"بلوچستان" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م خودکار درستی+ترتیب+صفائی (9.7)
درستی املا
سطر 92:
=== جدید تاریخ ===
پاكستان كے ساحل كا ذيادہ تر بلوچستان كا ساحلی علاقہ ہے۔قیام پاکستان کے وقت یہ [[بنگلہ دیش|مشرقی بنگال]]، [[سندھ]]، [[پنجاب]] اور [[صوبہ خيبر پختونخوا]] کی طرح [[برطانوی راج]] کا باقاعدہ حصہ نہیں تھا بلکہ 1947 تک پاکستان کا موجودہ بلوچستان کا صوبہ پانچ حصوں میں منقسم تھا۔پانچ میں سے چار حصوں میں شاہی ریاستیں تھیں جن کے نام [[قلات]]، [[خاران]]، [[مکران]] اور [[لسبیلہ]] ایک برٹش انڈیا کا علاقہ برٹش بلوچستان تھا۔قلات، خاران، مکران اور لسبیلہ پر برطانوی ایجنٹ بھی نگران تھے۔قلات، لسبیلہ،خاران اور مکران کا علاقے وہی تھے جو آج بھی اسی نام کی ڈویژن کی صورت میں موجود ہیں۔ برٹش بلوچستان میں موجودہ بلوچستان کی پشتون پٹی(لورالائی، پشین، مسلم باغ، قلعہ سیف اللہ، قلعہ عبداللہ، ژوب، چمن) کے علاوہ کوئٹہ، اور بلوچ علاقہ ضلع چاغی اور بگٹی اور مری ایجنسی (کوہلو) کے علاقہ شامل تھے۔اس وقت گوادر خلیجی ریاست عمان کا حصہ تھا جو خان آف قلات نے عمان کو دیا تھا۔
مکران اور لسبیلہ کے پاس سمندری پٹی تھی جبکہ باقی تین علاقہ قلات، خاران اور برٹش بلوچستان خشکی ميں گھرے تھے۔ قیام پاکستان کے وقت تین جون کے منصوبہ کے تحت برٹش بلوچستان نے پاکستان میں شمولیت کا فیصلہ شاہی جرگہ اور کوئٹہ میونسپل کمیٹی کے اراکین نے کرناتھا۔ اور انہوں نے پاکستان کو بھارت پر ترجیح دی جبکہ باقی چاروں علاقوں لسبیلہ، خاران، قلات اور مکران کے حکمرانوں نے بھارت یا پاکستان میں شمولیت کا فیصلہ کرنا تھا۔ لسبیلہ، خاران اور مکران کے حکمرانوں نے پاکستان سے الحاق کا اعلان کردیاکر دیا جبکہ قلات نے ایسا نہیں کیا۔ قلات میں گو کہ خان آف قلات حکمران تھے مگر دو منتخب ایوان بھی تھے اور ان دونوں ایوانوں نے پاکستان سے الحاق کی اکثریت سے مخالفت کی تھی۔تاہم ان ایوانوں کی حیثیت مشاورتی تھی اصل فیصلہ خان آف قلات نے ہی کرنا تھا۔جب لسبیلہ، مکران اور خاران کے حکمرانوں نے پاکستان سے الحاق کر لیا تو قلات کی ریاست مکمل طور پر پاکستانی علاقہ میں گھر گئی۔ انگریزی میں ایسے علاقہ کو انکلیو کہا جاتا ہے۔ سب سے آخر میں مارچ 1948 میں قلات نے بھی پاکستان سے الحاق کا اعلان کر دیا۔خان آف قلات [[میراحمد یار خان]]کے اس فیصلے کے خلاف انکے چھوٹے بھائی [[شہزادہ میر عبدالکریم]] نے مسلح جدوجہد شروع کردی جس میں انہیں افغانستان کی پشت پناہی حاصل تھی۔ اس مسلح جدوجہد کا نتیجہ پاکستان کی فوجی کارروائی کی صورت میں نکلا۔ یہ فوجی کارروائی صرف قلات تک محدود تھی۔کارروائی کے نتیجے میں [[شہزادہ میر عبدالکریم]] افغانستان فرار ہوگیا۔ہو گیا۔
بعد میں برٹش بلوچستان کو بلوچستان کا نام دے دیا گیا۔ جب کہ قلات، مکران، خاران اور لسبیلہ کو ایک اکائی بنا کر بلوچستان اسٹیٹس یونین کا نام دیا گیا۔ 1955 میں ون یونٹ کے قیام کے وقت برٹش بلوچستان کا نام کوئٹہ ڈویژن کر دیا گیا اور بلوچستان اسٹیٹس یونین کا نام قلات ڈویژن کر دیا گیا اور یہ دونوں علاقے مغربی پاکستان صوبے کا حصہ بن گئے۔1958 میں اس وقت کے وزیراعظم ملک فیروزخان نون جن کا تعلق پنجاب سے تھا، نے عمان سے کامیاب مذاکرات کر کے گوادر کے علاقہ کی ملکیت بھی حاصل کر لی۔ 1969 میں ون یونٹ کو توڑا گیا اور چار صوبےبنے تو قلات ڈویژن، کوئٹہ ڈویژن اور گوادر کو ملا کر موجودہ صوبہ بلوچستان وجود میں آیا۔سن چھپن کے آئین کے تحت بلوچستان کو [[مغربی پاکستان]] کے ایک یونٹ میں ضم کر دیا گیا سن ستر میں جب عام انتخابات ہوئے اس میں پہلی بار بلوچستان ایک الگ صوبہ بنا بلوچستان میں نیشنل عوامی پارٹی فاتح رہی اور سن بہتر میں پہلی بار بلوچستان میں منتخب حکومت قائم ہوئی۔سن 1973 تک بلوچستان گورنر جنرل کے براہ راست کنٹرول میں رہا۔