*[[بھیٹانی]]
اور کچھ
* [[بنگش]]
قبائیل آباد ہیں۔
 
== مزید دیکھیے ==
* [[آکرہ]]
* [[بنوں میں مغلوں اور درانیان کا دور]]
* [[بنوں میں دور سکھا شاہی]]
* [[ایڈورڈز اور بنوں]]
* [[غازی دلاسہ خان مرحوم]]
* [[سانحہ سپینہ تنگی]]
* [[فقیر ایپی|فقیرایپی]]
* [[بیت اللہ محسود]]
* [[حافظ گل بہادر]]
* [[مولوی عمر]]
* [[غلام اسحاق خان]]
* [[اکرم خان درانی]]
* [[پروفیسرمحمد ابراہیم خان|پروفیسر ابراہیم]]
* [[عابد علی شہید]]
* [[مقبول عامر]]
* [[شہر خان بخیرے خیل نیازی]]
* [[قاضی محب الرحمن]]
* [[امان سرحدی]]
* [[دریائے کرم]]
* [[دریائے ٹوچی]]
* [[باران ڈیم]]
 
== بیرونی راوبط ==
* [http://www.bannugul.weebly.com بنوں کی سائیٹ]
* [http://www.khyber.org بنوں کے متعلق مزید معلومات]
www.facebook.com/MianwaliNews.Official
{{خیبر پختونخوا}}
 
[[زمرہ:ضلع بنوں کے آباد مقامات]]
[[زمرہ:خیبر پختونخوا کے آباد مقامات]]
[[زمرہ:ضلع بنوں]]
[[زمرہ:ضلع بنوں کے آباد مقامات]]