"محمد باقر" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
صفائی بذریعہ خوب, removed: حضرت (25)
م BukhariBot (تبادلۂ خیال) کی ترامیم Shuaib-bot کی گذشتہ ترمیم کی جانب واپس پھیر دی گئیں۔
(ٹیگ: استرجع)
سطر 44:
}}
 
'''حضرت محمد باقر'''، حضرت [[علی ابن حسین|زین العابدین]] کے فرزند اور [[اہل تشیع]] کے پانچویں امام ہیں.
آپ کا نام اپنے جد بزرگوار حضرت رسول خدا کے نام پر محمد تھا اور باقر لقب۔ اسی وجہ سے امام محمد باقر علیہ السّلام کے نام سے مشہور ہوئے۔
:::'''بارہ اماموں میں سے یہ آپ ہی کو خصوصیت تھی کہ آپ کا سلسلہ نسب ماں اور باپ دونوں طرف حضرت [[محمد|رسول خدا]] تک پہنچتا ہے۔ دادا آپ کے سید الشہداء حضرت امام [[حسین]] علیہ السّلام تھے جو حضرت رسول خدا محمد مصطفےٰ کے چھوٹے نواسے تھے اور والدہ آپ کی ام عبد اللہ فاطمہ علیہ السّلام حضرت امام [[حسن]] علیہ السّلام کی صاحبزادی تھیں جو حضرت رسول کے بڑے نواسے تھے۔ '''
اس طرح حضرت امام محمد باقر علیہ السّلام رسول کے بلند کمالات اور علی علیہ السّلام و فاطمہ کی نسل کے پاک خصوصیات کے باپ اور ماں دونوں سے وارث ہوئے۔
 
== ولادت ==
سطر 54:
== واقعہ کربلا ==
 
تین برس امام محمد باقر علیہ السّلام اپنے جد بزرگوار حضرت امام حسین علیہ السّلام کے زیرِسایہ رہے . جب آپ کاسن پورے تین سال کا ہوا تو امام حسین علیہ السّلام نے مدینہ سے سفر کیا .ا س کم سنی میں امام محمد باقر علیہ السّلام بھی راستے کی تکلیفیں سہنے میں ا پنے بزرگوں کو شریک رہے . امام حسین علیہ السّلام نے مکہ میں پناہ لی . پھر کوفہ کاسفر اختیار کیا اور پھر کربلا پہنچے . ساتویں محرم سے جب پانی بند ہوگیا تو یقیناً امام محمدباقر نے بھی تین یوم پیاس کی تکلیف برداشت کی . یہ خالق کی منشاء کی ایک تکمیل تھی کہ وہ روز عاشور میدان ُ قربانی میںنہیںلائے گئے . ورنہ جب ان سے چھوٹے سن کا بچہ علی اصغر علیہ السّلام تیر ستم کا نشانہ ہوسکتا تھا تو امام محمد باقر علیہ السّلام کابھی قربان گاہ شہادت پر لاناممکن تھا . مگر سلسلہ امامت کادنیامیں قائم رہنا نظام کائنات کے برقرار رہنے کے لیے ضروری اور اہم تھا لٰہذا منظور الٰہی یہ تھا کہ امام محمد باقر علیہ السّلام کربلا کے میدان میں اس طرح شریک ہوئے .عاشور کو دن بھر عزیزوں کے لاشے پر لاشے اتے دیکھنا . بیبیوں میں کہرام , بچوں میں تہلکہ , امام حسین علیہ السّلام کاوداع ہونا اورننھی سی جان علی اصغر علیہ السّلام کا جھولے سے جدا ہوکر میدان میںجانا اور پھر واپس نہ انا ,امام علیہ السّلام کے باوفا گھوڑے کا درخیمہ پر خالی زین کے ساتھ آنا اور پھر خیمہ عصمت میںایک قیامت کابرپا ہونا .یہ سب مناظر امام محمد باقر علیہ السّلام کی انکھوں کے سامنے آئے اور پھر بعد عصر خیموں میں آگ کا لگنا , اسباب کا لوٹا جانا, بیبیوں کے سروں سے چادروں کا اتارا جانا اور آگ کے شعلوں سے بچوں کاگھبرا کرسراسیمہ ومضطرب اَدھر اُدھر پھرنا , اس عالم میں امام محمد باقر علیہ السّلام کے ننھے سے دل پر کیا گزری اور کیا تاثرات ان کے دل پر قائم رہ گئے اس کا اندازہ کوئی دوسرا انسان نہیں کرسکتا۔
 
گیارہ محرم کے بعد ماں اور پھوپھی ,دادی اورنانی تمام خاندان کے بزرگوں کو دشمنوں کی قید میںاسیر دیکھا , یقیناً اگر سکینہ علیہ السّلام کا ہاتھ رسی میں بندھ سکتا ہے تو یقین کہا جاسکتا ہے کہ امام محمد باقر علیہ السّلام کاگلا بھی ریسمان ظلم سے ضرور باندھا گیا . کربلا سے کوفہ او رکوفہ سے شام اور پھر رہائی کے بعد مدینہ کی واپسی ان تمام منازل میں نہ جانے کتنے صدمے تھے جو امام محمد باقر علیہ السّلام کے ننھے سے دل کو اٹھانا پڑے او رکتنے غم والم کے نقش جو دل پر ایسے بیٹھےکہ ائیندہ زندگی میں ہمیشہ برقرار رہے۔
سطر 63:
 
== باپ کی وفات اور امامت کی ذمہ داریاں ==
حضرت امام محمد باقر علیہ السّلام بھر پور جوانی کی منزلوں کو طے کرتے ہوئے ایک ساتھ جسمانی وروحانی کمال کے بلند نقطہ پر تھے اور 83 برس کی عمر تھی جب آپ کے والد بزرگوار حضرت امام زین العابدین علیہ السّلام کی شہادت ہوئی .حضرت نے ا پنے وقت وفات ایک صندوق جس میں اہلِ بیت علیہ السّلام کے مخصوص علوم کی کتب تھیں امام محمد باقر علیہ السّلام کے سپرد کیا نیز اپنی تمام اولادکوجمع کرکے ان سب کی کفالت وتربیت کی ذمہ داری اپنے فرزند امام محمد باقر علیہ السّلام پر قرار دی اور ضروری وصایا فرمائے اس کے بعد امامت کی ذمہ داریاں حضرت امام محمد باقر علیہ السّلام پر ائیں . آپ سلسلہ اہلِ بیت علیہ السّلام کے پانچویں امام ہوئے ہیں جو رسول خدا کے برحق جانشین تھے
 
=== اس دور کی خصوصیات ===
سطر 79:
== علوم اہلبیت علیہ السّلام کی اشاعت ==
 
حضرت علیہ السّلام کے زمانہ میں علوم اہلبیت علیہ السّلام کے تحفظ کااہتمام اور حضرت کے شاگردوں نے ان افادیات سے جو انہیں حضرت امام محمدباقر علیہ السّلام سے حاصل ہوئے. مختلف علوم وفنون اور مذہب کے شعبوں میں کتب تصنیف کیں ذیل میں حضرت کے کچھ شاگردوں کا ذکر ہے اور ان کی تصانیف کانام درج کیا جاتا ہے . جس سے آپ کو اندازہ ہوگا کہ امام محمدباقر علیہ السّلام سے اسلامی دنیا میں علم ومذہب نے کتنی ترقی کی۔
 
*ابان ابن تغلب : یہ علم قرآت اور لغت کے امام مانے گئے ہیں- سب سے پہلے کتاب غریب القرآن یعنی
سطر 116:
== امورِ سلطنت میں مشورہ ==
 
سلطنتِ اسلامیہ حقیقت میں ان اہل بیت رسول کا حق تھی مگر دنیا والوں نے مادی اقتدار کے آگے سر جھکایا اور ان حضرات کو گوشہ نشینی اختیار کرنا پڑی- عام افراد انسانی کی ذہنیت کے مطابق اس صورت میںاگرچہ حکومتِ وقت کسی وقت ان حضرات کی امداد کی ضرورت محسوس کرتی تو صاف طور پر انکار میں جواب دیا جا سکتا تھا مگر ان حضرات کے پیش نظر اعلی ظرفی کا وہ معیار تھا جس تک عام لوگ پہنچے ہوئے نہیں ہوتے- جس طرح امیر المومنین حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام نے سخت موقعوں پر حکومت وقت کو مشورے دینے سے گریز نہیں کیا اسی طرح اس سلسلہ کے تمام حضرات علیہ السّلام نے اپنے اپنے زمانہ کے بادشاہوں کے ساتھ یہی طرزِ عمل اختیار کیا- چنانچہ حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کے زمانہ میں بھی ایسی صورت پیش آئی- واقعہ یہ تھا کہ حکومتِ اسلام کی طرف سے اس وقت تک کوئی خاص سکہ نہیں بنایا گیا تھا- بلکہ روی سلطنت کے سکے اسلامی سلطنت میں بھی رائج تھے- ولید بن عبدالملک کے زمانہ میں سلطنت شام اور سلطان روم کے درمیان اختلافات پیدا ہو گیا- رومی سلطنت نے یہ ارادہ ظاہر کیا کہ وہ اپنے سکوں پر پیغمبر اسلام کی شان کے خلاف کچھ الفاظ درج کرا دے گی اس پر مسلمانوں میں بڑی بے چینی پیدا ہو گئی- ولید نے ایک بہت بڑا جلسہ مشاورت کے ليے منعقد کیا جس میں عالم السلام کے ممتاز افراد شریک تھے- اس جلسہ میں امام محمد باقر علیہ السلام بھی شریک ہوئے اور آپ نے یہ رائے دی کہ مسلمان کو خود اپنا سکہ ڈھالنا چاہئے جس میں ایک طرف لاالٰہ الااللّٰہ اور دوسری طرف محمد رسول اللّٰہ نقش ہو- امام علیہ السّلام کی اس تجویز کے سامنے سر تسلیم خم کیا گیا اور اسلامی سکہ اس طور پر تیار کیا گیا-
 
=== سلطنت بنی امیہ کی طرف سے مزاحمت ===
 
باوجودیکہ امام محمد باقر معاملاتِ ملکی میں کوئی دخل نہ دیتے تھے اور دخل دیا بھی تو سلطنت کی خواہش پر وقارِ اسلامی کے برقرار رکھنے کے ليے- مگر آپ کی خاموش زندگی اور خالص علمی اور روحانی مرجعیت بھی سلطنت وقت کو گوارا نہ تھی چنانچہ ہشام بن عبدالملک نے مدینہ کے حاکم کو خط لکھا کہ امام باقر کو ان کے فرزند امام جعفر صادق کے ہمراہ دمشق بھیج دیا جائے- اس کو منظور یہ تھا کہ حضرت کی عزت و وقار کو اپنے خیال میں دھچکا پہنچائے چنانچہ جب یہ حضرات علیہ السّلام دمشق پہنچے تو تین دن تک ہشام نے ملاقات کا موقع نہیں دیا- چوتھے دن دربار میں بلا بھیجا- ایک ایسے موقع پر کہ جب وہ تخت شاہی پر بیٹھا تھا اور لشکر داہنے اور بائیں ہتھیار لگائے صف بستہ کھڑا تھا اور وسط دربار میں ایک نشانہ تیراندازی کا مقرر کیا گیا تھا اور رؤسائ سلطنت اس کے سامنے شرط باندھ کر تیر لگاتے تھے امام علیہ السلام کے پہنچنے پر انتہائی جراَت اور جسارت کے ساتھ اس نے خواہش کی کہ آپ بھی ان لوگوں کے ہمراہ تیر کا نشانہ لگائیں- ہر چند حضرت علیہ السّلام نے معذرت فرمائی مگر اس نے قبول نہ کیا- وہ سمجھتا تھا کہ آل محمد طویل مدت سے گوشہ نشینی کی زندگی بسر کر رہے ہیں- ان کو جنگ کے فنون سے کیا واسطہ, اور اس طرح منظور یہ تھا کہ لوگوں کو ہنسنے کا موقع ملے- مگر وہ یہ نہ جانتا تھا کہ ان میں سے ہر ایک فرد کے بازو میں علی علیہ السّلام کی قوت اور دل میں امام حسین علیہ السّلام کی طاقت موجود ہے- وہ حکم الٰہی اور فرض کا احساس ہے جس کی وجہ سے یہ حضرات ایک سکون اور سکوت کا مجسمہ نظر آتے ہیں- یہی ہوا کہ جب مجبور ہو کر حضرت نے تیر و کمان ہاتھ میں لیا اور چند تیرپے در پے ایک ہی نشانے پر بالکل ایک ہی نقطہ پر لگائے تو مجمع تعجب اور حیرت میں غرق ہو گیا اور ہر طرف سے تعریفیں ہونے لگیں- ہشام کو اپنے طرزِ عمل پر پشیمان ہونا پڑا- اس کے بعد اس کو یہ احساس ہوا کہ امام علیہ السلام کا دمشق میں قیام کہیں عام خلقت کے دل میں اہل بیت علیہ السّلام کی عظمت قائم کر دینے کا سبب نہ ہو- اس لیے اس نے آپ کو واپس مدینہ جانے کی اجازت دے دی مگر دل میں حضرت علیہ السّلام کے ساتھ عداوت میں اور اضافہ ہو گیا۔
 
== وفات ==
 
سلطنتِ شام کو جتنا امام محمد باقر علیہ السلام کی جلالت اور بزرگی کا اندازہ زیادہ ہوتا گیا اتنا ہی آپ کا وجود ان کے ليے ناقابل برداشت محسوس ہوتا رہا- آخر آپ کو اس خاموش زہر کے حربے سے جو اکثر سلطنت بنی امیہ کی طرف سے کام میں لایا جاتا رہا تھا شہید کرنے کی تدبیر کر لی گئی- وہ ایک زین کا تحفہ تھا جس میں خاص تدبیروں سے زہر پوشیدہ کیا گیا تھا اور جب حضرت اس زین پر سوار ہوئے تو زہر جسم میں سرایت کر گیا۔ چند روز کرب و تکلیف میں بستر بیمار پر گزرے اور آخرت سات ذی الحجہ 114ھ کو 57برس کی عمر میں وفات پائی۔
 
آپ کو حسب وصیت تین کپڑوں کا کفن دیا گیا جن میں سے ایک وہ یمنی چادر تھی جسے اوڑھ کر آپ روز جمعہ نماز پڑھتے تھے اور ایک وہ پیراہن تھا جسے آپ ہمیشہ پہنے رہتے تھے اور جنت البقیع میں اسی قبہ میں کہ جہاں امام حسن علیہ السلام اور امام زین العابدین علیہ السلام دفن ہو چکے تھے، دفن کئے گئے۔