"نکاح" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
سطر 15:
شادی جو خاندانی زندگی کے قیام و تسلسل کا ادارہ ہے، اہل عرب کے ہاں اصول و ضوابط سے آزاد تھا جس میں عورت کی عزت و عصمت اور عفت و تکریم کا کوئی تصور کارفرما نہ تھا۔ اہل عرب میں نکاح کے درج ذیل طریقے رائج تھے<ref>[http://library.urduweb.org/index.php?title=%D8%A7%D8%B3%D9%84%D8%A7%D9%85_%D9%85%DB%8C%DA%BA_%D8%AE%D9%88%D8%A7%D8%AA%DB%8C%D9%86_%DA%A9%DB%92_%D8%AD%D9%82%D9%88%D9%82/%D8%A7%D8%B3%D9%84%D8%A7%D9%85_%D8%B3%DB%92_%D9%82%D8%A8%D9%84_%D8%B9%D9%88%D8%B1%D8%AA_%DA%A9%D8%A7_%D9%85%D8%B9%D8%A7%D8%B4%D8%B1%D8%AA%DB%8C_%D9%85%D9%82%D8%A7%D9%85 اسلام میں خواتین کے حقوق]</ref>
 
(1) زواج البعولۃ
 
(1) ===زواج البعولۃ===
یہ نکاح عرب میں بہت عام تھا۔ اس میں یہ تھا کہ مرد ایک یا بہت سی عورتوں کا مالک ہوتا۔ بعولت (خاوند ہونا) سے مراد مرد کا ’’عورتیں جمع کرنا‘‘ ہوتا تھا۔ اس میں عورت کی حیثیت عام مال و متاع جیسی ہوتی۔ نکاح کی یہ وہ واحد قسم ہے جو چند تبدیلیوں کے بعد مسلمانوں میں رائج ہے ان تبدیلیوں میں مرد کو حد سے حد چار نکاح کی اجازت دی گئ ہے لیکن اس کو اپنی ازواج میں تمام معاملات میں عدل و انصاف کرنے کا سختی سے پابند کیا گیا ہے دوسری اہم تبدیلی کہ عورت کی حیثیت عام مال و متاع سے ختم کرکے اس کے باقا‏عدہ حقوق مقرر کیۓ گۓ ہیں. [[حق مہر]] اور وراثت میں عورت کا حصہ مقرر کیا گیا ہے۔
 
(2) ===زواج البدل===
 
بدلے کی شادی، اس سے مراد دو بیویوں کا آپس میں تبادلہ تھا۔ یعنی دو مرد اپنی اپنی بیویوں کو ایک دوسرے سے بدل لیتے اور اس کا نہ عورت کو علم ہوتا، نہ اس کے قبول کرنے، مہر یا ایجاب کی ضرورت ہوتی۔ بس دوسرے کی بیوی پسند آنے پر ایک مختصر سی مجلس میں یہ سب کچھ طے پاجاتا۔
 
 
(3) نکاح متعہ (<span style='color: Green'>تفصیل کے لیے دیکھیں:</span> [[نکاح متعہ]])
===نکاح متعہ===
(3) نکاح متعہ (<span style='color: Green'>تفصیل کے لیے دیکھیں:</span> [[نکاح متعہ]])
 
یہ نکاح بغیر خطبہ، تقریب اور گواہوں کے ہوتا۔ عورت اور مرد آپس میں کسی ایک مدت مقررہ تک ایک خاص مہر پر متفق ہو جاتے . یہ مدت ایک سال یا ایک ماہ یا ایک گھنٹہ کے لئے بھی ہوسکتی ہے. مدت مقررہ پوری ہوتے ہی نکاح خود بخود ختم ہو جاتا تھا طلاق کی ضرورت نہیں پڑتی تھی
 
(4) ===نکاح الخدن===
 
دوستی کی شادی، اس میں مرد کسی عورت کو اپنے گھر بغیر نکاح، خطبہ اور مہر کے رکھ لیتا اور اس سے ازدواجی تعلقات قائم کر لیتا اور بعد ازاں یہ تعلق باہمی رضا مندی سے ختم ہو جاتا کسی قسم کی طلاق کی ضرورت نہیں تھی۔ اگر اولاد پیدا ہو جاتی تو وہ ماں کی طرف منسوب ہوتی۔
 
یہ طریقہ آج کل مغربی معاشرے میں بھی رائج ہے۔
 
(5) ===نکاح الضغینہ===
 
جنگ کے بعد مال اور قیدی ہاتھ لگتے اور جاہلیت میں فاتح کے لیے مفتوح کی عورتیں، مال وغیرہ سب مباح تھا یہ عورتیں فاتح کی ملکیت ہو جاتیں اور وہ چاہتا تو انہیں بیچ دیتا چاہتا تو یونہی چھوڑ دیتا اور چاہتا تو ان سے مباشرت کرتا یا کسی دوسرے شخص کو تحفہ میں دے دیتا۔ یوں ایک آزاد عورت غلام بن کربک جاتی۔ اس نکاح میں کسی خطبہ، مہر یا ایجاب و قبول کی ضرورت نہ تھی۔
 
(6) ===نکاح شغار===
 
وٹے سٹے کی شادی۔ یہ وہ نکاح تھا کہ ایک شخص اپنی زیرسرپرستی رہنے والی لڑکی کا نکاح کسی شخص سے اس شرط پر کر دیتا کہ وہ اپنی کسی بیٹی، بہن وغیرہ کا نکاح اس سے کرائے گا۔ اس میں مہر بھی مقرر کرنا ضروری نہ تھا اسلام نے اس کی بھی ممانعت فرما دی۔
 
(7) ===نکاح الاستبضاع===
 
فائدہ اٹھانے کے لیے عورت مہیا کرنے کا نکاح۔ مراد یہ ہے کہ ایک شخص اپنی بیوی کو کسی دوسرے خوبصورت مرد کے ساتھ ازدواجی زندگی گزارنے کے لیے بھیج دیتا اور خود اس سے الگ رہتا تاکہ اس کی نسل خوبصورت پیدا ہو اور جب اس کو حمل ظاہر ہو جاتا تو وہ عورت پھر اپنے شوہر کے پاس آجاتی۔
 
(8) ===نکاح الرہط===
 
اجتماعی نکاح۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ تقریباً دس آدمی ایک ہی عورت کے لیے جمع ہوتے اور ہر ایک اس سے مباشرت کرتا اور جب اس کے ہاں اولاد ہوتی تو وہ ان سب کو بلواتی اور وہ بغیر کسی پس وپیش کے آجاتے پھر وہ جسے چاہتی (پسند کرتی یا اچھا سمجھتی) اسے کہتی کہ یہ بچہ تیرا ہے اور اس شخص کو اس سے انکار کرنے کی اجازت نہ ہوتی تھی۔
 
(9) ===نکاح البغایا===
 
فاحشہ عورتوں سے تعلق، یہ بھی نکاح رہط سے ملتا جلتا ہے مگر اس میں دو فرق تھے، ایک تویہ کہ اس میں دس سے زیادہ افراد بھی ہو سکتے تھے جبکہ نکاح رہط میں دس سے زیادہ نہ ہوتے تھے۔ دوسرے یہ کہ ان مردوں سے بچہ منسوب کرنا عورت کا نہیں بلکہ مرد کا کام ہوتا تھا۔