"صحابی" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
صفائی بذریعہ خوب, replaced: ہوجائے ← ہو جائے (2)
درستی املا
سطر 17:
* (3)محمد اللہ کے رسول ہیں اور جو ان کے ساتھ ہیں وہ کافروں کے مقابلہ میں سخت ہیں (اور) آپس میں ایک دوسرے کے لیے رحم دل ہیں،تم انہیں دیکھوگے کہ کبھی رکوع میں ہیں،کبھی سجدے میں(غرض)اللہ کے فضل اور خوشنودی کی تلاش میں لگے ہوئے ہیں ،ان کی علامتیں سجدہ کے اثر سے ان کے چہروں پر نمایاں ہیں،یہ ہیں ان کے وہ اوصاف جو تورات میں مذکور ہیں...الخ۔ (الفتح:29)
*
* (4)اور مہاجرین اور انصار میں سے جو لوگ پہلے ایمان لائے اور جنہوں نے نیکی کے ساتھ اُن کی پیروی کی،اللہ ان سب سے راضی ہوگیاہو گیا ہے اور وہ اس سے راضی ہیں اور اللہ نے ان کے لیے ایسے باغات تیار کررکھے ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں ،جن میں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے،یہی بڑی زبردست کامیابی ہے۔ (التوبہ:100)
*
* (5)اﷲ تعالیٰ نے تم کو ایمان کی محبت عطافرمائی اور ایمان کو تمہارے دلوںمیں مرغوب کردیا،کر دیا، کفروفسق (گناہِ کبیرہ) عصیان (گناہِ صغیرہ) سے تم کو نفرت عطاکی، ایسے ہی لوگ اﷲ کے فضل وانعام سے راہِ راست پر ہیں۔ (الحجرات:7)
* (6)ان لوگوں کے دلوں میں اﷲ تعالیٰ نے ایمان ثبت کردیاکر دیا ہے اور ان کو اپنے فیضِ غیب سے مضبوطی عطا فرمائی۔(المجادلہ:22)
 
== احادیث پاک میں صحابہ کا مقام ==
سطر 45:
"عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا تَسُبُّوا أَصْحَابِي لَا تَسُبُّوا أَصْحَابِي فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَوْ أَنَّ أَحَدَكُمْ أَنْفَقَ مِثْلَ أُحُدٍ ذَهَبًا مَا أَدْرَكَ مُدَّ أَحَدِهِمْ وَلَا نَصِيفَهُ"۔ <ref>مسلم، کتاب فضائل الصحابۃ، حدیث نمبر:4610</ref>
 
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:میرے صحابہ کو برا نہ کہو؛اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر تم احد پہاڑ کے برابر بھی سونا خرچ کرو تو وہ ان کے ایک مد بلکہ اس کے نصف خرچ کرنے کے برابر بھی نہیں ہوسکتا۔ہو سکتا۔
 
ایک اور روایت میں آپ نے ارشاد فرمایا:
سطر 86:
==صحابہ کا زمانہ==
 
صحابہ کرام کا مبارک زمانہ ابتدائے بعثت سے شروع ہوکر پہلی صدی کے آخر تک ختم ہوگیاہو گیا اوراس طرح رسول اللہﷺ کی معجزانہ پیشین گوئی پوری ہوئی جو ان الفاظ میں کی گئی ہے۔
"فَإِنَّ رَأْسَ مِائَةٍ لَا يَبْقَى مِمَّنْ هُوَ الْيَوْمَ عَلَى ظَهْرِ الْأَرْضِ أَحَدٌ"۔<ref>بخاری، کتاب موقیت الصلوٰۃ،بَاب السَّمَرِ فِي الْفِقْهِ وَالْخَيْرِ بَعْدَ الْعِشَاءِ،حدیث نمبر:566</ref>
ترجمہ:جو لوگ آج روئے زمین پر موجود ہیں ان میں سے سو سال کے بعد کوئی باقی نہ رہے گا۔
سطر 92:
صحابہ کرام عین دین کی بنیاد ہیں، دین کے اول پھیلانے والے ہیں، انہوں نے حضور اقدسﷺ سے دین حاصل کیا اور ہم لوگوں تک پہنچایا، یہ وہ مبارک جماعت ہے کہ جس کو اللہ جل شانہ نے اپنے نبی پاکﷺ کی مصاحبت کے لیے چنا اور اس بات کی مستحق ہے کہ اس مبارک جماعت کو نمونہ بناکر اس کا اتباع کیا جائے۔
عبداللہ بن مسعود فرمایا کرتے تھے جسے دین کی راہ اختیار کرنی ہے تو ان کی راہ اختیار کرے جو اس دنیا سے گزر چکے ہیں اور وہ حضرت محمدﷺ کے صحابہ ہیں جو اس امت کا افضل ترین طبقہ ہے ،قلوب ان کے پاک تھے، علم ان کا گہرا تھا، تکلف اور بناؤٹ ان کے اندر نہیں تھی،اللہ جل شانہ نے انھیں اپنے نبی کی صحبت اور دین کی اشاعت کے لیے چنا تھا، اس لیے ان کی فضیلت کوپہچانو ان کے نقش قدم پر چلو اور طاقت بھر ان کے اخلاق اور ان کی سیرتوں کو مضبوط پکڑو ،اس لیے کے وہی ہدایت کے راستے ہیں۔<ref>مشکوۃ،باب اعتصام بالکتاب والسنۃ ،حدیث نمبر:193،ازرزین</ref>
انسان کے فرائض میں سب سے مقدم اور سب سے اہم فرض یہ ہے کہ اخلاق انسانی کی اصلاح کی جائے ،علم اور فن،تہذیب وتمدن،صنعت وحرفت تمام چیزیں دنیا میں آئیں اور آتی رہیں گی؛ لیکن انسانیت کو تہذیب سے آراستہ کرنا بہت ضروری تھا اس لیے دنیا میں جب سب سے پہلے انسان حضرت آدم علیہ السلام کو بھیجا گیا تو اسی ذمہ داری کے ساتھ بھیجا گیا پھر ان کے بعد آنے والے بڑے بڑے پیغمبر اسی سلسلے کو یعنی تہذیب نفوس کو آگے بڑھاتے رہے اس کے بعد سب سے آخر میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام کمالات کا مجموعہ بناکر بھیجا گیا اور پھر اعلان کردیاکر دیا گیا کہ :
"اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًاۭ"۔(المائدہ: 3)
 
آج میں نے تمہارے لیے تمہارے دین کومکمل کردیا،کر دیا، تم پر اپنی نعمت پوری کردی اور تمہارے لیے اسلام کو دین کے طور پر (ہمیشہ کے لیے) پسند کر لیا۔
اب انسانوں کے اخلاق سدھارنے کے لیے قیامت تک کوئی نیا نبی آنے والا نہیں ہے،اگر کوئی انسان نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کا مطالعہ کرنا چاہے یا آپ کی تربیت کا انداز دیکھنا چاہے ،آپ کے اقوال وافعال اور اعمال کا نمونہ دیکھنا چاہےتو وہ صحابہ کرام کی مقدس جماعت ہے،صحابہ کرام کی زندگیوں کا مطالعہ ایمانی کیفیت کو بڑھاتا ہے، زندگی کے اصول سکھاتا ہے،عقائد ،عبادات ،معاشرت اورمعاملات انسان کے درست ہوتے ہیں، سنت اور بدعت کی پہچان ہوتی ہے۔
اس زمانے کی سب سے بڑی ضرورت یہ ہے کہ صحابہ کرام کی مقدس زندگی کو دنیا کے سامنے اس طرح پیش کیا جائے جس سے لوگوں میں شوق عمل پیدا ہو اور اس مثال کو پیش نظر رکھ کر لوگ خود بخود اپنے عقائد واعمال کی طرف مائل ہوں۔<ref>خلاصہ سیر الصحابہ:5/7</ref>