"فرض کفایہ" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م درستی املا بمطابق فہرست املا پڑتالگر
صفائی بذریعہ خوب, replaced: ہوجائے ← ہو جائے (2)
سطر 7:
اس آیت میں اسی نفیر عام کا حکم مذکور ہے، اسی طرح اگر خدانخوستہ کسی وقت کفار کسی اسلامی مملک پر حملہ آور ہوں اورمدافعت کرنے والی جماعت ان کی مدافعت پر پوری طرح قادر نہ ہو تو اس وقت بھی یہ فریضہ اس جماعت سے متعدی ہو کر پاس والے سب مسلمانوں پر عائد ہوجاتا ہے اور اگر وہ بھی عاجز ہوں تو اس کے پاس والے مسلمانوں پر یہاں تک کہ پوری دنیا کے ہر ہر فرد مسلم پر ایسے وقت جہاد فرض عین ہوجاتا ہے، قرآن مجید کی مذکورہ بالا تمام آیات کے مطالعہ سے [[جمہور فقہاء]] و [[محدثین]] نے یہ حکم اخذ کیا ہے کہ عام حالات میں جہاد فرض کفایہ ہے۔<br />
مسئلہ : اسی لیے جب تک جہاد فرض کفایہ ہو تو اولاد کو والدین کی اجازت کے بغیر جہاد میں جانا جائز نہیں۔<br />
مسئلہ : جس شخص کے ذمہ [[قرض]] ہو اس کے لیے جب تک قرض ادا نہ کر دے فرض کفایہ میں حصہ لینا جائز نہیں، البتہ اگر نفیر عام کی وجہ سے جہاد فرض عین ہوجائےہو جائے تو پھر کسی کی اجازت کی ضرورت نہیں رہتی۔<ref>تفسیر جلالین،جلال الدین سیوطی ،سورۃ البقرہ،آیت217</ref><br />
اسی لیے اللہ تعالیٰ نے [[جہادبالنفس|جہاد نفس]] کو فرض عینی اور جہاد کفار کو فرض کفایہ قرار دیا ہے۔<ref>تفسیر مظہری قاضی ثناءاللہ پانی پتی ،سورۃ النساء،77</ref><br />
[[شریعت]] نے [[حج]] اور [[روزہ]] اور [[زکوٰۃ]] اور [[عدت]] وغیرہ کا مدار [[قمری]] حساب پر رکھا ہے حج اور زکوٰۃ میں قمری حساب کا اعتبار ہے [[شمسی]] حساب کا اعتبار نہیں شریعت میں مہینہ اور سال قمری ہی معتبر ہے اور اس کا استعمال مسلمانوں کے لیے فرض کفایہ ہے اگرچہ دنیوی معاملات میں شمسی حساب کا استعمال جائز ہے لیکن اگر سب کے سب قمری حساب کوترک کردیں تو گناہ گار ہوں گے جیسا کہ فرض علی الکفایہ کا حکم ہے۔<ref>تفسیر معارف القرآن مولاناادریس کاندہلوی،سورۃ البقرہ،آیت189</ref><br />
اگر کوئی دوسرا گواہ نہ ہو تو شہادت دینا اس گواہ کے لیے فرض عین ہے ورنہ فرض کفایہ ہے<ref>تفسیر مظہری قاضی ثناءاللہ پانی پتی ،سورۃ البقرہ۔آیت282</ref><br />
و لتکن منکم امۃ اور تم میں سے بعض لوگوں کی ایک جماعت ہونی چاہیے من تبعیضیہ ہے کیونکہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر فرض کفایہ ہے ہر شخص پر فرض نہیں ہے وجہ یہ ہے کہ امر ونہی کے لیے علم شریعت اور احتساب کی قدرت ضروری ہے (اور یہ بات سب لوگوں میں نہیں ہوسکتی بعض میں ہوتی ہے) آیت میں خطاب اہل اسلام کی پوری جماعت کو ہے مگر مکلف بعض کو کیا مطلب یہ ہوا کہ اگر کوئی اس فرض کو انجام نہ دے گا تو فرض جماعت ادا نہ ہوگا اور سب گناہگار ہونگے (کیونکہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر جماعت کا فرض ہے) اور اگر بعض نے کر لیا تو سب کے سر سے قرض ادا ہوجائےہو جائے گا من بیانیہ بھی ہوسکتا ہے اس وقت ہر شخص پر ممنوع امر سے باز داشت کرنی لازم ہوگی (خواہ ہاتھ سے ہو یا زبان سے اور یہ بھی ممکن نہ ہو تو) کم سے کم دل سے ہی اس فعل سے نفرت ہو۔<ref>تفسیر مظہری قاضی ثناءاللہ پانی پتی،آل عمران ،آیت 104</ref><br />
ابتداء میں سَلَامٌ عَلَیْکَ کرنا سنت کفایہ ہے جس کا مطلب یہ ہے جماعت میں سے ایک شخص نے بھی سلام کر لیا تو کافی ہے اگر نہ کیا تو ایک سنت کا ترک ہوا اور سلام کا جواب دینا فرض کفایہ ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ جماعت میں سے ایک شخص نے بھی جواب دے دیا تو سب کے ذمہ سے فرض ادا ہوگیا۔ ورنہ سب گنہگار ہوں گے۔<ref>تفسیر احسن التفاسیر ۔ حافظ محمد سید احمد حسن،النساء،86</ref>
== حوالہ جات ==