"1948ء کی عرب اسرائیلی جنگ" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م درستی املا بمطابق فہرست املا پڑتالگر
صفائی بذریعہ خوب, replaced: کردیا ← کر دیا (4)
سطر 23:
}}
 
[[1948ء]] میں ریاست [[اسرائیل]] کے قیام کے ساتھ ہی عرب اور اسرائیلی میں پہلی بار ایک دوسرے سے ٹکراۓ اور اس ٹکراؤ کو عرب اسرائیل جنگ 1948ء کا نام دیا گیا جبکہ اسرائیلی اسے "جنگ آزادی" کہتے ہیں۔ اسرائیل نے فلسطین پر قابض ہوتے ہی علاقے کی عرب اقلیت پر ظلم کے پہاڑ توڑ ڈالے جس کی وجہ سے عربوں کو مجبوراً اپنا وطن چھوڑنا پڑا۔ بے خانماں عربوں کی تعداد جلد ہی 10 لاکھ تک پہنچ گئی۔ عرب پوری طرح مسلح یہودی دستوں کا مقابلہ نہ کرسکے اور [[15 مئی]] [[1948ء]] تک اندرون فلسطین عربوں کی مزاحمت ختم ہوگئی۔ 14 اور 15 مئی کی درمیانی شب 12 بجے یہودیوں نے [[تل ابیب]] میں ریاست اسرائیل کے قیام کا اعلان کردیا۔کر دیا۔
 
{{عرب اسرائیل تنازع}}
 
عربوں نے اس ریاست کو تسلیم کرنے انکار سے کردیاکر دیا اور [[مصر]]، [[شام]]، [[اردن]]، [[لبنان]] اور [[عراق]] کی افواج نے اسرائیل پر حملہ کردیا۔کر دیا۔ یہ جنگ [[1949ء]] کے امن معاہدوں کے تحت ختم ہوگئی۔
 
== پس منظر ==
سطر 37:
== واقعات جنگ ==
 
چنانچہ مصر سے بدعہدی کرتے ہوۓ انگریزوں نے [[پہلی جنگ عظیم]] کے اختتام پر 1918ء میں فلسطین پر قبضہ کر لیا ۔ [[جمعیت الاقوام]] (لیگ آف نیشنز) نے 25 اپریل 1920 کو فلسطین پر انگریزوں کے قبضہ کو جائز قرار دے دیا ۔ برطانیہ نے مزید عیّاری یہ کی کہ 1917ء میں برطانیہ کے وزیر خارجہ آرتھر بیلفور نے برطانیہ کی طرف سے لارڈ راتھ شِلڈ نامی صیہونی لیڈر کو ایک خط لکھا جس میں فلسطین میں یہودی ریاست بنانے کی یقین دہانی کرائی۔ اس طرح 14 مئی کو ریاست اسرائیل کے قیام کا اعلان کردیا۔کر دیا۔ کیونکہ عربوں کی مزاحمت ختم ہوچکی تھی اس لیے 15 مئی کی صبح مصر، اردن اور عراق کی فوجیں عربوں کے مفاد کے تحفظ میں فلسطین میں داخل ہونا شروع ہوگئیں۔ بعد میں سعودی عرب ایک دستہ بھی مصری فوج سے آن ملا لیکن عربوں کی اس متحدہ فوج کو بھی کوئی بڑی کامیابی حاصل نہ ہو سکی۔ شام اور لبنان جو ایک سال قبل آزاد ہوئے تھے ان کے حملے بھی قطعی بے اثر رہے۔ مصری فوج غزہ شہر اور اس سے متصل مختصر علاقے کے علاوہ اور کسی علاقے پر قبضہ نہیں کرسکی۔ تاہم اردن کے عرب لیجن نے وسطی فلسطین کے بیشتر حصے اور [[بیت المقدس]] کے قدیم شہر کو یہودیوں کے قبضے میں جانے سے بچالیا۔ اس جنگ میں پاکستان کی پاک فضائیہ (پاکستان ائیر فورس) نے بھی حصہ لیا۔ 6 روزہ جنگ میں پاک فضائیہ کے ہوا بازوں (پائلٹوں) نے بھی حصہ لیا۔ پاکستانی ہوا باز اردن، مصر اور عراق کی فضائیہ کی جانب سے لڑے اور اسرائیلی فضائیہ کے 3 جہازوں کو مار گرایا جبکہ ان کا کوئی نقصان نہیں ہوا اسرائیلی پیش قدمی رکنے کی سب سے بڑی وجہ قرار پائے۔
اس کے علاوہ جنگ یوم کپور کے موقع پر اس جنگ کے دوران پاکستان نے مصر اور شام کی مدد کے لیے 16 ہوا باز مشرق وسطی بھیجے لیکن ان کے پہنچنے تک مصر نے پہلے ہی جنگ بندی کردی تاہم شام ابھی بھی اسرائیل سے حالت جنگ میں تھا۔ اس لیے 8 پاکستانی ہوا بازوں نے شام کی جانب سے جنگ میں حصہ لیا اور مگ-21 طیاروں میں پروازیں کیں۔ پاکستان کے فلائٹ لیفٹیننٹ اے ستار علوی یوم کپور جنگ میں پاکستان کے پہلے ہوا باز تھے جنہوں نے اسرائیل کے ایک میراج طیارے کو مار گرایا۔ انہیں شامی حکومت کی جانب سے اعزاز سے بھی نوازا گیا۔ ان کے علاوہ پاکستانی ہوا بازوں نے 4 ایف 4 فینٹم طیارے تباہ کئے جبکہ پاکستان کا کوئی جانی یا مالی نقصان نہیں ہوا۔ یہ پاکستانی ہوا باز 1976ء تک شام میں موجود رہے اور شام کے ہوا بازوں کو جنگی تربیت دیتے رہے ۔